نئی دہلی میں سالہا سال سے فعال ترین رول نبھا کر سید عامر حسین نقوی نے اپریل 2011ء میں ادارہ ندائے حق کی بنیاد رکھی، ادارہ ندائے حق دہلی بھر میں اہم پروگرامز و سیمینارز کا انعقاد کرتا آیا ہے اور ان پرگرامز کا محور و مرکز اسلامی بیداری اور دینی شعور کو اجاگر کرنا ہوتا ہے، اس ادارے کیساتھ ہندوستان کے اہم اشخاص جڑے ہوئے ہیں، جو اپنی ہمہ جہت صلاحیتوں سے ادارے کو کم مدت میں بلندی تک پہنچانے میں کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ادارہ ندائے حق کے سربراہ عامر حسین نقوی سے ایک خصوصی انٹرویو میں بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے حالات، دینی شعور، علمی پیشرفت کے بارے میں تبادلہ خیال کیا، جو قارئین کرام کے پیش خدمت ہیں۔(ادارہ)
اسلام ٹائمز: آپ کے تنظیم ادارہ ندائے حق کے موجودہ برنامے کے بارے میں جاننا چاہیں گے۔؟
عامر حسین نقوی: ان اہم ترین ایام میں ہمارے ادارے نے چاہا کہ محافل و مجالس کے موضوعات کو ترتیب دیں، ادارے نے اہم ترین موضوعات کو ہی عوام کے سامنے رکھا، حالات حاضرہ پر عشرہ مجالس کا انعقاد کیا گیا۔ مسلم دنیا میں کیا کچھ ہورہا ہے اس پر تقاریر ہوئیں۔ ساتھ ہی ساتھ ہم نے گزشتہ تین سال سے وحدت امت کی جو مہم چھیڑ رکھی ہے اس میں ہم برابر فعال ہیں۔ ہمارے کوشش ہے کہ مسلمانوں کے تمام فرقے ایک امت بنیں، تشکیل امت ایک دو برسوں کا کام تو نہیں ہے اسکے لئے طویل وقت درکار ہوتا ہے اسلئے ہم مسلسل کوشش میں ہیں اور اس راہ میں اپنی بڑی طاقت صرف کئے ہوئے ہیں۔ ابھی تک ہم اس حوالے سے جہاں کہیں بھی گئے ہیں ہمیں سراہا گیا، ہماری کوششوں کو عوام نے عزت دی۔ عوامی سطح پر لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمان عزت، امن و اخوت سے رہیں۔ عوام ہرگز انتشار و تضاد کے حق میں نہیں ہیں۔ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ابھی تک یہاں اتحاد کے حوالے سے کوششیں نہیں ہوئی ہیں اس لئے کوئی بڑی پیشرفت بھی سامنے نہیں آئی ہے۔ اگر اس حوالے سے کوئی پہل ہوگئی ہوتی تو آج یہاں کے مسلمان بہت آگے ہوتے۔ ہم نے مشاہدہ کیا کہ مسلمانوں کا ہر فرقہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان پائی جانے والی نفرتوں کا خاتمہ ہو اور مسلمان باہم اتحاد و اتفاق سے رہیں۔ جب ہم مختلف مسالک کے علماء کرام کو ایک جگہ اور ایک موضوع کے لئے جمع کرتے ہیں تو وہ تعجب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا ایسا ممکن ہے۔ اگر ہم مسلسل کام کرتے رہیں گے تو بہت جلد ایک بڑی کامیابی سے ہمکنار ہونگے۔
اسلام ٹائمز: مسلمانوں کی وحدت میں کون سی چیز رکاوٹ کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔؟
عامر حسین نقوی: وحدت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے ذاتی مفادات، منفی سوچ، مختلف تاریخ اور ایڈیالوجیز ہیں۔ اب اگر ہم مختلف ایڈیالوجیز کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کرتے ہیں تو اتحاد ہونا مشکل ہوتا جائے گا۔ تاریخ تو ہم نے ترتیب نہیں دیں، ہم اس تاریخ میں نہیں تھے، لیکن اگر ہم ان تاریخی واقعات کو غلط طریقے سے دہراتے رہیں گے تو ہمارے لئے نقصان کے سوا کوئی چیز ہاتھ نہیں آئے گی۔ آج جنتا بھی تفرقہ و تضاد ہے وہ تاریخی واقعات کے پیش نظر ہی ہے۔ اس لئے ہمیں اپنی تاریخ مرتب کرتے ہوئے احتیاط سے کام لینا چاہیئے یعنی آج ہم تفرقہ، تضاد و انتشار سے پرہیز کریں تاکہ آئندہ نسل کو ایک مشعل راہ ہاتھ آسکے۔ ہمیں یہ بات بھی سمجھنی چاہیئے کہ ہماری انتشار سے ہمیں نقصان ہی نقصان اور ہمارے دشمن کو فائدہ ہی فائدہ ہے۔ موجودہ تفرقہ و انتشار کا خاتمہ بھی علم و حکمت سے ہی ممکن ہے۔ کج روی، منفی سوچ اور جہل سے مسائل ہی پیدا ہوتے ہیں علاج نہیں۔ اختلافی چیزوں کے علاوہ بھی ہماری بہت سے مشترک چیزیں ہیں جن پر بات ہوسکتی ہے۔ ایسے مشترکات جو ہمیں کامل انسان بنا سکتے ہیں جو ہمیں حقیقی مسلمان بنا سکتے ہیں۔ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ کیوں ہم متفرقات کو ہی ہوا دیتے ہیں، کیوں ہم ان چیزوں کو دھونڈ نکالتے ہیں جو تفرقہ و انتشار کی وجوہات ہیں۔ قرآن ہمیں اسی چیز کی ہدایت کرتا ہے کہ ہم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور تفرقہ کے شکار نہ ہوجائیں بلکہ ان جیسے بھی نہ ہوجائیں جنہوں نے تفرقہ اور انتشار پھیلایا ہے۔ عوام سطح پر ایسا ممکن بنایا جانا چاہیئے کہ ہم فقہی مسائل کے بجائے حالات حاضرہ پر بات کریں۔ اختلافی مسائل کے بجائے مسلمانوں کی حالت زار پر تبادلہ خیال کیا جائے۔ مشترکہ طور پر مسلمانوں کی پیشرفت اور ترقی و سربلندی کے لئے برنامہ ریزی کی جانی چاہیئے۔
اسلام ٹائمز: کیا ابھی تک اس حوالے سے یہاں بھارت میں کوئی کام نہیں ہوا ہے۔؟
عامر حسین نقوی: ہاں کام ہوا ہے، لیکن صرف کانفرسوں اور جلسے جلوسوں کی حد تک ہی۔ سال میں ایک ایسا پروگرام ہوا ہے جس میں مختلف مسالک کے لوگ آتے ہیں تقاریر کرکے چلے جاتے ہیں اور پھر سال بھر کا کوئی برنامہ نہیں ہوتا ہے۔ جب اس طریقے سے کام ہو تو ایسے طریقے کار کا کوئی بڑا نتیجہ سامنے نہیں آسکتا ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ اگر ایک طرف ایک بڑی کانفرنس منعقد کی جاتی ہے تو دوسری طرف محلے کی سطح پر وحدت امت کے لئے حکمت عملی کے ساتھ مستقل طور پر ایک کاوش کی جائے تو یہ دوسری پہل زیادہ کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔ وحدت امت کے لئے ہمیں روزانہ طور پر کام کرنا چاہیئے، تب جاکر کئی ایک سال میں ہم کسی منزل پر پہونچ سکتے ہیں۔ وحدت اسلامی کو پارٹ ٹائم کے طور پر نہیں لیا جانا چاہیئے بلکہ یہ ایک مستقل کام ہے اور سنجیدگی سے انجام پانا چاہیئے۔ ہمارے نماز جمعہ کے خطبے حالات حاضرہ پر مبنی اور سیاسی بھی ہونے چاہیئے، مل جل کر حکمت عملی مرتب کریں گے تو کچھ ہاتھ آسکتا ہے۔ مسلم رہنماؤں کو اس حوالے سے کلیدی رول ادا کرنا چاہیئے۔
اسلام ٹائمز: کیا بھارت کی مسلم قیادت کی جانب سے ابھی تک اتحاد و اتفاق کی کوئی مثبت پہل ہوئی ہے۔؟
عامر حسین نقوی: مجھے نہیں لگتا کہ اس حوالے سے ابھی تک کوئی بڑا کام ہوا ہے۔ علماء دین نے سیاست میں حصہ لیکر تو بڑے بڑے کام انجام دیئے لیکن وحدت امت کے حوالے سے انہوں نے کوئی چھوٹا سا کام بھی نہیں کیا ہے اور میرا ماننا ہے کہ یہ کام تنہا سیاسی طور پر انجام پانے والا نہیں ہے بلکہ دین اولین ترجیح ہونا چاہیئے۔ وحدت دین کا اہم ترین جز ہے۔ وحدت امت کا خواب سیاسی لیڈران کی سربراہی میں نہیں بلکہ دینی علماء کرام کی رہنمائی میں ہی شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔ میری نگاہ سے کوئی ایسا عالم دین نہیں گزرا ہے جو اس حوالے سے باضابطہ کام کررہا ہو۔ کچھ ایسے نام ضرور زبان پر آتے ہیں جو اپنی تقاریر میں تو وحدت و اخوت کی بات کرتے ہیں لیکن زمینی سطح پر تحریک کے طور پر کوئی کام نہیں کررہا ہے ورنہ شارٹ ٹرم و لانگ ٹرم اہداف کے طور پر ہمارے علماء کو اپنی ذمہ داریاں انجام دینی چاہیئے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب ہم اپنے ذمہ داروں کی سرگرمیوں کو دیکھتے ہیں تو افسوس ہی ہوتا ہے کوئی اطمینا ن بخش کام انجام نہیں پارہا ہے۔
اسلام ٹائمز: انتشاری عناصر گھر گھر اپنی مہم چھیڑے ہوئے ہیں جبکہ دوسرے طرف وحدت اسلامی کے لئے کوئی ایک پل مہیا کرنے کے لئے آمادہ نظر نہیں آرہا ہے، آپ اس حوالے سے کیا رای رکھتے ہیں۔؟
عامر حسین نقوی: بالکل آپ صحیح فرما رہے ہیں، ہمارا دشمن بہت زیادہ فعال ہے جبکہ ہم نے یر میدان میں سستی سے کام لیا ہے۔ میں نے حالیہ دنوں ایک ویڈیو کلپ دیکھی جس میں دکھایا گیا ہے کہ سالہا سال قبل ایک عالم دین میانمار گیا تھا اور انہیں آئندہ لاحق خطرات سے آگاہ کیا تھا اور بتایا تھا کہ آنے والے دنوں میں آپ پر ایک بڑی آفت آنے والی ہے، اس آفت و ٹالنے کے لئے آپ دین اسلام ناب کے لئے کچھ وقت نکالیں اور دین اسلام کی تبلیغ و ترویج میں لگ جائیں، اپنی ذاتی مصروفیات میں دین کی تبلیغ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو شامل کریں۔ وہ عالم دین دین شناس تھے اور حالات پر گہری نگاہ رکھتے تھے۔ آج ہندوستان کے مسلمانوں کو بھی ایک دین شناس عالم دین کی اشد ضرورت ہے، جو انہیں آئندہ لاحق خطرات سے آگاہ کرے۔ جو یہاں کے مسلمانوں کو وحدت اسلامی کی اہمیت و افادیت بتائے۔ ہر معاشرے میں کچھ افراد ایسے ہونے چاہیئے جو دینی مسائل و معاملات کو اپنے ذاتی امور پر ترجیح دیں، جو اپنے آپ کو دین اسلام ناب کے لئے وقف کریں۔ جب تک اتحاد و اتفاق کا پرچم ساری مسلم دنیا پر لہرا نہ دیا جائے تب تک سکوں سے نہ بیٹھا جائے۔ اتحاد کو بند کمروں اور سیمیناروں سے نکال کر عملی دنیا میں لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم دنیا میں یا بھارت میں کوئی حیثیت قائم کرنا چاہتے ہیں تو وہ واحد چیز وحدت اسلامی ہی ہے۔ ہمارا دشمن لوگوں کو خرید کر اور کرایہ پر لیکر انتشار کے لئے کام کرتا ہے تو ہم خاموش کیسے بیٹھ سکتے ہیں۔ یہ سکوت جو ہم نے اپنایا ہوا ہے تو یہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
اسلام ٹائمز: کیا بھارتی حکومت ایسے پیلٹ فارم کو قبول یا برداشت کرے گی جہاں سے مسلمانوں کی وحدت کی بات ہوتی ہو۔؟
عامر حسین نقوی: دیکھیئے جب بھی آپ کوئی اچھا کام کرنے نکلتے ہیں تو برائی آپ کے سامنے آپ کا راستہ روکنے کی کوشش تو کرے گی لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ آپ اچھا کام نہ کریں۔ روایات میں بھی ہے کہ اگر آپ کوئی کام کرتے ہیں اور آپ کی مخالفت نہ ہوتی ہو تو آپ یہ ضرور سوچیں کہ آپ کہیں نہ کہیں غلطی پر ہیں۔ اچھے کام کی مخالفت تو ضرور ہوتی ہے۔ ان پریشانیوں اور مصیبتوں کو جھیلنے کے بعد ہی کامیابی انسان کے ہاتھ آتی ہے۔ یہاں بھارت میں اگر کوئی مضبوط آواز وحدت کے لئے اٹھتی ہے تو نہ صرف ہندو افراد بلکہ حکومتی سطح پر رکاوٹیں کھڑی کی جانا طے ہیں۔ انتشار کی یہ موجودہ فضا برسوں میں پیدا کی گئی ہے، وحدت کو قائم کرنے میں بھی سالہا سال درکار ہیں۔ راتوں رات یہ چیز ممکن نہیں ہے ہاں حکمت عملی سے یہ چیز قدرے آسان ہوسکتی ہے۔ اس امر الہی کے لئے مضبوط ارادے چاہیئے، مستقل مزاجی چاہیئے، بے باکی اور اللہ پر بھروسہ چاہیئے پھر انشاء اللہ کامیابی یقینی ہے۔
اسلام ٹائمز: مسلم دنیا اور خاص طور پر بڑے بڑے مسلم ممالک وحدت اسلامی کے لئے کتنے مفید یا مضر ثابت ہورہے ہیں۔؟
عامر حسین نقوی: مسلمانوں کے کچھ بڑے ممالک ہیں جو پوری دنیا میں انتشار کے لئے سرمایہ خرچ کررہے ہیں، ان سے وحدت کی بات کرنا فی الحال عبث ہے۔ ابھی ایسے ممالک اتحاد کی بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے ہیں تعاون تو دور کی بات ہے۔ لیکن جو ممالک اعتدال پسند ہیں اور کسی نہ کسی پہلو سے اتحاد اسلامی کے حامی ہیں انہیں پہلے اتحاد کی دعوت دی جانی چاہیئے۔ جب مسلمانوں کی بڑی تعداد متحد ہوگی تو پھر وہ ممالک بھی اس حوالے سے سوچ سکتے ہیں جو فی الوقت وحدت کے دشمن ہیں۔ مسلم دنیا کے کچھ ایسے ممالک بھی ہیں جو خود بھی تفرقہ و انتشار کے لئے اپنا سرمایہ خرچ کرتے ہیں اور اسلام دشمن عناصر سے بھی انتشار پھیلانے کے لئے ڈالر لیتے ہیں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سوتے کو جگایا جاسکتا ہے لیکن جو سونے کی ایکٹنگ کررہا ہو اسے جگانا مشکل ہے۔ فی الحال ہمارا کام سوئے ہوئے کو جگانا ہونا چاہیئے۔ ابھی بڑے بڑے مسلم ممالک باہم متحد ہوتے جارہے ہیں، مسلم دنیا کی موجودہ تشویشناک صورتحال باعث بنے گی کہ مسلمان متحد ہوکر دشمن کے خلاف آواز بلند کریں گے۔ آج ہمارے سامنے جتنے بھی دہشتگرد گروہ موجود ہیں وہ سب بیماریوں کے اثرات ہیں اور اصل بیماری کچھ اور ہے ہمیں اصل بیماری کو پہچاننا ہوگا اور وہ امریکہ و اسرائیل کی شکل میں ہمارے درمیان موجود ہیں، ہمیں اصل بیماری کو ختم کرنا چاہیئے تاکہ ہمارے ممالک میں گاہے بگاہے اس بیماری کے اثرات دکھائی نہ دیں۔ بڑی طاقتیں اس بیماری کے خلاف اٹھ کھڑی ہورہی ہے اور امن عالم کے لئے ایسا ہونا ضروری بھی ہے۔