0
Monday 18 Sep 2023 17:36

کیا مفلوج سسٹم کے ساتھ کراچی کے بلدیاتی ادارے فعال انداز میں کام کرسکتے ہیں؟

کیا مفلوج سسٹم کے ساتھ کراچی کے بلدیاتی ادارے فعال انداز میں کام کرسکتے ہیں؟
خصوصی رپورٹ

سندھ کی ایک تہائی آبادی سے زائد کا حامل کراچی شہر اسٹریٹجک اور سیاسی اعتبار سے بہت بدقسمت رہا۔ کئی برسوں سے کراچی کے معاملات مختلف صوبائی محکموں کے کنٹرول میں رہے۔ بڑے سفری منصوبوں، ادارہ جاتی اصلاحات اور ریئل اسٹیٹ منصوبوں کے حوالے سے اہم فیصلے غیر شراکتی بنیاد پر کیے جاتے رہے۔ ظاہر ہے کہ کراچی میں ایک طاقتور بلدیاتی حکومت شاید ارباب اختیار کی ترجیح میں نہیں ہے۔ ماضی میں بھی کراچی کے بلدیاتی انتخابات صرف اعلیٰ عدلیہ کے سخت فیصلوں کے نتیجے میں ہی ہوئے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ صرف براہِ راست فوجی حکومت کے دور میں ہی کراچی اور دیگر شہروں میں بلدیاتی حکومتوں کو بحال اور بااختیار بنایا گیا ہے۔ جنرل ایوب خان، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف نے بروقت انتخابات اور بااختیار بلدیاتی حکومتوں کو یقینی بنایا۔ ان اقدامات کے نتیجے میں بلدیاتی حکومت کا ایک معقول نظام متعارف کروانے میں مدد ملی۔

اس سے شراکتی جمہوریت، نچلی سطح تک اہلیت سازی، کمزور طبقات کو بااختیار بنانے، حکومت میں خواتین کی شمولیت میں اضافے اور گراس روٹ سطح پر جمہوری روایات پروان چڑھانے میں مدد ملی۔ پرویز مشرف کے دور میں کراچی کو سٹی ڈسٹرکٹ کا درجہ دیا گیا۔ تاہم ’جمہوری طور پر منتخب‘ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اسے دوبارہ ٹکڑوں میں تقسیم کردیا۔ کراچی میں اس وقت بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں مرتضیٰ وہاب ناظم بن کے ہیں، تاہم بہت ہی پیچیدہ طریقہ کار کے ساتھ ساتھ انہیں کم اختیارات اور محدود ریوینیو ذرائع کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ یہ سوچنا غلط فہمی ہوگی کہ منتخب بلدیاتی ادارے شہر کو درپیش پرانے مسائل کو حل کرسکیں گے، 18ویں ترمیم کے باعث 2010ء سے ہی صوبائی حکومت کو غیر معمولی وسائل فراہم ہوچکے ہیں، ان وسائل کے علاوہ صوبائی محکموں نے تمام شہری امور کا کنٹرول بھی سنبھالا ہوا ہے۔

گو کہ پانی کی فراہمی، سیوریج، سالڈ ویسٹ منیجمنٹ، شہری منصوبہ بندی، ٹرانسپورٹ، اراضی کا انتظام، ہاؤسنگ اور انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ، صحت، تعلیم، اربن ایگریکلچر، صنعتی ترقی، ماحولیات، بلڈنگ کنٹرول اور ان جیسے دیگر کئی ادارے اور سہولیات صوبائی حکومت کے پاس تھیں جن میں کچھ امور مرتضی وہاب کو دے دیئے گئے ہیں۔ چند امور اور جن میں کچھ پارکوں، نالوں اور سڑکوں کا انتظام شامل ہے وہ کے ایم سی پر چھوڑے گئے ہیں۔ اس وجہ سے ٹاؤن ایڈمنسٹریٹر اور یونین کمیٹیاں بہت ہی بنیادی نوعیت کے کام کرسکیں گی۔ پھر مالی طور پر زیرِ دست ہونے کا مطلب ہے کہ سیاسی اور مالی طور پر بھی ماتحت رہنا ہوگا۔ اگرچہ مالی وسائل کی دستیابی سے صوبے کو تو بہت فائدہ ہوا لیکن وہ فوائد شہر تک نہیں پہنچ سکے۔

سیاسی معاملات کے علاوہ کراچی اس ملک میں خصوصی سیاسی اور انتظامی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ اس بات کو مرحلہ وار تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک بنیادی مسئلہ شہر کی منصوبہ بندی سے متعلق ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے گریٹر کراچی ریجن پلان 2047ء کے حوالے سے کچھ ابتدائی کام ہوا تھا جسے جاری رہنا چاہیئے۔ کراچی کی مستقبل کی منصوبہ بندی اور ترقی کے لیے ایک علیحدہ منصوبہ بندی ایجنسی کی تشکیل کرنا ایک معقول طریقہ ہے، اس ایجنسی کی ذمہ داری ہونی چاہیئے کہ وہ سیاسی مقاصد کو ترقی اور منصوبہ بندی کے قابلِ عمل ماڈل میں ڈھال دے، اس ایجنسی کے بنیادی افراد میں شہری منصوبہ سازوں، ماہرینِ معاشیات، سماجی ماہرین، آرکیٹیکٹس، انجینئر اور قانونی ماہرین شامل ہوسکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1081540
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش