سجاد حُسین کرگلی نے حصول علم کی خاطر شہر سری نگر کے ایک کالج میں داخلہ لیا، بعد میں نئی دہلی کا رخ کیا۔ جہاں انہوں نے حقوق انسانی میں ماسڑز کی ڈگری حاصل کی، اسکے علاوہ وہ سارک یوتھ کانفرنس میں ہندوستان کی نمائندگی بھی کرچکے ہیں اور متعدد بین الاقوامی اور ملکی سطح کی کانفرنسز میں بھی شرکت کرچکے ہیں، فی الوقت سجاد حسین فری لانس جرنلزم کے پیشہ سے منسلک ہیں اور مختلف اخباروں اور جرائد کیلئے لکھتے رہتے ہیں۔ نئی دہلی سے لیکر کشمیر تک ظالم کیخلاف اور مظلومین عالم کی حمایت میں ہونیوالے مظاہروں میں وہ پیش پیش رہتے ہیں، انکی تحریر بھی حق و باطل میں حد فاصل کی حیثیت رکھتی ہے۔ سجاد حسین کرگلی حالیہ ایام کشمیر میں ہونیوالے پارلیمانی انتخابات میں ممبر آف پارلیمنٹ کے طور پر بھی الیکشن میں قسمت آزمائی کرچکے ہیں۔ آیئے سجاد حسین سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ادارہ
اسلام ٹائمز: سب سے پہلے خطے کی موجودہ صورتحال کے بارے میں آپ سے تفصیلات جاننا چاہیں گے۔؟
سجاد حسین کرگلی: سب سے پہلے آپ کا کرگل میں خیرمقدم ہے اور قارئین کرام کی خدمت میں بھی سلام عرض ہے۔ پانچ اگست کے روز بھارتی پارلیمنٹ میں جس طرح سے جمہوریت کا قتل ہوا اور کشمیریوں کے حقوق سلب کئے گئے۔ غیر قانونی طور پر ہم سے ہمارا آئین اور دفعہ 370 ہٹایا گیا۔ ہماری خصوصی شناخت کو مٹایا گیا۔ کشمیریوں کے حقوق پر شپ خون مارا گیا۔ مزاحمتی قیادت تو دور کی بات مین اسٹریم جماعتوں کے لیڈران جو ہمیشہ بھارتی آئین کی وکالت کرتے آئے ہیں، کو بھی جیلوں میں قید رکھا گیا ہے۔ آج پوری کشمیر کو جیل خانے میں تبدیل کیا گیا ہے، تمام بنیادی سہولیات کا فقدان دیکھا جا رہا ہے۔ میڈیا پر پابندی عائد کی گئی ہے اور موبائل سروس بھی معطل ہے۔ اس صورتحال سے ریاست جموں و کشمیر میں جو بے چینی پیدا ہوگئی ہے، اس سے کرگلی عوام میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔ یہاں کی عوام کے دل آج بھی کشمیری عوام کے لئے مغموم ہیں۔ ہم اپنے دینی بھائیوں کی راحت و سلامتی کے لئے صبح و شام دعائیں کرتے رہتے ہیں۔
اسلام ٹائمز: بھارتی حکومت کیجانب سے یہاں کیوں اس قدر خوف و ہراس کا موحول پیدا کیا گیا ہے۔؟
سجاد حسین کرگلی: ظاہر سی بات ہے کہ 5 اگست کے بعد جو صورتحال یہاں پیدا ہوگئی ہے، اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حکومت یہاں کی آبادی کو تقسیم کرنے کے درپے ہے۔ کل ہم نے دیکھا کہ آسام میں بھی اقلیت کو نشانہ بنانے کے لئے ایک نیا قانون نافذ کیا گیا ہے۔ جو بھی صورتحال ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقلیتیں اور خاص طور پر مسلمان بر سر اقتدار حکومت کے نشانے پر ہیں۔ مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کے تشخص کو بھی ختم کرنے کی گہری سازش ہو رہی ہے۔ ابھی کشمیر بھر کی لیڈرشپ پابند سلاسل ہے، جب وہ رہا ہوکر آئے گی تو مزید چیزیں سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔ کرگلی عوام کے مطالبات بھی وادی کشمیر کے لوگوں کے جذبات اور احساسات سے جڑے ہوئے ہیں، کرگل چونکہ ایک چھوٹا سا شہر ہے، اسکے اپنے خد و خال ہیں، اس لئے یہاں کی لیڈرشپ ان قوانین کو ہمارے اوپر زبردستی تھوپے گئے ہیں خاص طور پر یونین ٹئریٹری پر فکرمند ہے۔ فی الوقت عوام میں اضطراب پایا جاتا ہے، وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان پر ایسے قوانین تھوپے جاتے۔
کرگل کے لوگوں نے کبھی بھی ریاست کی تقسیم کاری کی حمایت نہیں کی ہے اور ہمیشہ وحدت کی بات کی ہے۔ ہم نے ہمیشہ لسانیت، مذہب، علاقائیت کی بنیاد پر ریاست جموں و کشمیر کی تقسیم کی مخالفت کی ہے، وہ اس لئے کہ 1947ء کی تقسیم کا سب سے بڑا صدمہ کرگلی عوام کو پہنچا ہے۔ اس تقسیم کے نیتجے میں ہمارے بھائی ہماری بہنیں ہم سے جدا ہوگئیں اور ہمارا ایک بڑا حصہ گلگت بلتستان کی شکل میں ہم سے الگ ہوگیا۔ ہم اب کسی اور تقسیم کے حامی ہرگز نہیں ہیں۔ آج اگر بھارت وحدت میں طاقت کی بات کرتا ہے تو ہماری وحدت کو کیوں پارہ پارہ کر رہا ہے۔ کشمیر میں بھی مختلف مذاہب کے لوگ مختلف زبانیں بولنے والے رہتے ہیں اور بڑی محبت و اخوت سے رہتے آئے ہیں، کیوں ہماری وحدت پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ اب جو نئی تقسیم موجودہ حکومت نے عمل میں لائی ہے، یہ سراسر غیر جمہوری قدم ہے اور افسوسناک فعل ہے۔ میں تو یہ بھی کہنا چاہوں گے کہ یہ تقسیم کاری ہندوستان کی جمہوریت پر ایک بدنما داغ ہے۔
اسلام ٹائمز: یہاں کی قیادت کو گورنر کیساتھ میٹنگ کا موقع فراہم ہوا تو انہوں نے ضروری مطالبات کے بجائے غیر مہم معاملات کو میٹنگ میں اٹھایا، آپ اس حوالے سے کیا رائے رکھتے ہیں۔؟
سجاد حسین کرگلی: میرا ماننا ہے کہ یہ قیادت کا جلد بازی میں اٹھایا گیا ہوا قدم تھا، لیکن عوامی سطح پر لوگوں میں احتجاج جاری ہے، لوگ حکومت کی سازشوں کے خلاف کمر بستہ ہیں۔ کرگلی عوام کشمیر عوام کے شانہ بشانہ ہے، ہمارے دل ان کے لئے دھڑک رہے ہیں، ہمارے جذبات ان سے وابستہ ہیں۔ ہمارا وَن پوائنٹ ایجنڈا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کی جو تقسیم کاری ہوئی ہے، اسے بحال کیا جائے۔ ہم ریاست کی کسی طرح کی تقسیم کاری کے خلاف ہیں۔ بھارتی حکومت نے یونین ٹئریٹری کے نفاذ کے وقت کسی ایک پہلو پر بھی گور نہیں کیا، بعد کی صورتحال پر بھی کوئی لائحہ عمل مرتب نہیں کیا۔
حکومت خود دلدل میں پھسی ہوئی نظر آرہی ہے، عوام کو بھی اچانک ایک بہت بڑا دھچکا لگا ہے، اس شک و تردد سے باہر نکل کر ہمیں اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے لڑنا ہوگا۔ کشمیریوں کو اپنے وجود کا دفاع کرنا ہے۔ آزادی اظہار رائے پر بھی پابندیاں ہیں، اس کو بھی ہمیں حاصل کرنا ہے۔ خود بھارتی آئین ہمیں جو حقوق دیتا ہے کم سے کم ہمیں وہ حقوق تو دیئے جائیں، ہم کوئی غیر قانونی مطالبہ تو نہیں کرتے ہیں۔ ہم اپنی ریاست کے لوگوں کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ ہم نہین چاہتے ہیں کہ ہماری ریاست کو تقسیم کیا جائے اور اس ریاست کو نفرت سے بھر دیا جائے۔ یہاں ایک طویل مدت سے قتل و غارتگری جاری ہے ہم اس شورش کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
اسلام ٹائمز: دفعہ 370 کا معاملہ اب بھارتی سپریم کورٹ میں ہے اور آئندہ دنوں اس حوالے سے وہاں کارروائی کی امید ہے، کیا اب کوئی امید نظر آرہی ہے۔؟
سجاد حسین کرگلی: بھارت میں آج تک بہت سے ایسے مواقع سامنے آئے ہیں کہ جب حکومت نے اپنی ہٹ دھرمی دکھائی، اسکے بعد عوام کو سپریم کورٹ سے راحت ملی ہے۔ سپریم کورٹ نے حالیہ دنوں جو بیانات دیئے ہیں، جن میں یہ کہا گیا ہے کہ جب تک جموں و کشمیر کی اسمبلی کی رائے کو جانا نہیں جائے گا، تب تک دفعہ 370 پر کوئی ترمیم نہیں ہوگی، ہم اس حوالے سے پُرامید ہیں کہ عدالت اپنا فریضہ انجام دے گی۔ سپریم کورٹ کو کسی دباؤ میں آئے بغیر اپنا کام آزادانہ انجام دینا ہوگا۔ عوام کے پاس جب کوئی امید نہیں ہوتی ہے تو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے، اگر یہاں سے بھی انصاف نہیں ملتا ہے تو کہاں سے اسکی امید کی جاسکتی ہے۔ ریاست جموں و کشمیر کے لوگ اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے انتظار میں ہیں۔
اسلام ٹائمز: وادی کشمیر میں سیاسی قیادت کیساتھ ساتھ عام لوگ بھی گھروں میں محصور ہیں اور موبائل و انٹرنیٹ سروس بھی معطل ہے، اس حوالے سے آپکی تشویش جاننا چاہیں گے۔؟
سجاد حسین کرگلی: تمام پابندیاں اپنی جگہ لیکن میڈیا پر پابندی کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ عراق میں جنگ ہوئی، افغانستان میں امریکہ نے ظلم و تشدد برپا کیا، شام میں خونین کھیل کھیلا گیا، لیکن وہاں پر بھی میڈیا پر پابندیاں نہیں تھیں۔ یہ ہندوستان کی جمہوریت کا سیاہ ترین موقع ہر کہ جب کشمیر کو فوجی چھاونی میں تبدیل کیا گیا، یہ انٹرنیٹ اور میڈیا پر پابندی دراصل حکومت اپنی کمزوریوں کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔ حکومت گذشتہ دو ماہ سے جو ڈرامہ بازی کر رہی ہے کہ کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ہے تو حقیقت پر پردہ ڈالا جا رہا ہے۔ چوری چھپے میڈیا کی جو رپورٹ سامنے آرہی ہے، اسے صاف ہوتا ہے کہ یہاں کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے۔
میں میڈیا سے وابستہ ہوں تو میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ابھی تک اسی فیصد چیزیں کشمیر کے حوالے سے پوشیدہ ہیں۔ کشمیر کے حالات کا بہت ہی کم حصہ سامنے آرہا ہے۔ حالیہ دنوں بی بی سی کی جو فوٹیج سامنے آئی تھی، اس حکومت نے جھٹلا دیا لیکن بعد میں اسے مجبوراً قبول کرنا پڑا۔ حکومت نے خود ہی اعتراف کیا ہے کہ ان دنوں احتجاجات کے دو سو واقعات سامنے آئے ہیں تو آپ ہی بتائیں حالات ٹھیک کہاں ہیں۔ دیکھیئے آپ کسی کو مار سکتے ہیں، زبردستی کسی کا منہ بند کرسکتے ہیں، جیل میں بند کرسکتے ہیں، جلاء وطن کرسکتے ہیں، محصور کرسکتے ہیں لیکن اسے لوگوں کے دل جیتے نہیں جاسکتے ہیں۔ گورنر آئے گا کچھ دیر رہے گا اور پھر جائے گا، لیکن حکمرانوں کو کشمیروں کے دل جیتنے کے حوالے سے سوچنا چاہیئے۔
اسلام ٹائمز: آپکا تعلق چونکہ سرحدی ضلع کرگل سے ہے تو آج اگرچہ چاروں طرف جنگ کی باتیں ہو رہی ہیں تو آپ قریب سے حالات کا کس طرح جائزہ لے رہے ہیں۔؟
سجاد حسین کرگلی: دیکھیئے ہم لوگ 1990ء سے ہی حالت جنگ میں ہیں، آج آپ کرگل کے ساتھ ساتھ پونچھ اور راجوری کا علاقہ دیکھیں، وہاں روز ایسے واقعات سامنے آتے ہیں کہ لوگ خوف و ڈر کا شکار ہیں۔ اب اگر کل جنگ ہوتی ہے تو وہ جناب عمران خان اور مودی تو جنگ نہیں لڑیں گے بلکہ جنگ غریب عوام کو لڑنی ہے اور سب سے زیادہ نقصان بھی غریب عوام کو ہوتا ہے۔ جنگ غریب سپاہیوں کو لڑنی ہوتی ہے۔ غریب عوام کو سرحدوں میں رہ رہے ہیں، وہ اصلی جنگ لڑتے ہیں اور نقصان سب سے زیادہ انہیں ہوتا ہے۔ جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں ہوتا ہے۔ امریکہ سپرپاور ہونے کے باوجود جنگ سے فرار اختیار کر گیا۔ امریکہ نے افغانستان پر کتنے بم برسائے، کتنا ظلم کیا، لیکن خالی ہاتھ افغانستان سے فرار اختیار کیا۔
ابھی تک جو تبدیلی بھی رونما ہوئی ہے، جنگ سے نہیں ہوئی ہے۔ جنگ مسائل کا حل نہیں ہے بلکہ جنگ خود ہی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کشمیر کا واحد حل یہ ہے کہ لوگوں کی آواز کو سنا جائے۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی جو بات لال قلعے سے کرتے ہیں، اس کو عملی جامہ پہنائے۔ نفرت سے دنیا نہیں چلائی جاتی ہے، ظلم کے ایام گزر جاتے ہیں، لیکن تاریخ رہتی ہے۔ اگر یہ مغلوں کے ظلم کو یاد کرتے ہیں تو خود کیا کرتے ہیں، خود تو ظلم سے باز نہیں آتے۔ دنیا محبت سے جیتی جاتی ہے، نفرت سے نہیں۔ میری گزارش یہ ہے کہ جنگی جنون کو ترک کیا جائے اور حتی الامکان کوشش کی جائے کہ ماحول کو پُرامن فضا میں مذاکرات کے ذریعے معطر کیا جائے۔