تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
غزہ میں جاری نسل کشی کو روکنے کے لئے دنیا بھر میں اضطراب پایا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے انسانوں کی زبان پر ایک ہی بات دہرائی جا رہی ہے کہ غزہ میں نسل کشی کا ذمہ دار امریکہ یعنی امریکی حکومت ہے۔ یہ بات اس لئے دہرائی جا رہی ہے کیونکہ امریکی حکومت غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے لئے اربوں ڈالر کا اسلحہ اور ملٹری مدد فراہم کرنے میں پیش پیش ہے۔ امریکی حکومت کے عہدیدار اور سینیٹرز سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر کھلم کھلا لکھتے ہیں کہ وہ اسرائیل کے ساتھ ہیں اور غزہ میں جاری نسل کشی کی بندش سے ان کو کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ مورخہ 20 نومبر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرارداد پیش کی گئی ہے، جس میں غزہ میں فی الفور جنگ بندی کی بات کی گئی تھی، تاہم سلامتی کونسل کے پندرہ اراکین میں سے 14 اراکین نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا اور عالمی برادری کو پابند بنانے کی کوشش کی کہ غزہ میں جاری نسل کشی کو بند کروایا جائے اور جنگ بندی کی جائے۔
پندرہ میں سے صرف ایک رکن امریکی حکومت نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا، یعنی اس کو ویٹو کر دیا، جس کے باعث یہ قرارداد بھی پہلی والی قراردادوں کی طرح ردی کی ٹوکری میں چلی گئی ہے۔ غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد کو سلامتی کونسل کے دس غیر مستقل اراکین کی جانب سے پیش کیا گیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ غزہ میں فی الفور جنگ بندی کی جائے اور مقبوضہ فلسطین میں قید تمام قیدیوں کو رہائی دے کر غزہ کے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کو محفوظ کیا جائے۔ سلامتی کونسل کے مستقل اور غیر مستقل اراکین میں سے 14 اراکین قرارداد کے حق میں ووٹ دے چکے تھے، تاہم امریکہ نے ہمیشہ کی طرح غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی حمایت کرتے ہوئے غزہ میں جنگ بندی کی اس قرارداد کو مسترد کر دیا۔ امریکی حکومت جو دنیا بھر میں حکومتوں اور عوام کو جمہوریت اور آزادی جیسے کھوکھلے نعروں کا درس دیتی ہے، اس کی اپنی جمہوریت کا حال یہ ہے کہ انسانیت کے قتل عام پر کھڑی ہے۔
پوری دنیا آج غزہ میں ہونے والی نسل کشی پر مضطرب ہے، لیکن یہ امریکی حکومت ہے کہ جو غاصب صیہونی حکومت کو نہ صرف جنگی اسلحہ و ساز و سامان فراہم کر رہی ہے، بلکہ دنیا میں غزہ کی جنگ بند کروانے کی کوششوں کا گلا بھی ویٹو جیسی طاقت کا استعمال کرکے گھونٹ رہی ہے۔ امریکی حکومت کے ان اقدامات سے پوری دنیا اور خاص طور پر امریکی عوام کے سامنے اپنے حکمرانوں کا چہرہ کھل کر سامنے آچکا ہے۔ امریکہ کے غیرت مند شہری غزہ میں ہونے والی نسل کشی پر سراپا احتجاج ہیں، لیکن جمہوریت کا دعویٰ کرنے اور دنیا کو جمہوریت کا درس سکھانے والی امریکی حکومت اپنی ہی جمہور کی رائے اور خواہشات کے برخلاف غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کی مدد کرنے میں مصروف ہے، تاکہ غزہ میں معصوم انسانوں کا قتل عام جاری رہے۔ بہرحال اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد منظور ہوئے بغیر ناکام ہوگئی ہے۔
یہ صرف سلامتی کونسل کی نہیں بلکہ پوری اقوام متحدہ کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ اقوام متحدہ کی اپنی حیثیت اور کارکردگی پر بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ دنیا اقوام متحدہ کی طرف اپنی امیدوں کو چھوڑ رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اقوام متحدہ صرف ایک ناکام ادارہ اور اقوام عالم پر بوجھ بن چکی ہے۔ واضح رہے کہ اکتوبر 2023ء کے اوائل سے، غاصب اسرائیل دو محاذوں پر وحشیانہ جارحیت کر رہا ہے، جس میں اب تک غزہ کی پٹی میں کم از کم 50 ہزار سے زائد اور لبنان میں 5 ہزار سے زائد افراد شہید ہوچکے، جبکہ دسیوں ہزار زخمی ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہوچکے ہیں۔ ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے مہلک حملوں نے غزہ کی تقریباً پوری آبادی اور لبنان کے پانچویں حصے سے زیادہ باشندوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ اس بدترین تباہی میں بھی اگر دنیا میں کوئی حکومت جنگ کو بڑھاوا دے رہی ہے تو وہ صرف اور صرف امریکی حکومت ہے۔
امریکی حکومت کے اقدامات سے ثابت ہوچکا ہے کہ یہ انسان دشمن حکومت ہے، جو غزہ اور لبنان سمیت دنیا میں کہیں بھی انسانوں کی نسل کشی کے لئے ساز و سامان اور اسلحہ تو فراہم کرتی ہے، لیکن نعروں میں انسانی حقوق کے تحفظ کا واویلا کرتی ہے۔ پوری دنیا اور امریکی عوام ان امریکی حکمرانوں کے مکروہ اور سیاہ چہروں سے واقف ہوچکے ہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری دنیا میں لوگ اپنے اپنے ممالک میں ایک ہی نعرے کو بلند کریں کہ غزہ اور لبنان میں جاری نسل کشی اور جارحیت کی ذمہ دار امریکی حکومت ہے۔ صرف اس نعرے کی مدد سے دنیا بھر کے عوام کو آگہی فراہم کی جائے اور دنیا کی حکومتوں پر دبائو بڑھایا جائے کہ وہ امریکی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کو محدود کریں اور امریکی حکومت سے مطالبہ کریں کہ وہ غزہ میں جاری نسل کشی کو ختم اور جنگ بند کرے۔ غزہ اور لبنان کے ہزاروں بے گناہوں کا خون امریکی حکومت کے ہاتھوں پر ہے۔