عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری سردار حسین بابک کا تعلق بونیر کے ایک سیاسی خاندان سے ہے اور سیاسی بصارت انہیں وراثت میں ملی ہے۔ انہوں نے بی ایس سی پشاور کے اسلامیہ کالج سے کی اور اسکے بعد پشاور یونیورسٹی سے جرنل ازم کی ڈگری حاصل کی۔ سردار حسین بابک معروف انگریزی اخبار دی نیشن اور بین الاقوامی اداروں میں بھی صحافت کرچکے ہیں، جسکی وجہ سے انہیں صحافتی تجربہ بھی حاصل ہے۔ 2008ء سے 2013ء تک خیبر پختونخوا اسمبلی میں وزیر تعلیم بھی رہ چکے ہیں۔ 2013ء سے 2018ء کے انتخابات میں بھی بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور 2018ء کے گذشتہ انتخابات میں بھی بونیر کے حلقے پی کے 22 سے کامیاب قرار پائے۔ بابک کا شمار خیبر پختونخوا کی منجھی ہوئی سیاسی شخصیات میں ہوتا ہے۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے ان سے خصوصی گفتگو کی، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔(ادارہ)
اسلام ٹائمز: آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسع کے حوالے سے آپکا اور آپکی جماعت کا کیا موقف ہے، کہا جا رہا ہے کہ اپوزیشن اس مسئلہ کو متنازعہ بنا رہی ہے۔؟
سردار حسین بابک: عمران خان کی نااہل ٹیم نے آرمی چیف کی جو بے توقیری کی، وہ تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی۔ عدالت عظمٰی کے فیصلے پر تحفظات ہیں، ایک منتخب وزیراعظم کو آئین میں گنجائش نہ ہوتے ہوئے بھی نااہل کیا گیا، جبکہ ان کے مقابلے میں آئین اور آرمی ایکٹ میں توسیع کی گنجائش نہ ہوتے ہوئے بھی توسیع دیدی گئی۔ سلیکٹڈ وزیراعظم عمران خان نے عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد حزب اختلاف سے مخاطب ہو کر جو لب و لہجہ استعمال کیا، وہ قابل اعتراض ہے، ایسے موقع پر جب قانون سازی ہونی ہے اور حکومت کو اپوزیشن کے تعاون کی اشد ضرورت ہوگی، وہیں وزیراعظم بات بگاڑ رہے ہیں۔ آرمی چیف کے خلاف آئینی درخواست کی سماعت کے دوران حزب اختلاف کی جماعتوں نے تدبر سے کام لیا ہے، ہم نے آرمی کی مدت ملازمت کی توسیع کو متنازع نہیں بنایا، مگر اس کے باوجود وزیراعظم کا رویہ غیر مناسب تھا۔
اب سب پر یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کو کسی نے متنازع نہیں بنایا، تاہم حکومت کی نااہل ٹیم نے اسے متنازعہ بنایا۔ وہ سمری پر سمری اور نوٹیفیکیشن پر نوٹیفیکیشن جاری کرتے رہے جس کے باعث آئینی درخواست کی سماعت کے دوران آرمی چیف کی ذات سے متعلق سوالات اُٹھتے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ عدالت عظمٰی نے حکومت کو بڑے امتحان میں ڈال دیا ہے، 6 ماہ کے دوران اسے قانون سازی کرنا ہوگی، قومی اسمبلی میں حکمران جماعت کو سادہ اکثریت حاصل ہے، جبکہ سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں کا پلڑا بھاری ہے، حکومت کو حزب اختلاف کی جماعتوں کا تعاون درکار ہوگا، جس کے بغیر قانون سازی نہیں ہوسکے گی۔
اسلام ٹائمز: سابق وزیراعظم نواز شریف کو طبی بنیادوں پر باہر جانیکی اجازت مل گئی، اس عدالتی فیصلے کو کیسا دیکھتے ہیں۔؟
سردار حسین بابک: سابق وزیراعظم کو طبی بنیادوں پر باہر جانے کی عدالتی اجازت قابل اطمینان ہے۔ یہ بہت اچھا ہوا کہ عدالت نے نواز شریف کی صحت کو دیکھتے ہوئے ان کو علاج کیلئے باہر جانے کی اجازت دی۔ انسانی بنیادوں پر عدالتی فیصلہ قابل تحسین ہے۔ کاش یہ فیصلہ خود حکومت کر لیتی، لیکن افسوس کہ حکومت ایسا کرنے میں ناکام رہی۔ حکومت اس معاملے میں دو محاذوں پر کھیل رہی تھی، ایک طرف تو انسانیت کا ڈھونگ رچا رہی تھی تو دوسری جانب بارگیننگ بھی کر رہی تھی۔ عدالت نے میرٹ اور انصاف پر مبنی فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کو بھی علاج اور ڈاکٹر کے حوالے سے ہر جائز موقع ملنا چاہیئے، تاکہ وہ بھی رو بہ صحت ہو جائیں اور انصاف کا بول بالا ہو۔
اسلام ٹائمز: عوامی نیشنل پارٹی نے پہلے کالا باغ کی مخالفت کی اور اب کرتارپور راہداری پر بھی خوش نہیں ہے، کہا جاتا ہے کہ جب بھی پاکستان مستحکم ہونیکی کوشش کرتا ہے، اے این پی رکاؤٹ پیدا کرتی ہے۔؟
سردار حسین بابک: پہلے چند باتیں سمجھنا ضروری ہیں، ملکی معیشت کی بہتری کیلئے سیاسی استحکام بہت ضروری ہے، مستحکم جمہوریت کے بغیر ملکی معیشت آگے نہیں بڑھ سکتی۔ موجودہ حکومت کے پاس عوامی مینڈیٹ نہیں بلکہ مقتدر قوتیں اسے لے آئی ہیں، اس کا ہر فیصلہ انہی کے حکم پر ہوگا، ایسے نااہل لوگ کرسی پر زبردستی بٹھائے گئے ہیں۔ کرتارپور راہداری کھولنا اچھی بات ہے، لیکن اگر ملکی معیشت ٹھیک کرنا ہے تو وسطی ایشیاء کی طرف جانے والے تمام راستے کھولنے ہونگے۔ ملک میں وسائل کی کمی نہیں، قوم کی ترقی کے راستے بند کئے جاتے ہیں، جس کا پاکستان مزید متحمل نہیں ہوسکتا، آخر کب تک پختون، بلوچ اور دوسری چھوٹی قومیتیں جنگی معیشت کیلئے قربانیاں دیتی رہیں گی۔ پاکستان کو صحیح ڈگر پر لانے کیلئے دو کام ضروری ہیں، ایک یہ کہ ہر ادارہ اپنے دائرہ اختیار میں کام کرے اور دوسرا پارلیمان کو اختیار ملے۔
جب تک عوام کی نمائندہ پارلیمان کو اختیار نہیں ملے گا اور اختیار کی چابی عوام کے بجائے بندوق اور بوٹوں والوں کے پاس ہوگی تو ملک ترقی نہیں کرے گا۔ نئے پاکستان والوں نے تو قائداعظم اور علامہ اقبال کا تصور ہی ختم کر دیا، راہداری کھولنا اچھی بات ہے، لیکن یہ بھی درست نہیں کہ آپ یہاں پختونوں کیلئے تجارتی راستے بند کریں۔ کرتارپور راہداری کھولنے کو میں غلط نہیں کہوں گا، لیکن ایک سوچ ہے، جو خالصتان بنانا چاہتی ہے، جس کا دارالحکومت لاہور ہوگا اور ایسا لگ رہا ہے کہ ہم اسی طرف چل رہے ہیں۔ معیشت کیلئے راہداری کھولنا اچھی بات ہے، لیکن جیسے میں نے پہلے عرض کی کہ اگر ملکی معیشت ٹھیک کرنا ہے تو وسطی ایشیاء کی طرف جانے والے تمام راستے کھولنے ہونگے، تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی یہ راستے کھلے ہیں، پشاور اور کوئٹہ تجاری مراکز بنے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہاں ایک نہیں دو پاکستان ہیں، ایک پنجاب کیلئے اور ایک ہمارے لئے۔
اسلام ٹائمز: ضم شدہ قبائلی اضلاع کی معدنیات سے متعلق ترمیمی بل پر اے این پی کو تشویش کیوں ہے۔؟
سردار حسین بابک: قبائلی اضلاع کے وسائل پر پہلا حق مقامی افراد کا ہے، لیکن موجودہ حکومت دہشت گردی سے متاثرہ عوام سے ان کا حق چھیننا چاہتی ہے۔ صوبے میں ضم اضلاع کو پہلے ہی بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا گیا ہے اور اب انضمام کے بعد معدنیات سے متعلق ترمیمی بل کے تحت حکومت ان علاقوں پر مزید قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ حکومت شروع سے پشتونوں کے ساتھ امتیازی سلوک کر رہی ہے اور اس بار بھی ایک منصوبے کے تحت دھاندلی کے ذریعے سلیکٹڈ شخص کو کرسی پر بٹھایا گیا۔ جتنے بھی پشتون رہنماء ہیں، انہیں سازش کے ذریعے باہر رکھا گیا۔ پشتونوں کو ہمیشہ استعمال کیا گیا ہے، اے این پی کے علاوہ کسی نے بھی پشتونوں کے حقوق کیلئے جدوجہد نہیں کی۔
آج اگر نئے اضلاع کو صوبے کے دھارے میں شامل کیا گیا، آج اگر یہاں گورنر بیٹھا ہے، اسمبلی ہے اور اس اسمبلی میں پشتونوں کی حقوق کی بات ہوتی ہے تو یہ سب باچا خان کے جدوجہد کے ثمرات ہیں۔ تبدیلی سرکار نے مہنگائی سے غریب عوام کا جینا محال کر دیا ہے، عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے عوام سے جو وعدے کئے تھے، آج تک ایک بھی پورا نہیں کیا، اگر ہم اپنے آپ سے عہد کریں اور ایک ہو جائیں تو کوئی بھی ہم سے ہمارا حق چھین نہیں سکتا۔
اسلام ٹائمز: خیبر پختونخوا اسمبلی میں ترقیاتی فنڈز کی تقسیم کا معاملہ حکومت کیساتھ کن شرائط پر حل ہوا ہے۔؟
سردار حسین بابک: خیبر پختونخوا اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ترقیاتی فنڈز کی تقسیم سے پیدا ہونے والے تنازعہ کا مذاکرات کے ذریعے حل نکالا گیا ہے۔ وزیراعلٰی کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی اپوزیشن کے ساتھ بیٹھی، جس کے تحت 35 اور 65 کا فارمولا طے ہوا۔ حکومتی ارکان کو فارمولے کے مطابق 10، 10 کروڑ جبکہ حزب اختلاف کے ارکان کو 3، 3 کروڑ روپے ملیں گے، یہی فنڈز ترقیاتی کاموں پر خرچ ہونگے۔ مذاکراتی کمیٹی میں طے ہوا کہ حکومتی خواتین اور اقلیتی ارکان کو 5، 5 کروڑ روپے ملیں گے، جبکہ اپوزیشن کی خواتین اور اقلیتی ارکان کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے حوالے سے پالیسی واضح نہ ہوسکی۔ کمیٹی نے معاملات طے کرکے معاہدہ کیا۔
ترقیاتی فنڈز کی تقسیم کا تنازع خوش اسلوبی سے حل کیا گیا ہے، تاہم اس کے باوجود بھی اپوزیشن کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ حکومتی ارکان کو 10، 10 کروڑ اور اپوزیشن ارکان کو 3، 3 کروڑ روپے دینا زیادتی ہے۔ اپوزیشن کی خواتین اور اقلیتی ارکان کو نظر انداز کرنے سے ان کی حق تلفی ہوئی ہے۔ اگر حکومتی ارکان کو 10، 10 کروڑ روپے ملتے ہیں تو اس کے مقابلے میں حزب اختلاف کے ارکان کو کم از کم 5، 5 کروڑ روپے ملنے چاہیئے تھے۔ اپوزیشن کی خواتین اور اقلیتی ارکان کو بھی فنڈز ملنے چاہیئیں، صوبہ کے وسائل پر جس طرح حکومتی ارکان کا حق ہے، اسی طرح حزب اختلاف کے ارکان کا بھی حق ہے، جب تک فنڈز کی منصفانہ تقسیم نہیں ہوگی، تب تک صوبہ کے تمام اضلاع ایک ساتھ ترقی نہیں کرسکیں گے۔
اسلام ٹائمز: اپوزیشن، حکومتی اور دیگر سیاسی رہنما ایک دوسرے کیخلاف نازیبا زبان استعمال کرتے ہیں، آخر کیا وجہ ہے کہ سیاست سے شائستگی ختم ہوتی جا رہی ہے اور عدم برداشت کے کلچر کو پروآن چڑھایا جا رہا ہے۔؟
سردار حسین بابک: اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سیاست میں ذہنی اور اخلاقی مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف اخلاق سے گری ہوئی حرکت، بداخلاقی، بدزبانی اور گالم گلوچ سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں کا وطیرہ بنتا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے غلط استعمال اور الیکٹرانک میڈیا پر لائیو پروگرامز اور جلسوں کی لائیو کوریج کے دوران گالم گلوچ بداخلاقی اور اخلاق سے گری ہوئی حرکات دکھانے سے پورا معاشرہ بگاڑ اور توڑ پھوڑ کا شکار ہوا ہے۔ آپ کی بات درست ہے کہ سیاست میں شائستگی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ سیاستدانوں کی جانب سے ایک دوسرے کا گالیوں سے استقبال اور اخلاق سے گری ہوئی تقاریر نے سیاسی کارکنوں کو بداخلاق بنا دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر سیاسی قائدین کی تضحیک، توہین آمیز پوسٹ اور بداخلاقی کرنا سیاسی ورکروں کا وطیره بن چکا ہے، تعلیم یافتہ نوجوان تباہی کی جانب گامزن ہیں۔ سمارٹ فون اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے بے راہ روی بڑھتی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا آزاد ہے، کوئی پابندی نہیں، یہی وجہ ہے کہ جھوٹی افواہیں پھیلائی جاتی ہیں۔ سیاسی رہنماء اور کارکن ایک دوسرے کی تضحیک میں مصروف ہیں۔ بعض سیاسی رہنماء ذہنی مریض بن چکے ہیں، گالم گلوچ اور بداخلاقی ان کی غذا بن چکی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاست میں ایک دوسرے کی تضحیک بند کرکے بداخلاقی اور گالم گلوچ سے پرہیز کیا جائے۔ نوجوان نسل کی صحیح تعلیم و تربیت وقت کی اہم ضرورت ہے، معاشرہ تباہی سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ سیاست میں شائستگی اپنانے کی ضرورت ہے، تقریر اخلاق کے دائرہ میں ہونی چاہیئے۔