0
Sunday 21 Aug 2011 17:21

فزت و رب الکعبہ

فزت و رب الکعبہ
تحریر:ایمن نقوی
 آج دل چاہا کہ اس ہستی کے بارے میں لکھوں کہ جس کی صحیح شناخت جدید نسل کے لئے بہت ضروری ہے۔اور باالخصوص رمضان کی ان مبارک راتوں میں انیسویں رمضان کی شب،شب ضربت امام علی ( ع)،اور پھر اکیس رمضان کو اس ہستی کی مظلومانہ شہادت ہے۔اس ہستی کی درست شناخت ہماری آج کی نسل کے لئَے ضروری ہی نہیں،بلکہ اگر کہا جائے کہ واجب ہے تو بھی غلط نہ ہو گا۔ہم میں سے ہر کوئی امام علی( ع)کواپنے علم اور ظرف کے مطابق جانتا ہے،البتہ جاننے کے انداز مختلف ہیں۔دنیا کا کوئی مذہب ایسا نہیں،جس نے اس علم کے بیکراں سمندر سے فائدہ نہ اٹھایا ہو،لیکن جو مذہب اس میں غوطہ ور ہوا اور بھرپور استفادہ کیا وہ مذہب جعفریہ ہے۔دوسری اقوام بھی حضرت علی( ع)سے اس طرح سے مستفید ہوئی ہیں کہ حق و باطل کے درمیان انتخاب کرتے ہوئے امام علی( ع)کے اقوال سے فائدہ اٹھاتی نظر آتی ہیں۔اور بعض لوگوں نے امام کی شخصیت سے متاثر ہو کر ان پر کتب بھی لکھی ہیں،مثلاً جارج جارڈق جو کہ ایک مسیحی نویسندہ ہے، نے امام علی( ع)پر کتاب لکھی ہے"الامام علی صوت العدالتۃ والانسانیۃ"۔ یہ لکھتا ہے کہ میں نہج البلاغہ کے جملات سے اس طرح متاثر ہوا ہوں،کہ میں نے دو سو بار اس کا مطالعہ کیا ہے۔
جارج جارڈق کی یہ بات پڑھ کر پہلے تو مجھے بہت خوشی ہوئی،لیکن ساتھ ہی اپنے آپ پر اور اپنے جیسے دوسرے مسلمانوں پر بہت افسوس ہوا کہ"نہج البلاغہ"کہ جس کو"برادر قرآن"کہا جاتا ہے۔جس میں سیاست،ہنر،علم،ایمان اور دنیا کا کوئی ایسا موضوع نہیں جو زیر بحث نہ لایا گیا ہو،یا تو ہم اس کے مطالعہ سے محروم ہیں،اور اگر مطالعہ کریں بھی تو اس کے عمیق مطالب کو سرسری پڑھتے ہوئے گذر جاتے ہیں،ڈاکٹر جارج کہتا ہے کہ کہاں ہیں وہ انسانی حقوق کے علمبردار،اگر وہ چاہتے ہیں کہ حقوق بشر کی عملی مثال دیکھیں،تو حضرت علی( ع)کی زندگی کا مطالعہ کریں،یقیناً متوجہ ہو جائیں گے کہ انٹرنیشنل سیمینارز اور یونیسکو کی تقریبات سب جھوٹ ہیں۔
علی( ع)وہ پاسبان اسلام ہے،جو اپنے بچپن سے لے کر پیامبر(ص)کی رحلت تک،سائے کی طرح ان کے ساتھ رہا،یہ وہ پاک ہستی ہے,جس کے لئے خانہ کعبہ نے اپنی آغوش کھول دی اور ان کی والدہ گرامی کو اندر آنے کی راہ دی،اور 13 رجب،روز جمعہ،عام الفیل کے تیسویں سال میں آپ کی ولادت خانہ کعبہ میں ہوئی،آپ کے والد جناب ابو طالب اور والدہ فاطمہ بنت اسد دونوں ہاشمی خاندان سے ہیں،آپ والدین کی طرف سے ہاشمی نسب ہیں،ابو طالب کثیرالاولاد تھے،پیامبر(ص)کو بچپن میں ابو طالب نے پالا تھا،اور کبھی یہ احساس نہ ہونے دیا کہ آپ(ص)باپ کی شفقت اور محبت سے محروم ہیں،اسی طرح فاطمہ بنت اسد نے آپ کے لئے آغوش مادری وا کی،پیامبر(ص) نے اپنے چچا کی فداکاریوں کا جواب،حضرت علی( ع)کو اپنے زیرکفالت لے کر دیا،لہذا پیامبر(ص)،علی( ع)کے لئے باپ کی طرح اور جناب خدیجہ ماں کی طرح مہربان تھیں اور جناب علی( ع)کی تربیت پیامبر(ص)کے زیر سایہ ہوئی۔
یہ علی( ع)ہی تھے،کہ جب خدا کی طرف سے پیامبر(ص) پرآیہ نازل ہوئی"وانذرعشیرتک الاقربین ۔۔۔"کہ اپنے قریبی عزیزوں کو انذار دو،اور دعوت حق کو علنی انجام دو،پیامبر(ص) کی اس ندا کے جواب میں کہ کون ہے،جو خدا کی راہ میں میرا ساتھ دے گا،ہر تین بار پوچھنے پر صرف حضرت علی( ع) نے کھڑے ہو کر جواب دیا کہ میں آپ کا ساتھ دوں گا،اور یہ علی( ع) ہی تھے،جو "لیلۃ المبیت یعنی ہجرت کی رات" میں جب پیامبر(ص)کی جان کو کفار کی طرف سے خطرہ تھا،آپ کے بستر پر سوتے ہیں اور پیامبر(ص) سے سوال کرتے ہیں کہ اگر میں آپ کی بجائے یہاں پر سوجاوں، تو کیا آپ کی جان بچ جائے گی؟تو پیامبر(ص) فرماتے ہیں،ہاں بچ جائے گی،اس مقام پر علی( ع) فوراً سجدہ شکر میں چلے جاتے ہیں،محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ اسلام میں یہ پہلا سجدہ شکر ہے،جو علی( ع)کی جبین نے ادا کیا۔
یہ علی( ع)تھے،جو جنگ احد میں پروانہ وار پیامبر(ص) کے گرد چکر لگاتے ہیں اور دشمن کو تہہ تیغ کرتے چلے جاتے ہیں،یہاں تک کہ ندائے آسمانی آتی ہے۔"لافتی الا علی لاسیف الا ذوالفقار"نہیں ہے کوئی جوانمرد علی جیسا اور نہیں ہے کوئی تلوار ذوالفقار جیسی،پیامبر(ص) صرف اور صرف علی( ع)کے بارے میں فرماتے ہیں کہ" انا مدینۃ العلم و علی بابھا"۔میں علم کا شہر ہوں اور علی اسکا دروازہ ہے۔
جب انسان کسی شہر میں داخل ہونا چاہے،تو سب سے پہلے اس کے دروازے سے گزر کر اندر جاتا ہے،پرانے زمانے میں شہروں کے گرد دیوار ہوا کرتی تھی،اگر آج کے دور کی مثال دینا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی ملک کے اندر داخل ہونے کے لئے مخصوص انٹری گیٹ سے جایا جا سکتا ہے،اگر کوئی چوری بارڈر کراس کرے تو مجرم کہلاتا ہے،متاسفانہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو چوری بارڈر کراس کر کے،پیامبر تک پہنچنا چاہتے ہیں یا پھر اپنی طرف سے پہنچے ہوئے ہیں،گو کہ یہ لوگ مجرم ہیں،لیکن اپنے آپ کو منصف سمجھتے ہیں۔
حجۃ الوداع سے واپسی پر پیامبر(ص) پر یہ آیہ نازل ہوتی ہے"یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک ۔ ۔ ۔"مائدہ،آیہ 67"اے رسول،آپ اس حکم کو پہنچا دیں،جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے،اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا،اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔یہاں پیامبر(ص) سمجھ جاتے ہیں کہ وہ موقع آ گیا ہے،کہ جب علی( ع)کی ولایت کا اعلان کرنا ہے،کیونکہ اس سے پہلے بارہا مختلف مواقع پر جناب علی( ع)کو اپنا وصی و جانشین معرفی کر چکے تھے،یہاں غدیر خم کے مقام پر پیامبر(ص) لوگوں کو جمع کر کے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں"الست اولی بکم من انفسکم"۔کیا میں تمہارے نفسوں پر تم سے زیادہ حق تصرف نہیں رکھتا،یعنی کیا میں تمہارا حاکم اور مولا نہیں ہوں،سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ بیشک،آپ ہمارے حاکم اور مولا ہیں،پیامبر(ص) اپنے ساتھ کھڑے ہوئے علی( ع)کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اتنا بلند کرتے ہیں،کہ دونوں بھائیوں کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگتی ہے،ارشاد فرماتے ہیں"من کنت مولاہ،فھذا علی مولاہ"روایت میں ہے،بعض بزرگان اہل سنت"حموینی"نے نیز نقل کیا ہے کہ جناب ابوبکر اور عمر اپنی جگہ سے اٹھ کر رسول(ص) سے سوال کرتے ہیں کہ آیا یہ ولایت صرف علی( ع)کے لئے مخصوص ہے،آپ فرماتے ہیں علی( ع) اور اس کے اوصیاء کے ساتھ مخصوص ہے،یہ حضرات پھر سوال کرتے ہیں کہ یہ اوصیا کون ہیں،آپ فرماتے ہیں کہ"علی اخی و وزیری و وارثی و وصی و خلیفتی فی امتی و ولی کل مومن من بعدی،ثم ابنی الحسن،ثم ابنی الحسین ثم تسعۃ من ولد ابنی الحسین واحدا بعدا واحد،القرآن معھم و ھم مع القرآن،لا یفارقونھ ولا یفارقھم حتی یردواعلی الحوض"غاید المرام باب58حدیث 4"علی( ع) میرا بھائی،میرا وزیر،میرا وارث،میرا وصی،میرا خلیفہ اور میرے بعد میری امت کے تمام مومنوں اور مومنات کا ولی ہے،اس کے بعد میرا بیٹا حسن پھرحسین اور پھر یکے بعد دیگرے حسین کے نو فرزند،قرآن ان کے ساتھ ہے اور وہ قرآن کے ساتھ ہیں،اور حوض کوثر تک ان کے درمیان کوئی جدائی نہیں ہوگی۔"بہ نقل از فرائد حموینی"۔
اس کے بعد جناب ابوبکر وعمر،علی( ع) کو مبارک دیتے ہیں"بخ بخ لک یا علی اصبحت مولای و مولی کل مومن و مومنۃ"مبارک ہو،مبارک ہو یا علی،آج سے آپ( ع) ہمارے اور تمام مومن اور مومنات کے مولا ہیں،اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام شواہد کے باوجود،علی( ع) کے حق خلافت کو کیوں غصب کیا گیا؟حضرت علی( ع) کی مظلومیت کا یہ حال تھا کہ اپنے ساتھ یہ ناانصافی ہونے کے باوجود سکوت اختیار کرتے ہیں،کیونکہ انہیں اسلام کی سر بلندی عزیز تھی،اسلام کا وہ نہال،جو پیامبر(ص) نے لگایا تھا ابھی تناور درخت میں تبدیل نہیں ہوا تھا،ذرا سی تیز آندھی سے اس کے جڑ سے اکھڑنے کا خطرہ تھا،لھذا امام( ع)اپنے حق کے غصب ہونے پر بھی صدا بلند نہ کر سکے اور خلفاء یکے بعد دیگر انتخاب ہوتے رہے،یہاں تک کہ تیسرے خلیفہ جناب عثمان کا دوران خلافت آ گیا،جناب عثمان نے مہاجرین و انصار کے لائق افراد کو نظرانداز کرتے ہوئے اہم مقامات اور حکومتی عہدے بنی امیہ کے سپرد کر دیئے،بیت المال سے غیر مشروع تصرف اور اس طرح کے بہت سے دیگر موارد نے لوگوں کو خلیفہ سے بد گمان کر دیا، شورشیں برپا ہونے لگیں،جو خلیفہ کے قتل پر تمام ہوئیں،جناب عثمان کے بعد لوگوں نے امام علی( ع) کو خلیفہ منتخب کر کے ان کی بیعت کر لی۔
امام علی( ع) کا دوران خلافت سراسر عدالت اور سنت ہای الہی کا احیا تھا،علی( ع) کی عدالت کا شہرہ نہ صرف ان کی اپنی خلافت کے دوران تھا بلکہ تین خلفائے اول اپنے اپنے دوران خلافت میں جہاں بھی کسی معاملہ کو سلجھا نہیں سکتے تھے،علی( ع) سے مدد لیتے تھے،یہاں تک کہ خلیفہ دوم یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں"لولا علی لھلک عمر"اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا،لیکن بعض لوگ یہاں پر بھی علی( ع)کی مخالفت سے دست بردار نہ ہوئے،جس کے نتیجہ میں امام علی( ع)کو اپنے دوران خلافت میں جنگ جمل،صفین اور نہروان سے دست و پنجہ لڑانا پڑا،آخر میں انہیں لعینوں میں سے ایک شخص عبدالرحمان ابن ملجم جو گروہ خوارج سے تھا،نے انیس رمضان کی شب کو مسجد کوفہ میں ،حالت نماز میں آپ کو زہر آلود تلوار کا وار کر کے زخمی کر دیا،جب اس ملعون نے آپ پر وار کیا،تو آپ کی زبان پر یہ جملات جاری ہو گئے"فزت و رب الکعبہ"خدا کی قسم آج میں کامیاب ہو گیا،آپ نے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اکیس رمضا ن چہلم ہجری کو جام شہادت نوش کیا،اور حضرت حق سے جا ملے،انا للہ و انا الیہ راجعون۔
خبر کا کوڈ : 35795
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش