لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حمید گل مرحوم کے فرزند عبد اللہ گل نے ابتدائی تعلیم ایف جی سکول سے حاصل کی، نیو یارک یونیورسٹی سے بزنس میں ماسٹر کیا، عبداللہ گل اسوقت الجزیرہ کیلئے آرٹیکل لکھتے ہیں، اسکے علاوہ امریکہ سمیت جنوبی افریقی ممالک کے صحافتی اداروں کیلئے بھی آرٹیکلز لکھتے ہیں۔ عبداللہ گل میثاق ریسرچ کے نام سے ایک سینٹر بھی چلا رہے ہیں، جسکا فوکس ہاٹ ریجن ہے۔ اس میں ایران، پاکستان، کشمیر، انڈیا اور افغانستان شامل ہیں۔ عبد اللہ گل کیمطابق وہ 2007ء سے تمام یوتھ تنظیموں کے منتخب صدر بھی ہیں، اسکے علاوہ وہ محسنانانِ پاکستان فاونڈیشن ادارہ بھی چلا رہے ہیں، جسکا مقصد غیر سیاسی لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا ہے۔ عبداللہ گل اسوقت تحریک جوانان کے صدر بھی ہیں۔ پاکستان سمیت بین الاقوامی حالات حاضرہ پر ایک خاص نقطہ نگاہ رکھتے ہیں، اسی لئے مختلف ٹی وی چینلز پر انکے بےلاگ تبصروں کو بیحد سراہا جاتا ہے۔ اسلام ٹائمز نے عبداللہ گل سے کشمیر اور خطے کی صورتحال پر خصوصی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ
اسلام ٹائمز: وزیراعظم عمران خان کے اقوام متحدہ میں اجلاس سے خطاب پر کیا کہتے ہیں۔ کشمیر، اسلامو فوبیا اور آزادی اظہار رائے کے نام پر توہین رسالت جیسے اہم نکات خطاب کا حصہ تھے، کیا حق ادا ہوا ہے۔؟
عبداللہ گل: وزیراعظم عمران خان کا خطاب مدلل تھا، اسکے اندر درد موجود تھا اور حقائق پر مبنی تھا، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ دنیا حقائق کو دیکھتی ہے یا اپنی ضروریات کو، دنیا جس نے معیشت کو نعوذ باللہ خدا بنا ڈالا ہے، ایسی صورتحال کے اندر ہمیں دیکھنا ہے کہ کیا اقوام متحدہ وہی اقوام متحدہ ہے، جس کے پاس پہلے جب کشمیر کا معاملہ خراب ہوا، تب ہم اقوام متحدہ گئے تھے، اس وقت جواب کیا آیا، کچھ بھی نہیں، پھر ہم اقوام متحدہ میں 1965ء میں گئے تو کیا اقوام متحدہ کا کردار تھا، وہ بھی ہمارے سامنے ہے، پھر 71ء میں گئے، جب کارگل کا ایشو ہوا تو اقوام متحداہ کا کردار اور آج اقوام متحدہ کا کردار 54 دن گزرنے کے باوجود کرفیو کو نہیں اٹھایا جاسکا، میرے خیال میں خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیئے، سوال تو صرف یہ ہے کہ تقریر تو بہت اچھی کی، لیکن اصلی مقصد یہ ہے کہ واپسی پر آکر عمل کیا کریں گے، یعنی کہ اقوام عالم نے کوئی معاملہ نہیں کیا تو کیا کریں گے، اب معاملہ کرفیو ختم کرنے یا آرٹیکل 370 کا واپسی اطلاق نہیں ہے، نہ ہی قابل قبول ہے، اب تو ہندوستان کی طرف یا پاکستان کی طرف کا معاملہ ہے۔
اسلام ٹائمز: ٹرمپ ایک بار پھر ثالثی کی بات کر رہا ہے اور اب کرفیو ہٹانے کا بھی مطالبہ سامنے آیا ہے، آیا امریکا سے کوئی امید وابستہ کی جانی چاہیئے۔؟
عبداللہ گل: ٹرمپ صاحب نے ثالثی کی بات تو کی ہے لیکن ثالثی کا مذاق تب اڑا جب جی 7 کے اندر نریندر مودی نے ہنستے ہوئے انہیں انکار کر دیا اور کونسی ثالثی، کیا امریکا نے چارج شیٹ کیا ہے؟، کیا نریندر مودی کو گجرات کا قصائی نہیں کہا، کیا اس کا امریکا میں ویزا بند کیا، کیا مودی کو امریکا نے زعفرانی دہشتگرد نہیں کہا؟، مجھے تو ثالثی دور کی بات کچھ اور ہی نظر آرہا ہے، مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسے اقلیتوں کیلئے ایک نئی ریاست قائم کرنے کی کوشش جاری ہے اور وہ کشمیر اس کے اندر حضرت عیسیٰ کی انہوں نے ایک علامتی قبر بھی بنائی ہوئی ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ کشمیر پر ایک الگ ریاست بنانا چاہتے ہیں، آرٹیکل 370 بہانہ ہے، امریکا کو کشمیر میں بٹھانا ہے اور سی پیک کو ختم کروانا ہے، پاکستان کے نیوکلیئر اثاثے اصل نشانہ ہے۔
اسلام ٹائمز: 55 روز ہونے کو ہیں، ابھی تک کشمیر میں کرفیو نافذ ہے، دنیا کیوں تماشا گر بنی ہوئی ہے، اسلامی دنیا سے بھی آواز نہیں اٹھ رہی۔؟
عبداللہ گل: پچپن روز گزر گئے ہیں لیکن اسی وجہ سے کرفیو نہیں اٹھ رہا، کیونکہ دنیا اسکو سنجیدہ نہیں لے رہی، کیونکہ وہ دیکھ رہی ہے کہ نہ تو پاکستان نے سفارتی تعلقات ختم کئے ہیں، نہ ہی تجارتی تعلقات ختم کئے ہیں، نہ افغانستان سے ٹریڈ بند کی ہے، نہ فضائی حدود بند کی ہیں، نہ دیگر افغانستان ثالثی جو ہے وہ مشروط کی ہے، اس لیے دنیا بھی آپ کو سیریس نہیں لی رہی۔
اسلام ٹائمز: او آئی سی کے کردار پر کیا کہتے ہیں۔؟
عبداللہ گل: او آئی سی اور اکتالیس ممالک کا جو کردار ہے، وہ بہت مایوس کن ہے، اگر وہ کشمیر کے مسئلے پر کچھ نہیں کرسکتے تو ہمیں بھی فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم او آئی سی کے ساتھ کیا معاملہ کریں، اب وقت آگیا ہے کہ او آئی سی کو ختم ہو جانا چاہیئے اور ایک ایسی تنظیم سامنے آنی چاہیئے، جو واقعی کھڑی ہو، اگر یہ او آئی سی ہے کہ صرف ہمارے ساتھ انڈونیشیا اور ترکی کھڑا ہوا ہے تو اسے ختم ہی ہو جانا چاہیئے۔
اسلام ٹائمز: مولانا فضل الرحمان آزادی مارچ لیکر اسلام آباد آنے کا اعلان کر رہے ہیں، کیا کرنا چاہ رہے ہیں، کیا پاکستان مزید کسی عدم استحکام کا متحمل ہے۔؟
عبداللہ گل: مولانا فضل الرحمان کا سیاسی حق ہے کہ وہ احتجاج کریں، وہ ایک جمہوری تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں اور میرے خیال سے جمہوریت کا یہی حسن ہونا چاہیئے، ان کو موقع دینا چاہیئے، لیکن چونکہ مولانا دروازے کھلے رکھتے ہیں تو میرے خیال میں بیک ڈور معاملات چل رہے ہیں، مولانا صاحب کے ساتھ روابط ہو رہے ہیں، بات سیدھی سی ہے کہ اگر مولانا صاحب واقعی سنجیدہ ہیں اور اپوزیشن انکے ساتھ نہ بھی آئے تو میرے خیال میں مولانا بہت کچھ کرسکتے ہیں، بشرطیکہ اگر مولانا صاحب کرنا چاہیں اور اگر اپوزیشن طاقتیں ساتھ مل جائیں تو میرے خیال میں ایک قومی حکومت سامنے آسکتی ہے۔ اس کو خارج از امکان نہیں کہا جاسکتا، لیکن ریاست بہت مضبوط ہوتی ہے، ریاست سے ٹکر لینے والی طاقتیں دیکھا گیا ہے کہ فوری انکو کامیابی نہیں ملی۔
اسلام ٹائمز: سعودی تیل تنصیبات پر ڈرون حملہ ہوا، جسکا الزام امریکا نے اگلے ہی لمحے ایران پر لگا دیا، اب سعودی عرب میں فوج تعنیات کی جا رہی ہے۔ اس ساری صورتحال کو کیسے دیکھ رہے ہیں۔؟
عبداللہ گل: یہ جو سعودی عرب کے تیل کی تنصیبات پر حملہ ہوا ہے، یہ بہت افسوس ناک ہے، یہ نہیں ہونا چاہیئے تھا، اس سے سعودی عرب کو معاشی عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑا ہے، ظاہر ہے سعودی عرب کے اوپر ایک حملہ تصور کیا گیا ہے، لیکن سعودی عرب نے بھی محسوس کیا ہے کہ انکے تمام تر جو انتہائی جدید ترین دفاعی نظام کی موجودگی کے باوجود وہ ڈرون نہیں دیکھا جاسکا اور حملہ ہوگیا اور ماضی میں بھی ایسا ہوچکا ہے تو کہیں میرے خیال میں سعودیوں کو شک پڑ گیا ہے کہ کچھ دوستوں کے ہی کارنامے نہ ہوں، اس وجہ سے تھوڑا سا اس معاملے کو پیچھے لے گئے ہیں۔ سعودی عرب ترقی پذیر ملک ہے، اگر اس ترقی کا کچھ کریں گے تو نقصان سعودی عرب کو ہی ہوگا، کیونکہ انکی عوام کے اندر میرے خیال میں مایوسی اور حوصلہ شکنی ہوگی، وہاں جو انویسٹرز ہیں، ان کے لئے مشکلات پیدا ہونگی، خود سعودی عرب بھی یہ محسوس کر رہا ہے کہ امریکا کی جو موجودگی ہے، وہ خطے کے اندر امن کی بجائے کہیں ایسا نہ ہو کہ خرابی پیدا کر دے۔
اسلام ٹائمز: یمن جنگ تنازعہ کیا حل نہیں ہونا چاہیئے، کیوں اس معاملے میں عالمی طاقتوں کو دخیل کیا جا رہا ہے۔؟
عبداللہ گل: جہاں تک یمن کے معاملے کی بات ہے تو یمن کو تو انٹرنیشنل کرائسزز ڈیکلیئر کیا گیا ہے، سب کچھ ہے لیکن وہی بات ہے کہ دنیا اتنی مفاد پرست ہے، دنیا جہاں پیسا دیکھتی ہے، پییسے کی بنیاد پر چلتی ہے، پیسے کی بنیاد پر خاموش رہتی ہے، پیسے کی بنیاد پر حملہ کر دیتی ہے اور پیسے کی بنیاد پر حملہ روک دیتی ہے، جیسا میں نے کہا کہ نعوذباللہ کہ انہوں نے معیشت کو اپنا خدا بنا ڈالا ہے تو دنیا جو ہے، اسکے دہرے معیار نظر آرہے ہیں، اقوام متحدہ جیسی تنظیمیں جو یہ کرائسز ختم نہیں کرسکتیں، انہیں ختم ہو جانا چاہیئے، جیسے لیگ آف نیشن ختم ہوگئی تھی۔
اسلام ٹائمز: ایرانی صدر نے آبنائے ہرمز کی سکیورٹی پر بات کی اور امریکا کو ڈاکو قرار دیا، کیا کہتے ہیں۔؟
عبداللہ گل: ایرانی صدر نے سکیورٹی کی بات کی تو ایرانی صدر تو سب جانتے ہیں، امریکا کو اگر سخت الفاظ سے نوازا گیا ہے تو امریکا اسکے دفاع میں بات کرے، دلائل میں بات کرے، لیکن زبردستی ٹھینگا سر پر رکھ کر بات نہ کرے، کیونکہ بہرحال ایران ایک خود مختار ریاست ہے اور اس نے دنیا کی سخت ترین پابندیاں برداشت کی ہیں، اسکے باوجود وہ ایک مضبوط ریاست کے طور پر کھڑا ہے، پاکستان کے سعودی عرب اور ایران کے حوالے سے کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں اپنے دشمنوں کو پہنچانیں، اسرائیل، ہندوستان سمیت وہ قوتیں استعماری قوتیں ہیں، جو اس خطے کو الجھاو کا شکار رکھنا چاہتی ہیں۔