پاکستان مسلم لیگ نون پنجاب کے رہنماء اور رکن پنجاب اسمبلی ملک محمد وارث کلو 1951ء میں خوشاب میں پیدا ہوئے۔ 1976ء میں پنجاب یونویرسٹی لاہور سے ایل ایل بی کیا، 1982ء میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا، 2002ء، 2008ء 2013ء اور 2018ء میں مسلسل چوتھی دفعہ رکن صوبائی اسمبلی ہیں۔ موجودہ حکومت کیخلاف اپوزیشن کے احتجاج، مولانا فضل الرحمان کے ممکنہ دھرنے، معاشی بدحالی، مسئلہ کشمیر سمیت اہم ایشوز پر اسلام ٹائمز کیساتھ انکا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)
اسلام ٹائمز: مسلم لیگ نون اپنی حکومت کیخلاف دھرنوں کو غیر جمہوری انداز سیاست قرار دیتی رہی لیکن اب پارٹی لیڈر شپ میں تقیسم کے باوجود انکی حمایت کیوں کر رہی ہے؟
ملک محمد وارث کلو: اس میں فرق ہے، وہ دھرنے ایمپائر کے اشارے پر ہو رہے تھے، اسکی انگلی کے اشارے کا انتظار ہو رہا تھا، جنرل راحیل شریف کو حکومت کا تختہ الٹانے کی پیشکش بھی کی گئی، انہوں نے قبول نہیں کیا، ہماری پارٹی کی لیڈرشپ میں کوئی تقسیم نہیں، باہمی طور پر اختلاف ہو سکتا ہے، رائے کا اختلاف ہوتا ہے، یہاں کوئی آمریت نہیں۔ یہ مشاورتی عمل کا حصہ ہے، پارٹی میں مشاورت جاری ہے تاہم نوازشریف جو بھی فیصلہ کریں گے پارٹی کا ہر کارکن اسے تسلیم کرے گا۔ حکومت نے شہباز اور نوازشریف کی ملاقاتوں پر سختی کر رکھی تھی جس کے سبب دھرنے میں شرکت کا فیصلہ جلد نہیں ہو پا رہا تھا۔ جلد ہی پارٹی دھرنے میں شرکت کرنے یا نہ کرنے سے متعلق فیصلہ کر لے گی۔ پارٹی میں بحث ہوتی ہے لیکن نوازشریف کا جو بھی فیصلہ آئے گا شہباز شریف سمیت سب اس پر عمل کریں گے۔
دوسرے یہ کہ ہم نے دھرنے والوں سے مسلسل بات چیت کی تھی، سیاسی طریقے معاملہ دیکھنے کی دعوت دی تھی، خود وزیراعظم بنی گالا بھی گئے تھے، الیکشن کے حوالے سے جو تحفظات تھے، اسکے لیے مکمل تعاون کیا تھا، لیکن حکومت تو دھرنے کی وجہ سے ہٹائی گئی، بلکہ وہ ایک اور کیس کو بنیاد بنا کر گرائی گئی۔ لیکن موجودہ حکومت کی ہٹ دھرمی ہے کہ وہ بات چیت کا راستہ اختیار کرنیکی بجائے دھمکیاں دے رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا ہے کہ وہ گھروں سے نہیں نکلنے دیں گے، یہ کہاں کی جمہوریت ہے، یہ تو خود جمہوریت کش ٹولہ ہے، دراصل ان سے جمہوری عمل کو نجات دلانے کی ضرورت ہے۔
اسلام ٹائمز: سوال تو لاک ڈاون پر اپوزیشن کے اتفاق کا ہے، کیا اب ان احتجاجی سرگرمیوں سے موجودہ حکومت کو گرا جا سکتا ہے؟
ملک محمد وارث کلو: حکومت کی پوری کوشش ہے کہ لاک ڈاون ہو، اپوزیشن کی تمام جماعتیں دھرنے کے نکات سے متفق ہیں۔ ہمارے سامے یہ بھی ہے کہ اگر حکومت مزید وقت نکالتی ہے تو یہ ملک کو مزید مشکل میں ڈال دیں گے، اب تو یہ بھی ایک حقیقت ہے اور ملک کے موجودہ حالات بھی اس قدر دگر گوں ہیں کہ ایک سال بعد اس کو چلانا مشکل ہو جائے گا۔ اس سے اختلاف بھی ہو سکتا ہے لیکن جو حقیقت ہے وہ یہ ہے کہ دھرنے والے لاک ڈاؤن کھلوانے آ رہے ہیں، کیونکہ لاک ڈاؤن تو پہلے سے ہی ہے، جس کے خلاف تاجر برادری سمیت دیگر طبقات کے لوگ احتجاج کر رہے ہیں، ملک کا بیڑا غرق کر دیا گیا ہے۔ حلقوں میں جائیں تو لوگ ہم سے پوچھتے ہیں بجلی، گیس سمیت مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے مسلم لیگ ن کیوں باہر نہیں نکل رہی۔ اب اس حکومت کے خلاف لوگ باہر نکلنا چاہتے ہیں۔
مسلم لیگ نون درست راستے پر ہے اور ہم نے کفارہ ادا کیا ہے۔ اس ملک کا ایمپائر عوام ہے اور وہ ہمارے ساتھ ہیں۔ تاجر اور صنعتکار ہمارے دور میں اس طرح سراپا احتجاج نہیں تھے۔ یہ حکومت عوام کے لیے منصوبوں کے افتتاح کے بجائے لنگر خانے کا افتتاح کر رہی ہے۔ ہمارے دشمن ممالک، ہمارے ہمسائے ہم سے آگے چلے گئے ہیں جو اسلامی ممالک ہماری جیبوں میں ہوتے تھے، آج وہ کشمیر کے معاملے پر بھی ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے نہیں ہیں۔ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے، لوگوں کو بھکاری بنایا جا رہا ہے، ایک طرف وزیراعظم کشکول اٹھائے پوری دنیا میں گھوم رہے ہیں، دوسری جانب ملک کے اندر معاشی حالت ابتر ہوتی جا رہی ہے اور لوگوں کا روزگار بند ہو رہا ہے۔ انہیں کسی بات کا نہ اندازہ ہے نہ ان کے پاس کوئی حل ہے، یہ مطق غلط ہے کہ جب تک ملک میں روزگار کے حالات بہتر نہیں ہوتے حکومت لنگر خانے کھولتی رہے گی۔
اسلام ٹائمز: وزیراعظم کا کہنا ہے کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ریاست میں کوئی شخص بھوکا نہ رہے، کیا یہ ایک عوامی فائدے کا اقدام نہیں، جس پہ سب کو اسکی تائید کرنی چاہیے؟
ملک محمد وارث کلو: یہ کیسے بے وقوف بنا رہے ہیں، کہ ایک شخص جو مزدوری کیلئے گھر سے نلکتا ہے، اس کے لیے مزدوری نہیں ہے، وہ کمایا گا کیا اور اپنے گھر والوں کو کھلائے گا کیا، یہ دستر خوان تو پہلے ہی لگے ہوئے ہیں، لوگ یہ فلاح و بہبود کے کام کر رہے ہیں، اگر یہی بات ہے تو حکومت ایدھی فاونڈیشن کے حوالے کر دیں، خود ان کے کاموں کی مینجمنٹ سنبھال لیں۔ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ حکومت لنگر کو روزگار کے مواقع کے متبادل کے طور پر دیکھتی ہے، عوام کے لیے سہولیات کے اسباب پیدا کرنا حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے، حکومت اپنی ذمہ داریوں سے صرف اسی طرح ہی عہدہ برآ ہو سکتی ہے کہ ریاست میں روزگار اور کمائی کے مواقع پیدا کیے جائیں، تا کہ لوگ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی ضروریات پوری کرنے کے قابل ہو جائیں۔ دوسری صورت یہ لنگر خانوں کی ہے۔ مگر دونوں صورتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے، ایک ذریعہ انسان کو حرکت میں برکت کی تحریک دیتا ہے، ہنر سیکھنے، صلاحیت برتنے اور کاروبارِ حیات میں مفید کردار ادا کرنے کی رغبت دلاتا ہے۔
اس طرح سماجی زندگی میں مفید چلت پھرت پیدا ہوتی ہے اور صلاحیتیں پیداوار کی صورت میں ڈھلتی ہیں۔ جدید سماج اسی اصول کے ساتھ چلتے نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب لنگر خانے کا تصور ہے کہ جس میں انسان کو مفت کی روٹی اور تن آسانی کا راستہ بتایا جائے، مگر یہ انفرادی صلاحیتوں اور انسانی وقار کے شایان شان نہیں۔ ریاست میں بے شک کسی بھی فرد کو بھوکے پیٹ نہیں سونا چاہیے اور وزیراعظم صاحب کا یہ کہنا پوری طرح بجا ہے کہ اس سے ریاست میں بے برکتی ہوتی ہے، مگر انسان کے لیے صرف پیٹ بھر کھانا ہی کافی نہیں۔ مکان، کپڑا، جوتی، علاج معالجہ اور تعلیم و تربیت بھی فرد کی بنیادی ضروریات ہیں۔ لنگر کا کھانا آدمی کا پیٹ تو بھر سکتا ہے، مگر ریاست دیگر بنیادی ضروریات سے کیونکر منہ موڑ سکتی ہے۔ کیا وزیراعظم لنگر خانوں کے ساتھ بے روزگار افراد کے لیے ان ضرورتوں کی ذمہ داری بھی لے سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں نہ حکومت کی توجہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر مرکوز رہے۔
اسلام ٹائمز: یہی تو وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ ملکی معیشت اس قابل نہیں کہ روزگار فراہم کر سکے، کیوں کہ کرپشن کی وجہ سے معیشت کا بیڑا غرق ہو چکا ہے، کیا وقتی طور پر بھی عوام کو ریلیف نہیں ملنا چاہیے؟ اگر یہ درست نہیں تو اسکا حل کیا ہے؟
ملک محمد وارث کلو: پہلی تو بات تو یہ ہے کہ کرپشن اگر تھی تو یہ کہیں ثابت نہیں ہوئی، لیکن یہ کوئی طریقہ نہیں ہے معیشت کی بحالی اور غربت کے خاتمے کا، اب خود دیکھ لیں ملک میں معاشی پالیسی کی بجائے لنگر خانے ایک موضوع بن گئے ہیں۔ لنگر خانوں اور اس قسم کے دیگر شارٹ کٹس کی بجائے اگر حکومت بے روزگار لوگوں کو کام کے مواقع پیدا کردے تو یہ اس سے کہیں بہتر اور حقیقی معنوں میں انسانی شرف کے شایان شان ہے، تاکہ لوگ بجائے لنگر پر گزارا کرنے کے خود کمائیں اور ریاست کی ترقی میں کردار ادا کریں۔ انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ عوام ریاست کیلئے آمدنی کا وسیلہ بنتے ہیں، جس طرح لوگ اپنی محنت سے اپنے گھر کیلئے کماتے ہیں۔
اسی طرح انسانی محنت کا پہیہ متحرک رہے تو ریاست کے وسائلِ آمدنی تشکیل پاتے ہیں۔ آج کچھ ریاستیں صرف اس لیے زیادہ دولت مند ہیں کہ ان کے افراد زیادہ ہنر مند ہیں اوران کی محنت کے دام زیادہ لگتے ہیں۔ ریاستِ مدینہ کا عظیم تصور پیشِ نظر رکھنے والے کیا ریاست مدینہ کے بانی جنابِ رسول اللہﷺ کے اس فرمان پرغور نہیں فرماتے کہ محنت سے روزی کمانے والا اللہ کا دوست ہے۔ حکومت کو غرباء اور مساکین کے لیے زندگی کی آسانیوں کے اسباب پر ضرور توجہ دینی چاہیے، مگر یہی کام ہمارے معاشرے میں غیر سرکاری سطح پر متعدد تنظیمیں بہترین انداز سے کر رہی ہیں۔ مخیر حضرات اپنے طور پر بھی اس کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔ اسلام آباد کے لنگر خانے کا اہتمام بھی تو حکومت نے ایسے ہی ایک ادارے کے ساتھ مل کر کیا ہے۔
یہ ایسا کام ہے جو حکومتی سرپرستی کے بغیر بھی جاری ہے۔ مگرجو کام صرف حکومت کر سکتی ہے، یہ ہے کہ بے روزگار لوگوں کو روزگار کے مواقع پیدا کر دے، بے ہنرمندوں کو ہنر ور بنا دے اور ایسے امکانات پیدا کرے جس میں سرمایہ پنپ سکے اور لوگ خوشحال ہو سکیں، خود کما کر کھانے اور اپنے خاندانوںکا پیٹ بھرنے کے قابل ہو جائیں۔ ہم نے یہ کام کیے ہیں، ملکی معیشت کو کھڑا کرنیکی درست سمت دی ہے، انہوں نے صرف دکھاوے کے کام کیے ہیں۔ جنکے دور رس اثرات اور زیادہ نقصان کا باعث بنیں گے۔ اسی لیے تو عام لوگوں کی طرف سے اس پر کسی خوشی کا اظہار نہیں کیا گیا، یہ بات ملک کا عام آدمی بھی جانتا ہے، لیکن افسوس کہ جو شخص مسند اقتدار پہ بیٹھا ہے وہ اس سے نابلد ہے۔
اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ سے کامیاب دورے کے فوری بعد وزیراعظم نے چین کا دورہ کیا ہے، کیا یہ اس بات کا مظہر نہیں کہ پاکستان کی اکانومی میں اہم حلیف حکومت پر اعتماد کا اظہار کر رہا ہے؟
ملک محمد وارث کلو: چین تو ہر صورت میں اپنے تجارتی اہداف حاصل کرنا چاہتا ہت، پاکستان کیلئے بھی بہترین مواقع ہیں، لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ موجود حکومت کو اس بات کی سمجھ ہی نہیں کہ معیشت کو چلانا کیسے ہے۔ انہوں نے چین میں جا کر بھی کہا ہے کہ 500 افراد کو جیل ڈالنے کے اختیارات انہیں منلے چاہیں، اسی طرح جب یہ سعودی عرب گئے تو وہاں کا نظام انہیں بھانے لگا، ان دونوں ممالک میں اپوزیشن نام کی کوئی چیز نہیں، مکمل آمریت ہے، اس کے باوجود چین نے پہلے 80 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا ہے، جسکا کا سب کو پتہ ہے، یہ کام انہوں نے اکانومی کو بہتر بنا کر کیا ہے، نہ کہ صرف کسی کی کٹھ پتلی بن کر اقتدار سنبھال کے۔ اگر یہ اس قابل ہوتے تو ملک کے سرمایہ دار اور سرمایہ کار آرمی چیف کے پاس نہ جاتے، بلکہ وزراء اور چیئرمین ایف بی آر سے بات کرتے۔
یہی وجوہات ہیں جو لوگوں کی بے چینی کا سبب ہیں، جب ادارے آئین کی حدود میں رہتے ہوئے کام کریں گے تو لوگ دھرنے دینے نہیں نکلیں گے۔ پھر یہ بھی کہ چین نے کابینہ کے کرپٹ افراد کو سزائے موت دی ہے، وہاں کم از کم کوئی تفریق نہیں۔ یہاں تو جو سیاستدان آپ کے اشاروں پہ اپنی پارٹی چھوڑ دے وہ دھل جاتا ہے، شفاف ہو جاتا ہے، اسکا احتساب نہیں ہوتا، کرپشن کسیز سرد خانے کی نذر ہو جاتے ہیں، بغیر پولنگ کے ووٹ نکل آتے ہیں، چیف جسٹس منصوبوں کا افتتاح کرتا ہے، الیکشن سے پہلے سیاستدانوں کے غول کے غول ریوڑ کی طرح حکومتی صفوں میں شامل کروائے جاتے ہیں۔ یہان تو احتساب صرف اپوزیشن کو ناکام اور کمزور بنانے کا دوسرا نام ہے، کیا اس سے معاشی حالات بہتر ہو سکتے ہیں، یہ اپنے عوام کو دھوکا دے رہے ہیں کہ چین کی طرح غربت ختم کرینگے۔
غربت کرنیکے معیشت بہتر بنانے کیلئے ہماری حکومت نے سی پیک شروع کیا، لیکن انہوں آتے ہی اسے مشکوک بنا دیا، یہ جو بار بار چین بلایا جا رہا ہے، اسکی وجہ غربت ختم کرنے کا پروگرام نہیں بلکہ ملکی معیشت کیلئے ریڑھی کی ہڈی کی حیثیت کا حامل منصوبہ، سی پیک، کھٹائی میں پڑ سکتا ہے، چینی حکام کو اسد عمر اور رزاق داؤد کے بیانات اور حکومت کی طرف سے سی پیک منصوبوں کے فرانزک آڈٹ کی باتوں پر تحفظات ہیں، آرمی چیف ملک میں بھی اور ملک سے باہر بھی جاری مںصوبوں، جو ہماری حکومتوں نے شروع کیے تھے، انکی ضمانت دے رہے ہیں، اسی لیے وہ پہلے جاتے ہیں، پھر حکومت کو بلایا جاتا ہے کہ آ کر دوبارہ سے ان منصوبوں کی تصدیق کریں۔ کیا اس طرح کی صورتحال میں حکومت پر اعتماد کیا جا سکتا ہے، یہ ملک کیساتھ دشمنی کے مترادف ہے۔
اسلام ٹائمز: وزیراعظم نے امریکہ میں یہ اعتراف کیا کہ پاکستانی فوج نے القاعدہ کی تربیت کی، لیکن اس غلطی کو نظرانداز کر کے کشمیر کو ہی عالمی میڈیا میں زیادہ جگہ ملی، کیا کشمیریوں کے بہتر مستقبل کے لیے پاکستان کا رول مزید بہتر ہو سکتا ہے؟
ملک محمد وارث کلو: جیسا میں نے پہلے کہا ہے کہ انہوں نے معاشی پالیسی کو موضوع بنانے کی بجائے لنگرخانے کو موضوع بنا دیا ہے، اسی طرح کشمیر کے مسئلے پر بہت کچھ ہو سکتا تھا اور ہو سکتا ہے، لیکن ہمیں خدشہ ہے کہ کشمیر ان کے اناڑی پن کا شکار نہ ہو جائے۔ امریکہ نے انتہا پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ اور وشوا ہندو پریشد کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دیتے ہوئے ان پر پابندی کا جو فیصلہ کیا ہے، اگر اس کے قانونی وآئینی پہلو سامنے رکھیں تو اس فیصلے کے مطابق، مودی سرکار غیر قانونی اور دہشت گرد قرار پاچکی ہے اور پاکستان کو چاہیے تھا کہ اس نکتے کو عالمی سطح پر اٹھاتا، کیونکہ ریکارڈ سے ثابت ہو چکا کہ نریندر مودی، امیت شاہ، راج ناتھ، ادتیا ناتھ جوگی آر ایس ایس کے بنیادی اراکین ہیں۔
ان کے علا وہ بھارت کی حکمران جماعت کے سبھی لوگ جہاں راشٹریہ سیوک سنگھ پر مشتمل ہیں تو بھارت کی خفیہ ایجنسی را، آئی بی پولیس اورسول سروس جیسے اہم عہدوں پر وشوا ہندو پریشد کے بنیادی کارکنوں کی اکثریت کام کر رہی ہے۔ اس کو ہائی لایئٹ کرنے کی بجائے ماضی کی طرح صرف دفاعی پوزیشن اختیار کی گئی، اب کیس یہ بنتا ہے کہ آر ایس ایس، جنتا پارٹی جیسی انتہا پسند جماعتوں کو دہشت گرد تنظیم قرار دیئے جانے کے بعد اقوام متحدہ سمیت دنیا کے انسانی حقوق سے متعلق ہر اس ادارے پر فرض ہے کہ وہ بھارت کے وزیراعظم اور وزیر داخلہ سمیت تمام وزراء پرغیر قانونی قرار دی گئی، ان دہشت گرد تنظیموں کی بنیادی رکنیت ثابت ہونے کے بعد ان کی حکومت کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس پر پا بندیاں عائد کر دے۔ یہ ہے پاکستان کیلئے جارحانہ پہلو کے امکانات کی بات۔ اس کے لیے پہلو دار اور متحرک خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے، اگر ایران جیسے اہم ملک کے ریاستی اداروں جیسے پاسدارانِ انقلاب کو غیر قانونی قرار دینے کے بعد اگر ایران پر پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں، تو بھارت سرکار پر کیوں نہیں؟۔
حالانکہ بھارت مظالم کی طرح کوئی الزام ہی نہیں، صرف ایران کو امریکہ کے خلاف کھڑے ہونے اور اپنی خودمختاری کی حفاظت کی سزا دی جا رہی ہے۔ جبکہ آئین کے آرٹیکل 370/35A کی حیثیت کو ختم کرنے سے پہلے چالیس ہزار مزید بھارتی فوج کے ساتھ سینکڑوں کی تعداد میں آر ایس ایس کے مسلح کارکنوں کو کشمیر بھیجنے کی خبریں، کسی ایک میڈیا نے نہیں، بلکہ دنیا بھرکے میڈیا نے نشر کی تھیں، اس سچائی کو دنیا کے سامنے رکھیں۔ پھر سرعام گاندھی کو قتل کرنے، گاندھی کے قتل کیلئے استعمال ہونیوالے آلہ قتل کی نیلامی پر فخر کرنے والی آر ایس ایس جیسی دہشت گرد جماعت نہ جانے بھارتی فوج کی نگرانی میں کشمیری مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہی ہو گی؟۔
تو کیا ایسے میں اقوام متحدہ پر فرض عائد نہیں ہوتا کہ کشمیر میں ان دہشت گردوں سے ایک کروڑ انسانوں کو بچانے کیلئے اپنی امن فوج بھیجے؟۔ کیا یہ حکومت کی ذمہ داری نہیں، کس کی ذمہ داری ہے، کشمیری مسلمان ایک جانب کرفیو کی پابندیوں کے ذریعے محصور ہیں، دوسرے جانب خود ایل او سی پہ بیٹھے ہیں، وزیراعظم لنگر خانے کا افتتاح کر کے خوش ہیں، ان سے حساب لینے کا وقت آ گیا ہے، اگر عمران خان کشمیر کا مقدمہ اچھے انداز میں پیش کرتا تو پاکستان میں کوئی احتجاج کیلئے گھر سے باہر ہی نہ نکلتا، لیکن ہر محاذ پہ ناکامی اور نااہلی ثابت ہونے کے بعد لوگ مایوس ہو چکے ہیں، اب یہ لوگوں کو دھوکا نہیں دے سکتے۔ اب انہیں گھر جانا چاہیے۔