پیر سید اشفاق بخاری شافعی کا تعلق جموں و کشمیر کے وسطی ضلع بڈگام سے ہے، میر سید علی شاہ ہمدانی کے مشن کی آبیاری میں سرگرم عمل ہیں، ان کا ماننا ہے کہ جو سات سو سادات ہمدان سے تبلیغ دین اسلام مبین کے لئے امیر کبیر کے ہمراہ کشمیر وارد ہوئے تھے، ان کا خاندانی تسلسل انہی سادات سے جا ملتا ہے، پیر سید اشفاق بخاری جموں و کشمیر کاروان شاہ ہمدان کے سربراہ بھی ہیں، کشمیر بھر میں دینی و تبلیغی فعالیت انجام دے رہے ہیں اور اتحاد اسلامی، تصوف و اسلام ناب محمدی (ص) کی تبلیغ و ترویج میں ان کی کاوشیں قابل ستائش ہیں، اسلام ٹائمز کے نمائندے نے پیر سید اشفاق بخاری سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)
اسلام ٹائمز: اولاً آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہیں گے اور پوچھنا چاہیں گے کہ مسلم دنیا کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر اتحاد اسلامی کی اہمیت و افادیت کیا ہے۔؟
مولانا پیرزادہ سید اشفاق بخاری: سب سے پہلے ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ عصر حاضر میں ہمیں اتحاد کی ضرورت کیوں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس دور میں سب سے زیادہ اتحاد کی ضرورت ہے۔ آج تمام مسلمانان عالم مختلف مسالک و فرقوں کے نام پر بکھرے ہوئے ہیں۔ آج نوجوانوں میں اسلامی رجحان کمزور ہوتا جارہا ہے۔ جوان غفلت کے شکار ہوتے جارہے ہیں اور انتشار عام ہوتا جارہا ہے۔ جب چاروں اطراف میں مسالک کی جنگ برپا ہے تو عام جوان اپنے دین سے متنفر ہوتا گیا۔ ایسی صورت میں ہمیں سب سے زیادہ اہمیت اتحاد المسلمین کو دینی پڑے گی۔ آج جتنے بھی سامراجی طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے میدان میں کود پڑی ہیں خود انکے درمیان ہزاروں اختلافات موجود ہیں لیکن مسلمانوں کے خلاف انہوں نے مشترکہ طور پر کوششیں کی ہیں۔ ایم آئی 6، یا سی آئی اے نے مسلمانوں کے خلاف مشترکہ کوشش کی۔ انہوں نے مسلمانوں کے مختلف مسالک سے وابستہ علماء کو خریدا اور انہیں تفرقہ بازی پر معمور کیا۔ دشمن جانتا ہے کہ آج تک مسلمانوں کو جو فتح بھی نصیب ہوئی ہے وہ انکے اتحاد سے ہی ممکن ہوئی۔ دشمن جانتا ہے جب تک مسلمان متحد رہیں گے ہم اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہونگے۔ اگر ہم اسلام کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں متحد ہونا چاہیئے اور وحدت کے نعرے پر لبیک کہنا چاہیئے۔
اسلام ٹائمز: وحدت اسلامی کو کیا اہمیت حاصل ہے۔؟
مولانا پیرزادہ سید اشفاق بخاری: وحدت اسلامی کو امت اسلامیہ میں شہہ رگ کی حیثیت حاصل ہے۔ وحدت کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں ہے۔ انتشار یعنی زوال اور پستی۔ آج مسلمانوں کی پستی کی اہم ترین وجہ یہی اتحاد سے دوری ہے۔ یہ ایسا دور ہے کہ جب ہمیں فروعات کو چھوڑ کر مشترکات پر متحد ہونا چاہیئے۔ ہمارے اکابرین نے مسلمانوں کی وحدت کے لئے بہت زیادہ مشقتیں اٹھائی ہیں۔ آج افسوسناک بات تو یہی ہے کہ مسلمانوں کو جتنا نقصان غیروں سے اٹھانا پڑ رہا ہے اس سے بہت زیادہ نقصان اپنوں سے اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ہمارے اپنے حکمرانوں اور خواص نے ہی نہیں چاہا کہ ہم متحد ہوجائیں، ہمارے درمیان کی دوریاں کم ہوجائیں۔ قرآن کا واضح پیغام ہے کہ اگر کامیابی چاہتے ہو تو متحد ہوجاؤ اور انتشار سے دوری اختیار کرو۔ جب ہمارے خواص ہی دشمن کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں تو وہ اپنی تمام تر توانائی مسلمانوں کے درمیان منافرت پھیلانے میں لگائے ہوئے ہیں۔ یہ نام نہاد حکمران ڈالر کے چکر میں مسلمانوں کا قتل عام کروارہے ہیں۔ ہمارا دشمن عالمی سطح پر مسلمانوں کو کمزور کرنے کی سعی کررہا ہے ہمیں عالمی سطح پر وحدت اسلامی کی مہم چھیڑنی چاہیئے۔
اسلام ٹائمز: دشمن ہزاروں اختلافات کے ہوتے ہوئے بھی متحد ہے اور ہمارے درمیان مشترکات ہی مشترکات موجود ہیں لیکن پھر ہم انتشار کے شکار ہیں، اس میں ہمارے نام نہاد حکمرانوں نے دشمن کو مکمل تعاون فراہم کیا، اس حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
مولانا پیرزادی سید اشفاق بخاری: آپ نے دیکھا کہ امریکہ و برطانیہ نے مسلمانوں کے درمیان تفرقہ برپا کرنے کے لئے شیعہ اور سنہ علماء کو خریدا۔ ان پر ایک بڑا سرمایہ خرچ کیا، مقدس ناموں پر انہوں نے ٹی وی چینلز چلائیں اور پھر ان نام نہاد علماء نے تفرقہ پھیلانا شروع کیا۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مسلمانوں کے درمیان 90 فیصد مشترکات موجود ہیں لیکن ہمارے نام نہاد علماء نے وہ تمام کے تمام مشترکات بالائے طاق رکھکر انتشار اور منافرت کو ہوا دی۔ ان نام نہاد علماء نے اپنی پوری صلاحیت ملت کے انتشار میں صرف کی جبکہ دشمن نے اپنے اختلافات کو فی الحال بالائے طاق رکھا اور مسلمانوں کے خلاف ایک آواز ہوکر سامنے آیا۔ یہ دشمن ہے جنہوں نے نام نہاد شیعہ علماء اور نام نہاد سنی علماء کو الگ الگ اسٹیج سجا کر دے دیا اور انہیں ایک ہی کام تفویض کیا کہ وہ اسلام و مسلمین کے مقدسات کی توہین کریں۔ اس درمیان ایران کے قائد سید علی خامنہ ای کا اہم ترین فتوٰی میں نے دیکھا کہ جو بھی مقدسات اہل سنت کی توہین کرے وہ مسلمان نہیں ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں کہ دہشتگرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے اسی طرح فتنہ پرور کا بھی کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے۔ رسول اللہ (ص) نے امن و اخوت سے دین اسلام کو عام کیا کسی کو کوئی تکلیف یا زبردستی دین کی ترویج نہیں ہوئی ہے۔
اسلام ٹائمز: کیوں ہم بروقت انتشاری عناصر کو نہیں پہچان پاتے ہیں، اور ایسے عناصر کے خلاف کوئی مشترکہ لائحہ عمل مرتب نہیں کرپارہے ہیں۔؟
مولانا پیرزادہ سید اشفاق بخاری: دیکھیئے داعش وجود میں آیا تو تمام سنی مفکرین اور معتبر اداروں نے اسے مسترد کیا۔ شیعہ حضرات نے بھی ایسے عناصر کو سرے سے ہی رد کیا۔ اب حمایت وہ لوگ کرتے ہیں جن کے مفادات ان عناصر سے جڑے ہوتے ہیں یا وہ خود غفلت کے شکار ہیں۔ جب ہم بروقت کسی ایسے گروہ کو نہیں پہچان پاتے ہیں تو اس کے نتائج خراب ہی سامنے آتے ہیں۔ اللہ نے حق میں یہ طاقت اور خصوصیت رکھی ہے کہ حق ظاہر ہوکر ہی رہتا ہے لیکن مسلمانوں کو بروقت دشمن کی سازشوں کو سمجھنا چاہیئے۔ کشمیر سے بھی کچھ ایسے افراد تھے جنہوں نے داعش کو اسلامی حکومت کے لئے حمایت کی تھی لیکن بعد میں انہوں نے رجوع کیا اور حقیقت سے آگاہ ہوگئے۔ دشمن یہ ہرگز نہیں چاہتے کہ انکی سازشیں ناکام ہوجائیں۔ داعش تو ناکام ہوگیا لیکن دشمن کسی نئے منصوبہ کے ساتھ میدان میں دوبارہ آسکتا ہے ہمیں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
اسلام ٹائمز: کیوں وقتی طور پر ہی صحیح دشمن اپنے منصوبوں میں کامیاب ہوتا دکھائی دیتا ہے۔؟
مولانا پیرزادہ سید اشفاق بخاری: دیکھیئے جب تک مسلمان ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوتے ہیں، مشترکہ لائحہ عمل نہیں اپناتے ہیں تب تک دشمن کامیاب ہوتا رہے گا۔ ہم بحیثیت مسلمان ایک ہوجائیں گے تو ہی دشمن کے عزائم خاک میں ملا سکتے ہیں۔ مضبوط کونسل ہی ہمیں لاحق خطرات سے آگاہ کرسکتا ہے۔ جب ہم ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہیں گے تو بلند اہداف تک پہونچ سکتے ہیں۔ آج ہم اس قدر ایک دوسرے سے دور ہوگئے ہیں اور نفرتوں نے ہمارے درمیان جگہ لے رکھی ہے کہ جب کہیں پر کوئی قتل عام ہوتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ وہاں تو دوسرے مسلک کے لوگوں کی اکثریت ہے ہماری نہیں، ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ جب کہیں پر بھی مسلمانوں پر ظلم و تشدد ہو تو درد ہر ایک مسلمان کو ہونا چاہیئے۔ آج جو نفرتیں ہمارے درمیان پائی جارہی ہیں یہ بہت ہی نقصان دہ ہیں۔ اگرچہ حدیث کے مطابق مسلم امت ایک جسم کے مانند ہے کہ اگر کسی ایک عضو میں درد محسوس ہو تو تمام بدن درد محسوس کرنے لگتا ہے۔ کہاں گئی وہ امت اور اس کا وقار۔ آج ہمارے اقدار تفرقے و انتشار کے شکار ہوگئے ہیں۔ ہمیں وحدت اسلامی کا مظاہرہ کرکے ایک بار پھر وہ وقار حاصل کرنا ہوگا۔
اسلام ٹائمز: افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہاں کشمیر میں بھی کچھ ایسے عناصر سامنے آئے ہیں جو منبروں پر کھل کھلا مسلمانوں کے مسالک کے بارے میں غلط باتیں کرتے ہیں اور انتشار پھیلانے کی کوششوں میں سرگرم ہیں، اس بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
مولانا پیرزادہ سید اشفاق بخاری: سب سے پہلے میں یہ بات کہوں کہ تحریک کاروان شاہ ہمدان (رہ) نے ہمیشہ چاہا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان وحدت قائم کیا جائے، امن و شانتی قائم کی جائے اور تمام مذاہب کے ساتھ انسانی بنیادوں پر محبت کی جائے۔ ان بنیادوں اصولوں کے ساتھ ساتھ اگر اسلام کے احکامات کے خلاف کوئی آواز اٹھاتا ہے تو ہم اس کا جواب دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ جب اسلام کے اقدار پائمال ہورہے ہوں تو ہمارے اوپر لازم ہوجاتا ہے کہ ہم زبان کھولیں۔ جب ہمارے مقدسات کی توہین کی جارہی ہو تو دفاع لازمی ہو جاتا ہے۔ جب یہ کہا جائے کہ اولیاء خدا کو وسیلہ قرار دینا کفر ہے تو حق کا دفاع واجب ہوجاتا ہے۔ ہمیں ان جزیات اور فروعات سے بالاتر ہوکر ملت کی سربلندی کے لئے سوچنا ہوگا۔ جب یہ کہا جائے کہ غیر اللہ سے مدد مانگنا شرک ہے تو اس کی وضاحت کرنا لازمی ہوجاتا ہے۔
آج بھی کشمیر میں میری ذات کے خلاف تقاریر ہوتی ہیں لیکن میں ملت کی موجودہ تشویشناک صورتحال کے پیش نظر خاموش رہنا ہی پسند کرتا ہوں۔ آج ہمارے بہت سے اہم اور سنگین مسائل ہیں جن پر ہمیں سوچنا چاہیئے اگر کوئی ذاتی حق تلف بھی ہوتا ہے تو کوئی بات نہیں۔ میرا ماننا ہے کہ جو بھی افراد ممبروں سے انتشار کو ہوا دیتے ہیں ہمیں ان حضرات کا بائیکاٹ کرنا چاہیئے۔ جب ہم ردعمل ظاہر کریں گے تو یہ ہوش میں آسکتے ہیں۔ میں اس بات کا قائل ہوں کہ اگر یہاں کی حکومت اظہار رای کی آزادی اور حق خودارادیت کا مطالبہ کرنے والوں کو جیلوں میں بند رکھتی ہے تو انہیں اس کے بجائے ان افراد کو جیلوں میں قید رکھنا چاہیئے جو ملت کو توڑنے اور ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے جاری کرتے ہیں۔ لوگ آج تذبذب کے شکار ہیں کہ ہم کس کی بات سنیں اور کس کی بات نہ سنیں ہمیں اپنے نوجوانوں کو اس تذبذب سے باہر نکال کر واضح اور روشن راہ کی جانب ہدایت کرنی چاہیئے۔
اسلام ٹائمز: ایسے عناصر کے خلاف کارروائی نہ ہونا کیا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ حکومتی سطح پر ایسے عناصر کی پشت پناہی ہورہی ہے۔؟
مولانا پیرزادہ سید اشفاق بخاری: اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایسے عناصر کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔ میں حکومت کے ان افراد سے مخاطب ہوکر کہنا چاہوں گا کہ غلط کی حمایت ہمیشہ کے لئے مفید نہیں ہوتی ہے۔ آج یہ فتنہ ہمارے لئے نقصان دہ ہے تو کل یہ آفت انکو اپنے گھیرے میں لے گی۔ کیا یہ ہماری مشترکہ مشکل نہیں ہے کہ آج کا نوجوان اسلامی تعلیمات سے دور ہوتا جارہا ہے۔ ہماری اس وادی گلپوش میں منشیات کی وباء پھیل رہی ہے، آج اگر میرا بیٹا منحرف ہوا ہے تو کل ماحول کا اثر یہ ہوگا کہ ان عناصر کی خود کی نسلیں خرافات و ذلت کی دلدل میں گرفتار ہوسکتی ہے۔ اس آگ سے کسی کا گھر محفوظ نہیں رہتا۔ آج اگر ہمارے یہاں بے راہ روی عام ہورہی ہے تو اس پر سیمینار منعقد کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس اتنی فرصت کہاں سے آگئی کہ ہم ایک دوسرے کے خلاف کفر و شرک کے فتوے دینے لگیں۔ ہم کشمیری ملت ایک بڑی مشکل میں گرفتار ہیں ہم متحد ہوکر ہی تمام مشکلات سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔
اسلام ٹائمز: کشمیر میں اتحاد اسلامی کے مواقع کے بارے میں جاننا چاہیں گے، کہا جارہا ہے کہ یہ کشمیر صوفیاء کرام اور اولیاء خدا کا مسکن رہا ہے۔؟
مولانا پیرزادہ سید اشفاق بخاری: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کشمیر مقدس سرزمین ہے۔ اولیاء خدا نے بڑی مشقتیں اٹھائی ہیں تب جاکر دین اسلام ہم تک پہونچا ہے۔ آج اسی مقدس سرزمین کو انتشار کا شکار بنایا جارہا ہے۔ نئی نئی تنظیموں اور نئے نئے فرقوں کی شکل میں بڑے ممالک یہاں منافرت پھیلانے کے درپے ہیں۔ اس بڑے فتنے کے پیچھے ضرور بڑی طاقتیں موجود ہیں، یہاں کی اکثریت اہل اعتقاد کی ہے لیکن دو تین بندے ہم سے الگ ہوکر ایک ہفتے میں تین چار منزلہ مسجد تعمیر کرتے ہیں، یہ پیسے کہاں سے آتے ہیں۔ کچھ برسوں سے مساجد کی تعداد اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اب مساجد بھی مشکوک ہوتی جارہی ہیں۔ مساجد کی بھرمار بہت سارے سوال پیدا کرتی ہے۔ ہمیں ایجنسیوں کے اس کھیل سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ وحدت اسلامی کے حوالے سے یہاں کشمیر میں مولانا غلام رسول حامی کی کاوشیں قابل ستائش ہیں۔ انٹرنیشنل مسلم یونٹی کونسل کی کاوشیں بھی مثالی ہیں۔ ہمیں اسی طریقے کی حکمت عملی سے آگے بڑھنا چاہیئے تاکہ منزل مقصود تک رسائی حاصل ہو۔