0
Saturday 27 Jul 2024 21:04

ترکیہ اور عراق کی ارضی سالمیت 

ترکیہ اور عراق کی ارضی سالمیت 
ترتیب و تنظیم: علی واحدی

شمالی عراق کے سماجی اور سیاسی کارکنان ان دنوں سوشل نیٹ ورکس پر شمالی عراق میں ترک افواج کی مسلح موجودگی کے بارے میں جو ویڈیوز شائع کر رہے ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شمالی عراق میں ترکیہ کی فوجی موجودگی صرف سرحدی علاقوں تک محدود نہیں ہے۔ ترکیہ نے صرف خالی بستیوں پر فوج تعینات نہیں کی ہے بلکہ اس نے ڈوہوک صوبے کے اندر کئی رہائشی علاقوں تک اپنی فوجی موجودگی کو پھیلا رکھا ہے۔ ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ترک مسلح افواج نے شمالی عراق کے اندر جا کر ایک چوکی نصب کی ہے اور وہاں بورڈ لگا دیا ہے، جس پر لکھا ہے: "یہ ترکی کی سرحد ہے۔" شمالی عراق کے سماجی اور سیاسی کارکنان نے ترکی کو ان علاقوں پر اپنی مالیکت جتانے اور وہاں جاری نقل و حرکت پر خبردار کیا ہے۔

عراقی پارلیمنٹ میں "نیو جنریشن" دھڑے کے سربراہ سروہ عبدالواحد نے شمالی عراق میں ترک افواج کی موجودگی کے بارے میں کہا کہ انقرہ نے شمالی عراق کے دو صوبوں اربیل اور دوہوک میں 23 فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں۔ دوسری جانب، انقرہ نے شمالی عراق میں اپنے فوجی آپریشن کا جواز پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے یہ نیا فوجی آپریشن "ترک کردش ورکرز پارٹی" (PKK) کے نام سے مشہور مسلح گروپ کی سرگرمیوں کو دبانے اور روکنے کے لیے شروع کیا ہے۔ اگرچہ شمالی عراق میں ترکی کے آپریشن اور فوجی موجودگی کو ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن عراق کی کردستان ڈیموکریٹک پارٹی(جس کی قیادت مسعود بارزانی کر رہے ہیں) اور جو دو صوبوں اربیل اور دوہوک کو کنٹرول کرتی ہے، اس آپریشن اور انقرہ کی فوجی موجودگی کے خلاف مکمل خاموش ہے۔

عراق کی کردستان علاقائی حکومت، جس کی سربراہی مسعود بارزانی کے بڑے بیٹے کر رہے ہیں، انہوں نے خود کو وقتاً فوقتاً صرف ایک بیان شائع کرنے تک محدود  کر رکھا ہے، جس میں صرف شمالی عراق میں ترکیہ کے فوجی حملوں کے کچھ نتائج،(جیسے لوگوں کی نقل مکانی یا عام شہریوں کی ممکنہ ہلاکت) یا اس علاقے میں کھیتوں اور جنگلات کو جلانے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اسی وقت عراق کی رائے عامہ، سیاسی ماہرین اور عراق میں میڈیا کی سطح پر، اس فوجی موجودگی کو "قبضے اور شمالی عراقی سرزمین کے ایک حصے کی بتدریج علیحدگی اور ترکی کی سرزمین کے ساتھ الحاق" کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس صورت حال میں عوام بغداد اور اربیل کے حکام سے سنجیدہ اقدام اور لائحہ عمل چاہتے ہیں۔

عراقی پارلیمنٹ کے سکیورٹی اینڈ ڈیفنس کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ ترک فوجی دستے شمالی عراق کی سرزمین میں 30 سے ​​40 کلو میٹر تک اندر گھس آئے ہیں، جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ عراقی پارلیمنٹ کے سکیورٹی اینڈ ڈیفنس کمیشن کے رکن سیکفان سندی نے دو روز قبل ایک نیوز بیان میں کہا تھا کہ وہ عراقی ایوان صدر کو ایک باضابطہ خط بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں، تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا ترک فوجی مداخلت کے حالیہ واقعات، حملے اور بم دھماکے بغداد کو اعتماد میں لیکر کئے گئے ہیں یا نہیں۔ انہوں نے یہ بیانات حالیہ ترک آپریشن کے حوالے سے بغداد کی خاموشی کے نتیجے میں دیئے ہیں۔ بغداد اور اربیل میں حکام کی خاموشی کے نتیجے میں، عراق کے کرد صدر کی اہلیہ (جو کہ کرد نسل سے بھی ہیں اور عراق کے سابق کرد رہنماؤں میں سے ایک کی بیٹی ہیں) انہوں نے ترکیہ کی فوج کے خلاف احتجاج کے لیے باقاعدہ آواز اٹھائی ہے

"شہناز ابراہیم احمد" نے "X" میں اپنی سرکاری ویب سائٹ پر PKK فورسز کا تعاقب کرنے اور انہیں دبانے کے دعوے کے تحت ترک فوجی دستوں پر عراق کے کردستان کے علاقے کے ایک گاؤں کو تباہ کرنے اور کھیتوں کو جلانے کا الزام لگایا ہے۔ بغداد میں ترک سفیر نے عراقی صدر کی اہلیہ کے بیانات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے معاہدوں کے عین مطابق ہے۔ "انیل بورا انان" نے اپنے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ شمالی عراق میں یہ فوجی آپریشن ان 30 سمجھوتوں کے مطابق ہے، جن پر ترک صدر کے حالیہ دورہ بغداد کے دوران دستخط کیے گئے تھے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے گذشتہ ماہ کی 3 تاریخ کو بغداد کا دورہ کیا تھا اور اس تاریخ کے بعد انقرہ نے شمالی عراق میں اپنی فوجی کارروائیوں میں شدت اور توسیع کی ہے۔

بغداد اب تک اس دعوے کے خلاف خاموش ہے کہ یہ کارروائی عراقی حکام کی رضامندی سے ہوئی ہے۔ بغداد میں پارلیمنٹ کے کئی ارکان نے ترک سفیر کو وزارت خارجہ طلب کرنا چاہا ہے، لیکن اب تک عراقی وزارت خارجہ نے اس سلسلے میں کوئی کارروائی نہیں کی۔ ترک آپریشن کے خلاف بغداد اور اربیل کی بیک وقت خاموشی نے رائے عامہ اور سیاسی ماہرین کے درمیان اس تازہ ترین آپریشن کے حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان ہم آہنگی کے شکوک کو مزید تقویت دی ہے، حالانکہ اس کا اعلان اس سے قبل "ابراہیم السمیدی" سے منسوب بیانات میں کیا گیا تھا۔ عراقی وزیراعظم کے مشیروں نے شمالی عراق میں ترکیہ کی فوجی کارروائی کو بغداد سے مربوط کیا ہے۔ دوسری طرف امریکہ جس نے شمالی عراق میں انقرہ کی موجودہ فوجی کارروائیوں کے جواب میں اربیل میں اپنا سب سے بڑا قونصل خانہ قائم کیا ہے، صرف اس بات پر مطمئن ہے کہ یہ فوجی کارروائیاں بغداد کو اعتماد میں لیکر انجام دی گئی ہیں۔

بغداد اور شمالی عراق کے سماجی اور سیاسی کارکنوں کو خدشہ ہے کہ یہ آپریشن شمالی عراق میں ترک فوجیوں کی طویل مدتی موجودگی اور عراقی کردستان کے علاقے کے ایک حصے کی بتدریج علیحدگی اور ترکیہ کی سرزمین کے ساتھ الحاق کا بہانہ بن جائے گا۔ اطلاعات کے مطابق، انقرہ نے شمالی عراق میں اپنی کارروائیوں کے آغاز سے لے کر اب تک شمالی عراق پر 380 سے زائد بار بمباری کی ہے، جس سے 184 خاندان بے گھر ہوئے ہیں اور 17000 ہیکٹر زرعی اراضی اور جنگلات جل چکے ہیں۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ شمالی عراق میں فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں 107 دیہات مکمل طور پر خالی کرائے جا چکے ہیں اور 602 دیگر دیہاتوں کو مکمل طور پر خالی کرنے کا کہہ دیا گیا ہے۔ قابل غور نقطہ یہ ہے کہ شمالی عراق میں انقرہ کی فوجی کارروائیوں اور خطے میں بعض بے گناہ لوگوں اور کسانوں کی ہلاکت کے اعلان کے باوجود گذشتہ ماہ کے دوران عام شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں کسی قسم کی سرکاری رپورٹ شائع نہیں کی گئی۔
خبر کا کوڈ : 1150507
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش