واقعہ غدیر خم، اسلام کے حقیقی سیاسی نظام کا ترجمان
اسلام ٹائمز- اگرچہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی اور خلافت کا اعلان خداوند عالم کی جانب سے دستور کے تحت عمل میں آیا لیکن یہ اقدام امت مسلمہ کے مستقبل کے بارے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی گہری تشویش کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ یہ اعلان ایک ناقابل تردید اجتماعی ضرورت تھی جس کا اہتمام رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نہ صرف غدیر خم کے موقع پر بلکہ اپنی زندگی میں کئی مواقع پر کیا۔ آپ ص اچھی طرح آگاہ تھے کہ ایک بے سرپرست معاشرہ ایسے ریوڑ کی مانند ہے جسکا کوئی محافظ نہیں اور ہر لمحہ اختلاف، انتشار اور دشمن کے حملوں کا نشانہ بن سکتا ہے۔ لہذا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب بھی کسی جنگ یا غزوے کی خاطر مدینہ سے باہر جاتے تو شہر کی دیکھ بھال کیلئے کسی نہ کسی کو اپنا جانشین مقرر فرماتے۔ پس کیسے ممکن ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا سے جاتے وقت امت مسلمہ کی سیاسی راہنمائی و رہبری کیلئے کسی کو مشخص کئے بغیر مسلمانوں کو اپنے حال پر چھوڑ کر چلے جائیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر حجۃ الوداع کے بعد حجاز کی تپتی زمین پر تیز دھوپ کے نیچے لاکھوں مسلمانوں کے اجتماع میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی اور خلافت کا اعلان کیا۔ اہلسنت اور شیعہ علماء متفق ہیں سورہ مائدہ کی آیت 67 خدا کی جانب سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ہونے والا آخری دستور تھا جو حجۃ الوداع کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی اور خلافت کے اعلان سے قبل غدیر خم کے مقام پر نازل ہوئی، ان علماء کی نظر میں اس آیہ کریمہ کا شان نزول پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے حضرت علی علیہ السلام کو خلیفہ مسلمین کے طور پر منصوب کرنا ہے: "يَأَيهَُّا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَ إِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَ اللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ
اللَّهَ لَا يهَْدِى الْقَوْمَ الْكَافِرِين"۔ "اے رسول، اس چیز کا اعلان کر دو جو خدا کی جانب سے تم پر نازل کی گئی ہے، اور جان لو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو گویا تم نے رسالت الہی کا کوئی کام انجام نہیں دیا، اور خدا تمہیں لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا، خدا کافروں کو ہدایت عطا نہیں کرتا"۔ رسول اکرم ص کے نزدیک حضرت علی علیہ السلام کا مقام: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی میں بے شمار مواقع پر حضرت علی علیہ السلام کی فضیلت، باقی مسلمانوں پر انکی برتری اور اپنا وصی اور جانشین ہونے پر زور دیا ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "اے فاطمہ، آیا آپ خوشحال نہیں ہیں کہ میں نے آپکی شادی ایسے شخص کے ساتھ کروائی ہے جو سب سے پہلے اسلام لائے اور انکا علم سب سے زیادہ ہے؟۔ درحقیقت خدا نے دنیا والوں پر ایک نگاہ ڈالی اور ان میں سے آپکے والد کو انتخاب کر کے اسے پیغمبر قرار دیا، دوبارہ نظر ڈالی اور پھر آپکے شوہر کو چن کر انہیں وصی اور جانشین قرار دیا۔ خداوند متعال نے مجھے وحی کے ذریعے دستور دیا کہ تمہاری شادی علی سے کرواوں۔ اے فاطمہ، آیا آپ جانتی ہیں کہ خداوند متعال نے آپ کو عزت دینے کی خاطر سب سے زیادہ بزرگوار، بردبار اور عالم شخص کو آپکا شوہر قرار دیا ہے، وہ شخص جس نے سب سے پہلے اسلام کو قبول کیا"۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا یہ سن کر انتہائی خوش ہوئیں اور مسکرانے لگیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دوبارہ ان سے فرمایا: "اے فاطمہ، علی میں آٹھ ایسے فضائل موجود ہیں جو ان سے قبل اور انکے بعد کسی شخص میں نہیں ہوں گے، وہ دنیا اور آخرت میں میرا بھائی ہے، یہ ایسی فضیلت ہے جو کسی اور کے پاس نہیں۔ اسکی زوجہ آپ جیسی خاتون ہے جو جنت کی خواتین کی ملکہ ہے، میرے دو نواسے [حسن اور حسین ع] اسکے بیٹے ہیں، اسکا بھائی [حضرت جعفر طیار] جنت میں دو پروں کے ذریعے فرشتوں کے ساتھ پرواز کے قابل ہیں، علی اول اور
آخر کا علم رکھتا ہے، علی پہلا شخص ہے جو مجھ پر ایمان لایا، علی وہ شخص ہیں جو وفات کے وقت میرے پاس ہوں گے، وہ میرا وصی اور تمام اوصیاء کا وارث ہے"۔ اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: اے علی، تم سات خصوصیات کی وجہ سے اپنے دشمنوں پر فتح پاو گے، یہ سات خصوصیات تمہارے علاوہ کسی میں نہیں: ۱۔ آپ سب سے پہلے ایمان لانے والے شخص ہیں، ۲۔ دین کے دشمنوں کے ساتھ مقابلے میں تم سب سے برتر ہو، ۳۔ ایام خدا کے بارے سب سے زیادہ عالم ہو، ۴۔ خدا کے ساتھ عہد و پیمان میں سب سے زیادہ وفادار اور ثابت قدم ہو، ۵۔ لوگوں کے ساتھ سب سے زیادہ مہربان ہو، ۶۔ بیت المال کی تقسیم میں سب سے زیادہ عدل و انصاف برقرار کرنے والے ہو، ۷۔ خدا کے نزدیک سب سے زیادہ افضل اور برتر ہو"۔ [ارشاد، جلد 1، ص 32]۔ رسول خدا ص کی وفات اور سیاسی اختلافات: اگرچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد خلافت پر قبضہ جمانے کیلئے اصحاب کی جانب سے سیاسی اختلافات اور جھگڑے انتہائی افسوسناک ہیں لیکن اس حقیقت کا واضح ثبوت ہیں کہ حکومت اور رہبری، اسلامی معاشرے کی اٹل اور واضح ضرورت ہے۔ ایسی ضرورت جس کیلئے تمام صحابہ پیغمبر نے مل کر آواز اٹھائی، سب اس بات پر متفق تھے کہ اسلامی معاشرہ حاکم کے بغیر باقی نہیں رہ سکتا اور اگر انکے درمیان کوئی اختلاف تھا تو وہ یہ کہ کون حاکم مسلمین قرار پائے۔ شیعیان علی ع کا موقف تھا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے علی علیہ السلام کا بطور خلیفہ مسلمین منصوب ہونا نہ صرف پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث اور عملی سیرت سے ثابت ہو چکا ہے بلکہ اس امر پر عقلی دلائل بھی موجود ہیں، کیونکہ عقل اور منطق کا تقاضا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جنہوں نے مسلمانوں کے چھوٹے سے چھوٹے مسئلے کو نظرانداز نہیں کیا وہ حاکم اور خلیفہ جیسے اہم اور بنیادی مسئلے کو کیسے بھول سکتے ہیں۔ اہل تشیع اسی طرح خلافت کے موضوع پر امت مسلمہ کے اجماع کو
بھی قبول نہیں کرتے مخصوصا اگر اس کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب کیا جائے کیونکہ ایسا شخص جو "لا ینطق عن الھوی بل وحی یوحی" کا مصداق ہو اور وحی کے علاوہ کچھ بولتا نہ ہو وہ اپنے خلیفہ اور جانشین جیسا امت مسلمہ کا بنیادی مسئلہ کیسے "اکثریت کی رائے" یا "اہل حل و عقد" کے سپرد کر سکتا ہے؟۔ البتہ جو کچھ سقیفہ میں انجام پایا وہ نہ اکثریت کی رائے تھی اور نہ ہی اہل حل و عقد کا انتخاب تھا کیونکہ نہ ہی خلافت کے موضوع پر مسلمانوں میں ووٹنگ عمل میں آئی تھی اور نہ ہی خلیفہ کا انتخاب کرنے والے تمام افراد اہل حل و عقد میں شمار کئے جاتے تھے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ابن عباس، زبیر، سلمان، ابوذر، مقداد اور عمار یاسر جیسے بزرگ اصحاب رسول سقیفہ میں موجود نہیں تھے اور خبر ملنے پر شدیدا معترض اور مخالف تھے۔ اہل سقیفہ نے بعد میں اپنا ہی بنایا ہوا قانون توڑ ڈالا اور تاریخ شاہد ہے کہ خلیفہ دوم کو خلیفہ اول نے رسمی طور پر منصوب کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب خلیفہ اول اپنے لئے خلیفہ اور جانشین تعیین کر سکتے ہیں تو پھر رسول خدا ص ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟۔ اور اگر اپنے لئے جانشین مشخص کرنا صحیح نہیں تو پھر خلیفہ اول نے ایسا کیوں کیا؟۔ مکتب اہلبیت س میں رہبری کا نظام: بہت سے اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مختلف آیات و روایات کی روشنی میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اسلامی معاشرے کیلئے حاکم اور رہبر خدا کی جانب سے پیغمر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے مشخص ہونا چاہئے۔ کچھ آیات مندرجہ ذیل ہیں: ۱۔ "وَ جَعَلْنَا مِنهُْمْ أَئمَّةً يهَْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبرَُواْ وَ كَانُواْ بَِايَاتِنَا يُوقِنُون"۔ [سورہ سجدہ، آیہ 24]۔ "اور ہم نے ان میں امامان کو قرار دیا ہے جو انہیں ہماری جانب ہدایت کرتے ہیں، وہ صبر کرتے ہیں اور ہماری آیات پر مکمل ایمان رکھتے ہیں"۔ ۲۔ "وَ جَعَلْنَاهُمْ أَئمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَ أَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيرَْاتِ
وَ إِقَامَ الصَّلَوةِ وَ إِيتَاءَ الزَّكَوةِ وَ كاَنُواْ لَنَا عَبِدِين"۔ [سورہ انبیاء، آیہ 73]۔ "ہم نے انہیں امام قرار دیا ہے جو ہماری طرف لوگوں کو ہدایت کرتے ہیں، ہم نے انہیں وحی کے ذریعے نیک اعمال انجام دینے، نماز قائم کرنے اور زکاۃ ادا کرنے کا دستور دیا ہے، وہ ہمارے بندے ہیں"۔ ۳۔ " قَالَ إِنىِّ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا۔۔۔۔"۔ [سورہ بقرہ، آیہ 124]۔ "اور کہا کہ ہم نے یقیناً تمہیں لوگوں کیلئے امام قرار دیا ہے"۔ مکتب اہلبیت سلام اللہ علیھم کی رو سے وہ شخص حاکم اسلامی بننے کے لائق ہے جو ہر قسم کے گناہ اور خطا سے دور ہو، یا دوسرے الفاظ میں وہ شخص پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جگہ سنبھال سکتا ہے جو "معصوم" ہو۔ لہذا امام معصوم مسلمانوں کی سیاسی، دینی، فکری اور اخلاقی رہبری کا ذمہ دار ہے۔ اسی طرح اجتماعی امور، دینی تعلیمات اور اسلامی تربیت کی ذمہ داری بھی اسی کے کندھوں پر ہے۔ "الامام المطھر من الذنوب، المبراء عن العیوب، المخصوص بالعلم، الموسوم بالحلم"۔ [اصول کافی، جلد1، ص 387]۔ "امام جو گناہوں سے پاک ہو، عیوب سے مبرا ہو، عالم ہو اور حلیم و بردبار ہو"۔ ایسی خصوصیات کا حامل شخص امت مسلمہ کی ہدایت اور راہنمائی کی بھاری ذمہ داری ادا کر سکتا ہے۔ واضح ہے کہ ایک مستحکم نظام، منصوبہ بندی اور مدیریت کے بغیر قومی امور کی انجام دہی ممکن نہیں، لہذا "امامت" کو "دین اور دنیا کا نظام" کہا گیا ہے کیونکہ یہی وہ نظام ہے جو دینی اور دنیوی امور کیلئے خدا کی جانب سے قائم کیا گیا ہے۔ امام ھشتم حضرت علی ابن موسی الرضا علیہ السلام فرماتے ہیں: "ان الامام نظام الدین، عز المسلمین، غیظ المنافقین و بوار الکافرین"۔ "امام دینی نظام کے قائم ہونے، مسلمانوں کی عزت، منافقین کے غیظ و غضب اور کفار کی نابودی کا باعث ہے"۔ شیعیان اہلبیت س کی ہمیشہ آرزو رہی ہے کہ ان خصوصیات کا حامل شخص اسلامی معاشرے کا حاکم ہو۔ اسی وجہ سے اہل تشیع نے اپنی پوری تاریخ
میں ظالم اور مفسد حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ عراق کے مشہور محقق ڈاکٹر علی الوردی اس بارے میں فرماتے ہیں: "شیعہ اپنے اماموں کو گناہ سے معصوم [اخلاقی، سیاسی اور اجتماعی کرپشن سے پاک] سمجھتے ہیں اور اس عقیدے کا نام "عصمت" ہے۔ یہ اصول اجتماعی اور عملی اعتبار سے انتہائی اہم نتائج کا سبب بنا ہے۔ یہی عقیدہ بالواسطہ طور پر باعث بنا ہے کہ شیعیان اہلبیت س مسلمان حکمرانوں کے ظلم اور ستمگری کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے امامان کو عصمت اور پاکدامنی کا مکمل نمونہ خیال کریں۔ تشیع، ہر انقلابی مکتب کی مانند، کرپشن، اجتماعی بدحالی اور مسائل کی وجہ حکمفرما نظام میں جستجو کرتا ہے اور اجتماعی مشکلات کی ذمہ داری نادان اور غافل طبقے پر نہیں ڈالتا۔ امامت کے بارے میں اہل تشیع کا عقیدہ باعث بنا ہے کہ وہ حکومتوں کے خلاف قیام کریں کیونکہ انکی نظر میں امامت کے علاوہ ہر حکومتی نظام ظالمانہ ہے۔ اہل تشیع صرف ایسی حکومت کو برحق سمجھتے ہیں جو آل علی میں سے کسی امام معصوم کے ہاتھ میں ہو۔ یہی عقیدہ شیعوں اور حکومتی طبقے میں ہمیشہ کی دشمنی کا باعث بنا ہے اور اسی وجہ سے اہل تشیع پر زندیق یا کافر ہونے کی تہمت بھی لگتی رہی ہے۔ رافضی کا ایک معنا دین سے خارج ہونے کا ہے۔ اسلامی تاریخ میں ایسا دور بھی گزرا ہے جس میں کافر یا زندیق ہونے کو شیعہ ہونے سے بہتر سمجھا جاتا تھا جسکے آثار آج تک موجود ہیں"۔ [وعاظ السلاطین، ص 302]۔ واضح رہے کہ امام معصوم کی غیرموجودگی کا مطلب ہر گز دینی نظام کا معطل ہونا نہیں ہے کیونکہ اولاً اکثر اسلامی احکام کا اجراء نظام کی موجودگی پر موقوف ہے اور ثانیاً اسلام و مسلمین کا اقتدار دین کی حاکمیت اور طاقت کے بغیر ممکن نہیں۔ امام معصوم کی غیرموجودگی [غیبت کے زمانے] میں اسلامی حکومت کی تشکیل کی ذمہ داری ایسے شخص پر ہے جو اپنے علم، عدالت اور کردار سب سے زیادہ امام معصوم سے قربت رکھتا ہو۔ ایسے شخص کو اصطلاحاً ولی فقیہ کا نام دیا جاتا ہے۔ بشکریہ www.ghadirekhom.com