تحریر: سید رضوان نقوی
ظلم اور ظالم سے نفرت فطری عمل بھی ہے اور عین اسلام بھی۔ ہم ظالم کے مخالف ہیں، چاہے وہ مسلمان یا کسی بھی مذہب، مسلک یا فرقے سے تعلق رکھتا ہو اور مظلوم کے حامی اور مددگار ہیں، چاہے وہ عیسائی اور یہودی یا کسی بھی نظریئے اور فکر سے ہو۔ یہی اسلام اور دینی تعلیمات کا حکم بھی ہے۔ شدت پسندی اور فرقہ واریت نہ فقط اسلام کے منافی، بلکہ معاشرے کی تباہی اور بربادی کا بھی سبب ہے۔ اسلام اور قرآن اس کی ممانعت بھی کرتے ہیں اور مذمت بھی۔ انتہاء پسندی اور شدت پسندی سے ہم نے کئی ملکوں کو اپنے سامنے تباہ ہوتے بھی دیکھا۔ جن میں سے ایک شام بھی ہے۔ جس میں کئی سالوں سے جنگ جاری ہے۔ آخرکار ان جنگوں کا برائے راست نشانہ ان ملکوں کے باسی بنتے ہیں، جن کے گھر بار تباہ اور پیارے ایسی جنگوں کا ایندھن بنتے ہیں۔
شام میں چند دنوں میں ہی اتنی بڑی تبدیلی کی کوئی بھی توقع نہیں کر رہا تھا اور بشار الاسد کا شام سے یوں فرار ہونا بھی تعجب انگیز ہے۔ ایک طرف بشار الاسد دس سال داعش اور ان دہشتگرد گروہوں کے خلاف لڑتا رہا اور دوسری طرف دس دنوں میں ہی کسی مزاہمت کے بغیر ہی ملک چھوڑ کر فرار ہوگیا۔ ہم کسی طور بھی بشار الاسد کی ڈکٹیٹرشپ اور ظلم و ناانصافی کے حامی نہیں، لیکن بشار الاسد کا مثبت پوائنٹ یہ تھا کہ وہ حماس، فلسطین، حزب اللہ اور لبنان کا حامی اور اسرائیل کا سخت مخالف تھا۔ یہ عسکری اور شدت پسند گروہ اتنے مضبوط اور طاقتور کیسے ہوجاتے ہیں۔؟ تحریر الشام نے یہ جدید اسلحہ اور طاقت کیسے حاصل کی۔؟ شام جیسے جنگ زدہ ملک کی بیچاری عوام کے پاس کھانے کے لئے نہ ہی مناسب خوراک اور نہ سر چھپانے کے لئے کوئی سائبان ہوتا ہے، مگر یہ شدت پسند گروہ جدید اسلحہ سے لیس کیسے ہوتے ہیں۔؟
اگر آپ اس کے بارے میں تحقیق کریں گے تو معلوم ہوگا کہ ان کے پیچھے ترکی، امریکہ اور اسرائیل ہے، جو شام میں اپنے اپنے مفادات کے لئے انہیں استعمال کر رہے ہیں۔ شام میں مسلسل جنگ اور ناامنی کا فائدہ کس کو ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ بشار الاسد کے سقوط کے بعد اسرائیل نے جولان کی پہاڑیوں کا مکمل کنٹرول اور شام کے اندر دمشق کے قریب تک پیش قدمی کی ہے۔ جہاں پر بھی جنگ ہوتی ہے، وہاں اس کو مذہبی رنگ دے دیا جاتا ہے اور فرقہ واریت کا ماحول گرم کر دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سنی شیعہ مسئلہ ہے، حالانکہ جب آپ اس کو بڑی تصویر میں دیکھیں گے تو عالمی طاقتیں اور امریکہ وہاں اپنے مفادات کے حصول کے لئے ایسی تمام جنگوں کا آغاز کرتا ہے اور ایسے شدت پسند گروہوں کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتا ہے۔
حق اور باطل کو اس طرح مکس کر دیا گیا ہے کہ عام مسلمان ان دہشتگرد گروہوں کی سرگرمیوں کو ہی جھاد تصور کریں، جبکہ یہ اپنے ملکوں کو ہی تباہ کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کے ہی گلے کاٹتے اور تہہ و تیغ کرتے ہیں۔ ہم نے دیکھا جو داعش اور ان دہشتگرد گروہوں نے عراق، افغانستان اور شام میں ظلم اور وحشت و درندگی کی داستانیں رقم کیں اور لاکھوں معصوم اور نہتے لوگوں کا قتل عام کیا۔ داعش، القاعدہ، طالبان، تحریر الشام، احرار الشام، النصرہ اور ایسے جتنے بھی دنیا میں انتہاء پسند اور شدت پسند گروہ موجود ہیں، ان کے پیچھے مستقیم یا غیر مستقیم امریکہ اور عالمی اسٹیبلشمنٹ ہے، جو ان کو اسلحہ اور مدد فراہم کرتے ہیں۔ یہ سب انتہاء پسند گروہ اسلامی ممالک میں ہی اپنی فعالیت کرتے ہیں اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے گلے کاٹتے اور مسلمانوں کے خلاف ہی بر سر پیکار ہوتے ہیں۔ یہ تمام دہشتگرد تنظیموں نے نہ تو کبھی اسرائیل کے خلاف کوئی بیان دیا اور نہ ہی عملی طور پر فلسطین کی کبھی کوئی مدد کرنے کے لئے میدان میں آئے۔
ان شدت پسند گروہوں کو مختلف ممالک میں لانچ کیا جاتا ہے اور ان سے اپنے مفادات حاصل کرنے کے بعد ان گروہوں اور ان کے سرکردہ افراد کو وقت آنے پر ٹھکانے بھی لگا دیا جاتا ہے۔ افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ امریکہ نے افغانستان میں کیا کھیل کھیلا۔؟ روس کو افغانستان سے نکالنے کے لئے پاکستان کو کس طرح استعمال کیا گیا۔؟ اب سب لوگ اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ امریکہ نے اپنے مفادات کے لئے پاکستان کو بھی استعمال کیا اور جہادی گروپ بھی بنائے۔ امریکہ نے کس طرح پاکستان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے طالبان کو بنایا اور افغانستان سے روس کو شکست دینے کے بعد خود افغانستان پر قابض ہوگیا اور اس جنگ میں پاکستان کو کتنا نقصان ہوا، اس کا اندازہ آپ لگا سکتے ہیں۔ پاکستان آج بھی اس جنگ سے باہر نہیں نکل سکا۔ پاکستان نے اس وقت جو عسکریت پسندوں کی فیکٹریاں لگائیں، اس کے بعد پاکستان کو کبھی امن نصیب نہیں ہوسکا۔
امریکہ کی سابقہ وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن سے جب پاکستان کے بارے میں سوال کیا گیا تو اس نے کہا کہ ہم پاکستان جیسے ممالک کہ جہاں ان کی فوج طاقت کا محور اور مرکز ہے، فوج کے ذریعے سے ایسے ممالک کو کنٹرول کرتے ہیں اور وہاں اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں۔ عمران خان کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح عمران خان کا سفر ایبسلوٹلٹی ناٹ سے شروع ہوا اور ابھی تک وہ اپنے ملک اور عوام کی بات کرنے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ امریکہ کو صرف اپنے مفادات اور تسلط کو پوری دنیا پر قائم رکھنا ہے، اس کے لئے چاہے اسے جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی اظہار رائے کو بھی پاؤں تلے روندھنا پڑے۔ امریکہ اپنے ملک میں تو ان تمام حقوق کا چیمپئن ہے، لیکن وہ تیسری دنیا کی عوام کو کیڑے مکوڑے تصور کرتا ہے۔
مسلمان اور ان کے حکمران شاید یا تو بہت ہی سادہ ہیں کہ جن کے جذبات اور احساسات کو استعمال کیا جاتا ہے یا لالچی اور احمق ہیں کہ جنہیں استعماری طاقتیں اور امریکہ بہت ہی آسانی سے استعمال بھی کرتا ہے اور ان کے ذریعے سے منطقے میں اپنے مفادات کا تحفظ بھی۔ امریکہ جب چاہتا ہے، کسی بھی ملک کے حکمرانوں کو تبدیل بھی کر دیتا ہے یا کسی بھی ملک میں شدت پسند گروہوں کو فعال کر دیتا ہے اور فرقہ واریت کی آگ بڑھکا دیتا ہے۔ امریکہ سپر پاور ہے، جو دنیا کے تمام بڑے اداروں جیسے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں کو بھی اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتا ہے اور اسلامی ممالک اور ان کی تنظیمیں جیسے او آئی سی اور عرب لیگ کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔ امریکہ ہر ملک میں موجود طاقت کے محور چاہے وہ وہاں کا ڈکٹیٹر ہو یا اس ملک کی فوج، ان کو اپنے کنٹرول میں رکھتا ہے۔
آپ دیکھیں گے کہ کسی بھی ملک کا ڈکٹیٹر یا فوج کبھی بھی نہ ہی امریکہ کے خلاف کوئی بیان دیں گے اور نہ ہی امریکی مفادات کے خلاف کوئی قدم اٹھائیں گے کیونکہ اگر ایسا کریں گے تو ان کا حال بھی صدام حسین، قذافی، مرسی اور بشارالاسد جیسا ہی ہوگا۔ اکثر مسلمان ممالک کے حکمران امریکہ اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ہی تابع ہوتے ہیں۔ کئی اسلامی ممالک میں ڈکٹیٹرشپ ہونے کے باوجود امریکہ ان سے خوش اور راضی کیوں ہے؟ کیونکہ ایسے ممالک کبھی بھی امریکہ کے خلاف نہ ہی کوئی بیان دیتے ہیں اور نہ ہی ان سے امریکی مفادات کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے بلکہ یہ امریکی مفادات کے لئے اچھے بچوں کی طرح کام کرتے ہیں، جبکہ امریکہ اپنے آپ کو جمہوریت کا بادشاہ اور چیمپئن کہتا ہے۔
ایران میں جب شاہ کی حکومت تھی۔ شاہ امریکہ کا تابع اور اچھا بچہ تھا۔ اس زمانے میں اس علاقے میں امریکہ کو کبھی فرقہ واریت کا کھیل کھیلنے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ ایران میں انقلاب کے بعد ایسی حکومت قائم ہوئی، جس نے امریکہ کی بدمعاشی کو قبول نہیں کیا اور امریکہ کے خلاف کھڑے ہوگئے، پھر ایران کی حکومت گرانے کے لئے امریکہ نے سخت معاشی اور اقتصادی پابندیاں، سازشیں اور فرقہ واریت جیسے ہتھیاروں کو استعمال کیا۔ سنی شیعہ، فرقہ واریت، مذہب، زبان، رنگ اور نسل ایسے ٹول ہیں، جن کو استعمال کرکے امریکہ اور استعماری طاقتیں اسلامی ممالک میں اپنے ناجائز مفادات کو حاصل کرتے ہیں۔
امریکہ اور عالمی طاقتوں کے اس گھناونے کھیل میں جن کا سب سے زیادہ نقصان ہوتا ہے، وہ ان ممالک کی مظلوم عوام ہے، جو ڈکٹیٹرز کے ظلم و ناانصافی کو بھی برداشت کرتے ہیں اور ان دہشتگرد گروہوں کی سفاکیت اور درندگی کا بھی نشانہ بنتے ہیں۔ ہمیں فرقہ واریت کی عینک سے ان مسائل کو نہیں دیکھنا چاہیئے بلکہ مسلک، مذہب، رنگ و نسل اور فرقوں سے بالاتر ہو کر تجزیہ و تحلیل کرنا چاہیئے۔امریکہ اور استعماری طاقتوں کا آلہ کار بننے کی بجائے ہوش کے ناخن لینے چاہیئے۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ شدت پسند گروہ جھادی ہیں تو ہم امید کرتے ہیں کہ یہ لوگ شام میں پرامن حکومت بنانے کے بعد اور شام کے لوگوں کی مدد کرنے کے بعد حماس اور فلسطینیوں کی بھی مدد کریں گے اور اسرائیل کےخلاف جہاد کے لئے نکل پڑیں گے۔