علامہ سید عابد حسین الحسینی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور اسکے بعد تحریک جعفریہ میں صوبائی صدر اور سینیئر نائب صدر کے عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ ایک طویل مدت تک تحریک کی سپریم کونسل اور آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن بھی رہے ہیں۔ 1997ء میں پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن منتخب ہوئے، جبکہ آج کل علاقائی سطح پر تین مدارس دینیہ کی نظارت کے علاوہ تحریک حسینی کے سرپرست اعلٰی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے سعودی عرب، امریکہ اور ایران کی تازہ صورتحال کے حوالے سے علامہ عابد الحسینی کیساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)
اسلام ٹائمز: سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ سید عابد حسینی: سعودی عرب پر حملے کو یہ خود نیز اس کے اتحادی بے شک جارحانہ اور اشتعال انگیز تصور کرتے ہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ حملے کی ذمہ داری یمنیوں نے خود قبول کی ہے۔ چنانچہ اگر واقعاً اہلیان یمن نے یہ کارروائی کی ہے، تو بندہ کی نظر میں یہ سو فیصد حق بجانب ہے۔ مگر کیا کہا جاسکتا ہے۔ دنیا یمن پر ہونے والے مظالم اور تجاوز پر خاموش ہے۔ کیا دنیا کا یہ فرض نہیں بنتا کہ وہ سعودی عرب کی طرح یمن، شام، عراق، فلسطین، بحرین اور کشمیر میں ہونے والے مظالم پر بھی صدائے احتجاج بلند کرے۔ کیا یمن میں ہونے والے جانی نقصانات نیز تباہ ہونے والے انفراسٹرکچر سے یہ نقصان زیادہ ہے اور کیا انسان اور وہ بھی ایک نہیں، سو اور ہزار بھی نہیں بلکہ لاکھوں انسانوں سے آرامکو میں ہونے والا نقصان کچھ زیادہ ہے؟ یمن کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ مگر اس پر دنیا کی، خود کو مہذب اور پیشرفتہ قرار دینے والی، قومیں مکمل طور پر خاموش ہیں۔ کیا کسی کو اپنی دفاع کا بھی کوئی حق نہیں۔ میری نظر میں اگر واقعاً یمنیوں نے یہ کارروائی کی بھی ہے، انہوں نے سب کچھ ٹھیک کیا ہے، کیونکہ یہ ان کے ہونے والے نقصانات کا عشر عشیر بھی نہیں اور یہ کہ قصاص اسلام میں جائز ہی نہیں بلکہ ہر فرد و قوم کا حق ہے۔
اسلام ٹائمز: ان حملوں کو ایران کے کھاتے میں ڈالنے کا کوئی قانونی جواز پیدا ہوتا ہے۔؟
علامہ سید عابد حسینی: قانونی جواز کا سرٹیفکیٹ تو امریکہ کے پاس ہے، وہ جس کام کو جائز قرار دیتا ہے، پوری دنیا اسے حق بجانب ہی قرار دیتی ہے۔ امریکہ انسانی حقوق کو پائمال کرے تو کچھ بھی نہیں، امریکہ اپنے مفادات کی خاطر جس فرد، تنظیم یا ملک پر پابندیاں عائد کرے، اس پر جنگ مسلط کرے، اس پر حملے کرے، کوئی ملک انفرادی طور پر تو کیا، اسے اقوام متحدہ بھی ٹیڑھی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتی۔ وہ باراتیوں پر بم برسائے، تو اسے ٹیکنیکل غلطی قرار دیا جاتا ہے اور پھر اس کا معاوضہ تو کیا، اس کی معافی بھی نہیں مانگی جاتی، جبکہ کوئی دوسرا ملک اپنے دفاع اور اپنے ملک یا حکومت کے بچاؤ میں کوئی قدم اٹھائے تو اسے دہشتگردی کے زمرے میں لایا جاتا ہے۔ اب ان حملوں کو وہ محض ایران کے کھاتے میں نہ ڈالے تو دنیا میں تو امریکہ کی غیرت پر حرف آجائے گا، بلکہ امریکہ کو کہنے کی حد تک یہ حق حاصل بھی ہے کہ وہ ایران ہی کو مورد الزام ٹھہرائے، کیونکہ ایران سے وہ بار بار مار کھاتا رہتا ہے، پٹتا ہے۔ اب وہ کچھ کر تو نہیں سکتا، بدلہ لینے کی بات کرتا ہے، پھر کسی مصلحت کی بنا پر اسے ٹال دیتا ہے، اب کم از کم یہ تو اس کے بس میں ہے کہ صرف الزام لگائے۔ پس امریکہ سے ایسی ہی توقع کی جاسکتی ہے۔
اسلام ٹائمز: ایران کیخلاف اگر جنگ چھڑ گئی تو پاکستانیوں کا کیا کردار ہوگا؟ اور خود آپکا کیا کردار رہیگا۔؟
علامہ سید عابد حسینی: رہبر معظم کی بات ہمارے لئے پتھر کی لکیر کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس پر ہمارا مکمل یقین ہے، انہوں نے جو کہا ہے کہ جنگ نہیں ہوگی اور مذاکرات ہم نہیں کرینگے۔ چنانچہ پہلے تو ہمیں یقین ہے کہ جنگ نہیں ہوگی۔ تاہم بالفرض محال اگر جنگ چھڑ بھی گئی تو پاکستانیوں کو چاہیئے کہ اس جنگ بلکہ اس تنازعے کو مسئلہ کشمیر سے جوڑیں اور دیکھیں کہ کشمیر کے معاملے پر ہمارے ساتھ کون کھڑا ہے۔ کون بھارت کا حامی ہے۔ اسی تناظر میں ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا، جبکہ رہی بات خود میرے کردار کی، تو میں ببانگ دہل یہ کہہ رہا ہوں کہ مکہ شہر، مدینہ شہر، نجف اشرف، کربلا، کاظمین، دمشق، قم، مشہد مقدس اور تہران میں سے کسی بھی مقدس شہر پر حملہ ہوا، ہم اس کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہونگے۔ خواہ وہ کوئی بھی ملک ہو، کوئی بھی ملک، کوئی خاص حکومت اور علاقہ ہمارے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا بلکہ ہمارا اٹل فیصلہ ہے کہ محمد و آل محمد علیھم السلام سے منسوب ہر شہر ہمارے لئے اہمیت کا حامل ہے اور کسی بھی جارح سے اس کا دفاع ہم اپنے اوپر فرض سمجھتے ہیں۔
اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ میں ایران کیجانب سے وضع اور پیش کی جانے والی نئی امن پالیسی کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ سید عابد حسینی: شروع انقلاب سے ایران کی ہر پالیسی نہایت کامیاب رہی ہے۔ انہوں نے جنگ کی ہے، تو بھی کامیاب۔ جنگ بندی کا اعلان کیا ہے، تب بھی دنیا میں شہرت حاصل کئے بغیر نہیں رہ سکی ہے۔ ایران کسی تنظیم کو سپورٹ کرتا ہے، کسی کے خلاف عالمی سطح پر احتجاج کراتا ہے۔ اس کی ہر پالیسی نہایت کامیاب ہوا کرتی ہے۔ کامیاب تو کامیاب ہوتی ہے، بلکہ دشمنوں پر نیندیں حرام ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ علاقائی ممالک کو امن کی پیشکش پر مبنی ان کی حالیہ پالیسی سے دنیا پر کم از کم یہ بات واضح ہو جائے گی کہ ایران کبھی بھی علاقائی کمزور، بے دست و پا اور پیراسائیٹ ہمسایہ ممالک کے خلاف نہیں ہے، بلکہ اس کا اصل مسئلہ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ہے، جبکہ عرب ممالک امریکہ اور اسرائیل کی پالیسی، مفادات اور جنگ کو اپنے کندھوں پر اٹھانے کی غلطی دہرا رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سے عرب ممالک بشمول امارات و سعودی عرب سبق حاصل کرینگے۔
اسلام ٹائمز: امریکہ مدعی ہے کہ ایران کیخلاف انکی اقتصادی پابندیاں موثر اور کارگر ثابت ہو رہی ہیں، اس میں کہاں تک صداقت ہے۔؟
علامہ سید عابد حسینی: اقتصادی اور دیگر پابندیوں کا اثر انداز ہونا ایک فطری امر ہے۔ ایران یقیناً متاثر ہوا ہے۔ تاہم اس حد تک بھی نہیں کہ امریکہ خوش فہمی میں مبتلا ہو۔ ایران کو کافی حد تک کامیابیاں بھی حاصل ہوگئی ہیں۔ چین اور روس کے ساتھ ان کی تجارت کی سطح بڑھ گئی ہے۔ چنانچہ ان پابندیوں کا کافی حد تک توڑ نکل آیا ہے اور اس کے لئے اب وہ مسئلہ نہیں رہا ہے۔
اسلام ٹائمز:امریکہ کیساتھ ٹکر ایران کو لے ڈوبنے پر منتج تو نہیں ہوگی۔؟
علامہ سید عابد حسینی: پتہ نہیں لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہیں، یا جان بوجھ کر امریکہ کو ایک ماورائی قوت تصور کرتے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ اسکی یہ پہلی ٹکر تو نہیں۔ شام، عراق، لبنان، وینزویلا اور یمن وغیرہ میں اصل ٹکر ایران اور فقط امریکہ کے مابین بھی نہیں بلکہ ایران اور امریکہ کے جملہ اتحادیوں کے مابین رہی ہے۔ جن میں سے ہر مقام پر امریکی اتحادیوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ حالانکہ لبنان، یمن وغیرہ میں خود ایران نہیں، بلکہ ایران ان کی صرف اخلاقی اور سیاسی سطح پر معاونت کر رہا ہے، جبکہ دوسری جانب امریکہ اور ان کے اتحادی اپنی پوری قوت، اپنی فوج اور ساز و سامان کے ساتھ برسرپیکار ہیں۔ تاہم ہر مقام پر انہیں ہزیمت اٹھانی پڑی ہے۔ دوسری بات یہ کہ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ٹکراؤ ایران کو ڈبوئے گی نہیں، بلکہ اس سے اس کی سیاسی شہرت ،اعتماد نیز دنیا کے کمزور اور مستضعف اقوام کے اعتماد میں اضافے ہو جائے گا۔ نیز اس سے تمام مستضعف بلکہ غلامانہ ذہن رکھنے والی اقوام کو حریت کا ایک درس ملے گا اور آنے والے وقتوں میں لوگ امریکہ کے بجائے ایران اور انکے اتحادیوں میں دلچسپی لینا پسند کریں گے۔