خصوصی رپورٹ
مرحوم قائد ملت جعفریہ علامہ سید محمد دہلوی پیتن ہیڑی ضلع بجنور (موجودہ ہندوستان) میں پیدا ہوئے، آپ نے شمس العلماء سید عباس حسین جارچوی، دہلی میں مولوی مرزا محمد حسن مرحوم، مولوی سید محمد ہارون زنگی پوری مرحوم، لکھنؤ مدرسہ ناظمیہ میں سید نجم العلماء، مولوی سید مقبول احمد مرحوم سے فیض علم حاصل کیا۔ آپ نے خطابت میں وہ مقام حاصل کیا کہ خطیب اعظم کا لقب پایا، سادات بارہہ کے لیے انہی سے ایک شاندار بورڈنگ بنوایا۔ بمبئی میں قیصر باغ جیسی تعمیر آپ کی پرخلوص جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ دہلی ہال اور جھنگ کا یتیم خانہ آپ کے جذبوں کا ترجمان ہے۔ 1931ء سے انجمن وظیفہ سادات و مومنین کے رکن تھے اور اس ادارے کی بہتری کے لیے کام کیا۔ لکھنؤ کے تاریخی ایجی ٹیشن میں بے مثال خدمات انجام دیں۔ ستر برس کی عمر اپنی جواں ہمتی اور بہادرانہ پامردی کے ساتھ ایک انتھک سپاہی، ایک بے پروا مجاہد اور ایک نڈر قائد کی طرح پوری قوم کی قیادت کی۔
علامہ سید محمد دہلوی نے کراچی میں ایک نادر کتب پر لائبریری بنائی جبکہ ہندوستان میں آپ کا کتب خانہ ہندو بلوائیوں نے جلا دیا تھا، مارچ 1948ء میں چند روایتی رہنماؤں نے ”آل پاکستان شیعہ کانفرنس” کے پلیٹ فارم سے ایک قرارداد منظور کروائی جس کا مفہوم کچھ اس طرح سے تھا کہ ”ہم شیعان حیدر کرار کے پاکستان میں وہ ہی حقوق ہیں جو دوسرے اہلسنت برادران کے ہیں اور دیگر مسلمانوں سے الگ ہمارے کوئی حقوق نہیں ہیں”۔ لہذاجب اس کی خبر حضرت علامہ مفتی جعفر حسین اور علامہ حافظ کفایت حسین کو ہوئی تو انہوں نے دور اندیشی کے ساتھ انتہائی سخت رد عمل کا اظہار کیا اور کہا کہ ”یہ غلط ہے کہ ہمارے دوسرے مسلمانوں سے الگ کوئی اور حقوق نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دوسرے مسلمانوں سے ہماری کچھ الگ خصوصیات اور حقوق ہیں کہ جن کے تحفظ سے ہم دستبردار نہیں ہوسکتے ہیں”۔ مذکورہ قرارداد کے چند روز بعد ”ادارہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان” کا لاہور میں قیام عمل میں آیا اور مفتی جعفر حسین مرحوم پہلے صدر، حافظ کفایت حسین مرحوم نائب صدر، سید اظہر حسین زیدی مرحوم جونیئر نائب صدر پروفیسر صادق حسین قریشی مرحوم جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔
1949ء میں مفتی جعفر حسین مرحوم تعلیمات اسلامیہ بورڈ کے رکن نامزد ہوگئے، اکتیس علماء کے بائیس نکات اور تحریک ختم نبوت میں اسی پلیٹ فارم سے حصہ لیا گیا۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ اور دیگر تنظیمیں بھی روائتی ہوتے چلے گئے جب کے مسائل بڑھتے گئے۔ پہلے تو اقتدار کی چومکھی دوڑ جاری رہی پھر ایوب خان کا مارشل لاء آ گیا، عائلی قوانین آگئے، سارے اوقاف پر حکومت نے قبضہ کر لیا۔ 1963ء میں سانحہ ٹھیڑی، سندھ میں پیش آیا اس پر کوئی خاص احتجاج و دادرسی نہ ہو سکی۔ درسی کتب میں دل آزار مواد شامل ہو گیا، دینیات کے نام پر ایک خاص نکتہ نظر کو پڑھایا جانے لگا، عزاداری کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی ہونی شروع ہو گئیں، شیعہ افسران سے تعصب برتا جانے لگا، انہیں اہم ذمہ داریوں سے علیحدہ کیا جانے لگا۔ غرضیکہ مسائل بڑھتے چلے گئے۔ ان حالات میں علامہ سید محمد دہلوی مرحوم نے 5، 6، 7 جنوری 1964ء کو کراچی میں پاکستان کی تاریخ کا پہلا منظم اجتماع امام بارگاہ شاہ کربلا، رضیہ کالونی، کراچی میں منعقد ہوا، جس میں دو سو سے زیادہ علماء کرام،اور ممتاز شیعہ رہنماؤں نے شرکت کی۔
تمام مسائل پر تفصیلی گفتگو کے بعد مجلس عمل علمائے شیعہ تشکیل دی گئی اور اتفاق رائے سے خطیب اعظم مولانا سید محمد دہلوی مرحوم کو اس کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ طے پایا کہ درج ذیل مطالبات حکومت کو پیش کئے جائیں۔
1۔ شیعہ طلباء کے لیے مدارس میں علیحدہ دینیات کا انتظام
2۔ شیعہ اوقاف کے لیے حکومت کی زیر نگرانی شیعہ بورڈ کا قیام
3۔ تحفظ عزاداری
4۔ درسی کتب سے قابل اعتراض و دل آزار مواد کا اخراج
آپ کے دور ِقیادت کو ایک ترتیب دی گئی ہے اس کی ایک جھلک قارئین کے سامنے آ جائے گی۔
5، 6، 7 جنوری 1964ء۔ کراچی میں علماء کا اجلاس اور مطالبات کا تعین، مجلس عمل علمائے شیعہ اور انتخاب 23، فروری 1964ء مطالبات کے سلسلے میں وفد گورنر امیر محمد خان سے ملا۔ انہوں نے غور کرنے کا کہہ کر ٹال دیا۔ 3 مارچ 1964ء صدر پاکستان سے ملاقات کی۔ وعدہ کیا جو پورا نہ ہوا۔ 14 مئی،1964ء صدر پاکستان سے کراچی میں ملاقات کی اور وعدہ یاد دلایا۔ اس نے سیکرٹری تعلیم سے ملنے کو کہا۔
13 اگست 1964ء کو سیکرٹری تعلیم سے راولپنڈی میں ملاقات کی، جو سودمند ثابت نہ ہوئی تو پنڈی کنونشن طلب کیا گیا۔ 30،29،28 اگست 1964ء کو راولپنڈی میں عظیم الشان کنونشن منعقد ہوا۔ تیس ہزار سے زائد مؤمنین نے شرکت کی۔ پاس کردہ ریزولیوشن حکومت کو بھیجا مگر کوئی جواب نہیں آیا۔ 25، اکتوبر 1964ء آل پاکستان یوم احتجاج منایا گیا۔ حکومت کو ہر جگہ سے خطوط اور ٹیلی گرامز دئے گئے مگر حکومت کی طرف سے خاموشی رہی۔ 30 نومبر 1964ء پچاس افراد مشتمل علماء و زعماء نے لاہور میں صدر سے ملاقات کی اور صدر نے ایک کمیٹی بنانے کا اعلان کیا۔
جنوری 1965ء قائد ملت سید محمد دہلوی نے ایک چار رکنی کمیٹی کا اعلان کیا، مگر گورنر نے اپنے دوست کا نام کمیٹی میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے ایک سال تک کمیٹی کا کوئی اجلاس نہیں ہونے دیا۔ 28،27 اگست 1966ء کو ملتان میں کنونشن منعقد ہوا۔ ملک بھر سے نمائندگان شریک ہوئے۔ حکومت سے پر زور مطالبہ کیا گیا کہ وہ شیعہ مطالبات کو منظور کرے مگر حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی۔
1965,ء، 1966ء میں پورے ملک میں شیعہ مطالبات کمیٹیاں قائم کر دی گئیں، 6 نومبر 1966ء کو جھنگ میں کونسل کا اجلاس منعقد کیا گیا، جس میں ملک بھر سے نمائندگان نے شرکت کی۔ 12،11 فروری 1967ء کو کراچی میں ورکرز، ممبران کونسل اور مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا مگر بے سود رہے۔ 4،3 جون، 1967ء میں عظیم شان جلسے کا اعلان کیا گیا۔ جلسہ سے قبل گورنر جنرل موسیٰ سے ایک وفد نے ملاقات کی۔ اس نے کہا کہ اگر جلسہ ملتوی کردیا جائے تو مطالبات کی منظوری کے لیے کوشش کرے گا، مگر جلسہ ملتوی کرنے کے باوجود کچھ نہ ہوا۔ 15،14 جنوری 1968 کو پورے ملک سے ہزاروں کی تعداد میں ٹیلی گرام و خطوط لکھ کر حکومت سے مطالبات کی منظوری کے لیے کہا گیا۔12،11،10 فروری 1968 کو حیدرآباد میں کنونشن طلب کیا گیا، گورنر موسٰی نے اس کی شدید مخالفت کی۔ علماء کرام و مندوبین کی حیدرآباد میں داخلہ پر پابندی لگا دی لیکن وزیر داخلہ کے وعدہ پر کنونشن ملتوی کر دیا گیا مگر وعدہ وفا نہ ہوا۔
25 مارچ 1968ء کو لاہور میں ایک میٹنگ بلائی گئی، اس موقع پر وزیر داخلہ سے ایک وفد ملا تو اس نے بتایا کہ مطالبات حکومت کے زیر غور ہیں۔ 7،6 جولائی 1968ء کو حیدر آباد میں مجلس مشاورت کا اجلاس ہوا جس میں مطالبات کے حصول کے لیے مختلف طریقوں پر غور ہوا۔ 3،2 نومبر 1968ء راولپنڈی میں جلسہ عام بلایا گیا، جہاں دس ہزار سے زائد مؤمنین جمع ہوئے۔ جبکہ سینکڑوں علاقہ جات سے کفن بر دوش دستوں کی اطلاعات آنی شروع ہو گیں۔ پہلا 72 افراد پر مشتمل دستہ 2 نومبر کو پہنچنا تھا کہ حکومت نے مطالبات کی منظوری کا اعلان کر دیا۔ حکومت نے مطالبات تو منظورِ کر لیے مگر عملدرآمد میں تساہل سے کام لیتی رہی۔ علیحدہ شیعہ دینیات بھٹو کے دور میں احتجاجی دھرنے کے بعد جاری ہوئی۔ 1976ء میں میٹرک کا امتحان اسی دینیات پر ہوا۔ مگر اسے بھی برقرار نہ رکھ سکے۔ یہ ایک جھلک ہے کہ کس طرح علامہ سید محمد دہلوی نے پوری قوم کو منظم کر کے دن رات ایک کر کے پھرپور جدوجہد کی، آپ 20 اگست 1971ء کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو گئے۔