1
Thursday 1 Aug 2024 10:37

غزہ جنگ میں حماس کامیاب ہو رہی ہے

غزہ جنگ میں حماس کامیاب ہو رہی ہے
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

مقبوضہ فلسطین کی پٹی غزہ میں گذشتہ دس ماہ سے جنگ جاری ہے۔ اس جنگ کا آغاز سات اکتوبر 2023ء کو ہوا، جب حماس اور جہاد اسلامی فلسطین سمیت دیگر مزاحمتی دھڑوں نے فلسطین پر 76 سالہ غاصبانہ صیہونی تسلط اور ظلم و جارحیت کا جواب طوفان اقصیٰ کی صورت میں دیا اور چند گھنٹوں کے اندر ہی غاصب صیہونی حکومت کو گھٹنوں پر آنے پر مجبور کر دیا۔ غاصب صیہونی حکومت جس کو امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہے، غزہ میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام نطر آرہی ہے۔ آج غزہ کی جنگ کو تین سو دن ہوچکے ہیں، لیکن غاصب اسرائیلی دشمن کے ہاتھ ایک بھی ایسی کامیابی نہیں لگی ہے، جس کو وہ میڈیا پر یا اپنے صیہونی آبادکاروں کے لئے بیان کرے۔ حالانکہ گذشتہ دس ماہ سے امریکی حکومت مسلسل غاصب اسرائیل کے لئے سیاسی، معاشی اور مسلح مدد کر رہی ہے، تاکہ اسرائیل اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جائے، لیکن نتیجہ زیرو ہے۔

اب اگر اس صورتحال کو یوں بیان کیا جائے کہ دراصل غزہ میں جاری نسل کشی کے پیچھے امریکی ہاتھ ہے تو یہ بے جا نہیں ہے۔ اسی طرح اگر اس جنگ کی کامیابی اور شکست کی بات کریں تو یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ غزہ کی جنگ میں جہاں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل شکست سے دوچار ہے، وہاں حقیقی طور پر امریکہ شکست پذیر ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ غصہ اور شدت میں تیزی ہے اور معصوم انسانوں کو ملبوں تلے روندا جا رہا ہے، معصوم بچوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ گھروں اور دیگر عمارتوں سمیت اسکول اور اسپتالوں کو تباہ و برباد کر دیا گیا ہے۔ پناہ گزین مقامات پر بھی بمباری کی جا رہی ہے۔ امدادی ٹیموں کو بھی قتل کیا جا رہا ہے۔ یہ غصہ اور بوکھلاہٹ کی شدت اس بات کی دلیل ہے کہ غاصب صیہونی حکومت اور امریکہ غزہ میں شکست کھا چکے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ اور اسرائیل دونوں ہی غزہ میں شکست کھا چکے ہیں تو پھر ان تین سو دنوں سے جاری جنگ کا فاتح کون ہے۔ بہت سے لوگ ظاہری حالات کو دیکھ کر اور ہزاروں معصوم انسانوں کا صیہونیوں کے ہاتھوں قتل عام دیکھ کر اور تباہی اور بربادی کو دیکھ کر یہی کہتے ہیں کہ غزہ جنگ میں فلسطینی نقصان میں ہیں اور حماس کو ایسے اقدامات نہیں کرنے چاہیئے تھے، جس سے فلسطینی قتل ہوں۔ دراصل یہ معاشرے کا ایسا مایوس طبقہ ہے کہ جن کے بارے میں جب تحقیق کی جاتی ہے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان لوگوں نے کبھی زندگی بھر فلسطین کے لئے ایک حرف بھی حمایت میں ادا نہیں کیا اور آج فلسطین کے لوگوں کی مزاحمت پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ دراصل یہ نادانستہ طور پر دشمن کے سامنے مغلوب ہوچکے ہیں۔ ان کے دماغ اور عقل دشمن کے سامنے ناقص ہوچکے ہیں۔

حالانکہ فلسطینیوں کی ایک حقیقی دنیا اور بھی ہے۔ فلسطینی عوام گذشتہ 76سالوں سے غاصب اسرائیلی دشمن کا مقابلہ کرتے آرہے ہیں۔ ہزاروں کیا اب تک لاکھوں جنازے اٹھا چکے ہیں۔ غزہ کی مائیں اپنے پیارے جوان بیٹوں کے جنازوں کو خود کاندھا دے رہی ہیں۔ غزہ اور پورے فلسطین کے لوگ یہ بات بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی بڑے ہدف کے لئے بڑی قربانی دینا پڑتی ہے اور اس قربانی کے لئے فلسطین کا ہر بچہ بچہ اور جوان اور خواتین و مرد سب تیار نظر آرہے ہیں۔ حقیقت میں یہی کامیابی ہے، جو شاید دنیا پرستوں اور مادہ پرستوں کو نظر نہیں آتی ہے۔ آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ غزہ کی اس جنگ کے بارے میں خود فلسطینیوں کے دشمن کیا کہتے ہیں کہ یہ جنگ کون جیت رہا ہے۔؟ یا اس جنگ کا فاتح کون ہے۔؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے اگر ہم امریکہ اور برطانیہ سمیت یورپی ممالک کے میڈیا اداروں کی خبروں کو ملاحظہ کریں تو ہمیں ملتا ہے کہ سب کے سب یک زبان کہتے ہیں کہ غزہ جنگ میں حماس کو کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔

امریکی میگزین فارن افیئرز نے غزہ میں دس ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت پر تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "غزہ کی پٹی میں دس ماہ کی اسرائیلی جنگی کارروائیوں کے بعد بھی حماس کو شکست نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی اسرائیل حماس کو شکست دینے کے قریب ہی پہنچا ہے۔" امریکی جریدے نے مزید لکھا ہے کہ "اسرائیل" نے تقریباً چالیس ہزار فوجیوں کے ساتھ غزہ کی پٹی پر حملہ کیا۔ 80 فیصد آبادی کو زبردستی بے گھر کر دیا، چالیس ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔ ہزاروں ہی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ غزہ کی پٹی پر کم از کم نوے ہزار ٹن بم گرائے جا چکے ہیں۔ غزہ کی نصف سے زیادہ عمارتوں کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ پانی، خوراک اور بجلی تک رسائی بند کر دی گئی۔ پوری آبادی کو فاقہ کشی کے دہانے پر چھوڑ دیا گیا۔

اگرچہ بہت سے مبصرین نے اسرائیل کے رویئے کی غیر اخلاقی باتوں کو اجاگر کیا، اسرائیلی رہنماء مسلسل یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ وہ حماس کو شکست دینے اور اس کی صلاحیت کو کمزور کرنے کے قریب ہیں، لیکن اب جو بات واضح ہوگئی ہے، وہ یہ ہے کہ "حماس کی طاقت دراصل بڑھ رہی ہے۔" کیونکہ دس ماہ میں اب تک غاصب اسرائیلی فوج ایک بھی کامیابی حاصل کرنے میں ناکام ہے، جبکہ حماس نے اس کے مقابلہ میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں، ان میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ طوفان اقصیٰ کے آغاز سے اب تک مسئلہ فلسطین پوری دنیا میں اجاگر ہو رہا ہے۔ پوری دنیا بالخصوص مغربی دنیا کے عوام فلسطین اور حماس کے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں۔ اسی طرح فوجی نقصان کے اعتبار سے بھی غاصب اسرائیل فوج کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے، چاہے وہ جانی ہو یا جنگی ساز و سامان کا نقصان ہو۔ اسی طرح خطے میں سیاسی صورتحال کو امریکہ اور اسرائیل کے حق سے نکال کر اپنے حق میں کرنا بھی حماس کی بڑی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔

دراصل اس جنگ میں حماس کی ایک بڑی کامیابی یہ بھی ہے کہ اسرائیل کی پوری حکمت عملی ناکام ہوچکی ہے۔ اسرائیل نے پہلے دن سے اعلان کیا تھا کہ حماس کو ختم کر دیا جائے گا، لیکن بہت بڑے قتل عام کے باوجود حماس کی اعلیٰ قیادت یحیٰ سنوار اور محمد ضیف جو ابھی تک غزہ میں ہی کمانڈ کر رہے ہیں، ان کو گرفتار یا شہید کرنے میں ناکام رہا ہے۔ غزہ میں ہونے والے بڑے قتل عام نے حماس کو مزید مضبوط کر دیا ہے اور عوامی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ قبل ازیں اسرائیلی قابض فوج کے ترجمان ڈینیئل ہاگاری نے کہا تھا کہ حماس کو تباہ کرنے کی بات ’’اسرائیلیوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اگر فلسطینی حکومت حماس کا متبادل نہیں ڈھونڈتی تو حماس برقرار رہے گی۔‘‘

اسرائیلی حملے کے نتیجے میں امریکی میگزین کا کہنا ہے کہ حماس کی طاقت درحقیقت بڑھ رہی ہے، جس طرح بڑے پیمانے پر "تلاش اور تباہی" کے دوران "ویت کاننگ" (نیشنل فرنٹ فار دی لبریشن آف ساؤتھ ویتنام) کی طاقت میں اضافہ ہوا تھا۔ اس کا اشارہ ان کارروائیوں کی طرف تھا، جنہوں نے 1966ء اور 1967ء میں جنوبی ویتنام کے بیشتر حصوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ میگزین کے مطابق حماس غزہ میں ایک ضدی اور مہلک "گوریلا" فورس کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ اس کے ساتھ شمالی علاقوں میں زمینی کارروائیاں دوبارہ شروع ہوگئی ہیں، جن پر اسرائیل نے صرف چند ماہ قبل قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔شاید جو لوگ غزہ میں جنگ کے مناظر کی پیروی کرتے ہیں، وہ قابض افواج کے خلاف القسام بریگیڈز کی طرف سے اپنی کارروائیوں کے نشر کیے گئے ویڈیو کلپس دیکھ کر حیران رہ جائیں گے۔ القسام مجاہدین غزہ میں گھسنے والی قابض فوج پر کئی محاذوں سے حملے کرتے ہیں۔ یہ حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسرائیل حماس کو کچلنے کے اپنے دعوے میں ناکام رہا ہے۔

دوسری جانب برطانوی اکانومسٹ میگزین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کی پہلی ناکامی حکمت عملی ہے، کیونکہ یہ الزام بنیادی طور پر اسرائیلی سیاست دانوں پر آتا ہے، خاص طور پر وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو، جنہوں نے غزہ پر کنٹرول کرنے والی کسی بھی متبادل فلسطینی قوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ دوسری ناکامی جرنیلوں کی ہے، جو حماس کی مزاحمتی طاقت کا درست اندازہ نہیں لگا سکے۔ فوج کی دوسری ناکامی یہ ہے کہ انہوں نے اندازہ نہیں لگایا کہ یہ جنگ کتنی طویل ہوگی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی سے عام شہریوں کے قتل عام سے اسرائیل کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ اس کی دو توجیہات ہیں۔ پہلی یہ کہ آپریشنل ہدایات جو شہریوں کے مارے جانے کا امکان زیادہ ہونے پر بھی حملوں کی اجازت دیتی ہیں۔ دوسرا اسرائیلی فوج کے اندر ان قوانین کی پابندی کرنے میں نظم و ضبط کا فقدان ہے۔

دی اکانومسٹ نے غزہ میں خدمات انجام دینے والے ایک ریزرو افسر کے حوالے سے کہا کہ "تقریباً کوئی بھی بٹالین کمانڈر یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ پٹی میں چلنے والی ہر چیز دہشت گرد ہے یا عمارتوں کو تباہ کر دینا چاہیئے، کیونکہ انہیں حماس استعمال کرسکتی ہے۔" اس حکمت عملی کے نتیجے میں بڑی تعداد میں عام شہری مارے گئے اور عمارتیں تباہ ہوئیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ غزہ کی اس مسلسل دس ماہ کی جنگ میں غاصب اسرائیل کے ساتھ امریکہ سمیت مغربی دنیا اور چند عربی و غیر عربی مسلمان ممالک ساتھ ہونے کے باوجود بھی اسرائیل اس جنگ میں شکست کھا رہا ہے جبکہ دوسری جانب حماس کے ساتھ جہاد اسلامی، حزب اللہ، انصار اللہ، حشد الشعبی جیسے مزاحمتی گروہ اور چند ایک مسلمان حکومتیں، جن میں ایران، شام اور دیگر شامل ہیں، کامیابیوں کا سفر طے کر رہے ہیں۔ حقیقیت میں خدا فلسطینی عوام اور فلسطینی مزاحمت کی تنظیموں کے ساتھ ہے، جبکہ پوری دنیا غاصب اسرائیل کے ساتھ ہے، لیکن کامیابی صرف فلسطینیوں کو اور حماس کو حاصل ہو رہی ہے، جس کا خود دشمن اعتراف کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1151309
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش