1
Friday 26 Jul 2024 19:59

غاصب صیہونی رژیم کی حمایت میں ریاستی اسلاموفوبیا

غاصب صیہونی رژیم کی حمایت میں ریاستی اسلاموفوبیا
تحریر: عابد اکبری
 
ہمبورگ اسلامک سنٹر کا شمار جرمنی کے اہم اور قدیم اسلامک سنٹرز میں ہوتا ہے جس کی بنیاد 1953ء میں آیت اللہ بروجردی کی حمایت سے جرمنی کے شہر ہمبورگ میں رکھی گئی تھی۔ یہ اسلامک سنٹر فارسی اور جرمن زبان میں مجلات شائع کرنے کے ساتھ ساتھ تبلیغی اور مشورتی سرگرمیوں میں بھی مصروف تھا۔ اس اسلامک سنٹر کی لائبریری میں 6 ہزار سے زائد کتابیں پائی جاتی ہیں جو مختلف اسلامی موضوعات کے بارے میں تھیں۔ یہ کتب جرمنی میں اسلام اور مکتب تشیع کے بارے میں تحقیق کرنے والے اسکالرز کیلئے بہترین مآخذ جانی جاتی ہیں۔ حال ہی میں جرمن حکومت نے ہمبورگ اسلامک سنٹر کو بند کر دیا ہے اور یوں دکھائی دیتا ہے کہ اس حکومتی فیصلے کے پیچھے جرمنی میں سرگرم صیہونی لابی اور دائیں بازو کی شدت پسند جماعتوں کا ہاتھ ہے۔
 
جرمنی کے وزیر داخلہ نے ہمبورگ اسلامک سنٹر بند کرنے کے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے ایسا موقف اختیار کیا جس سے ملتا جلتا موقف اس سے پہلے جرمنی کے آئین کی حفاظت کرنے والی تنظیم بھی اس اسلامک سنٹر کے بارے میں بیان کر چکی ہے۔ جرمنی کے وزیر داخلہ نے کہا: "ہمبورگ اسلامک سنٹر جرمنی میں ایک اسلام پسند شدت پسندانہ اور فاشسٹ آئیڈیالوجی کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔ یہ مرکز اور اس کی ذیلی تنظیمیں حزب اللہ کی حمایت کرتے ہیں اور جارحانہ یہود دشمنی کو پروان چڑھاتے ہیں۔ ہمبورگ اسلامک سنٹر رہبر ایران کے براہ راست نمائندے کے طور پر انقلاب اسلامی کی آئیڈیالوجی پھیلا رہا ہے اور فیڈرل ریپبلک جرمنی میں بھی ایسا انقلاب رونما کرنے کے درپے ہے۔" اس موقف نے اکثر صحافیوں اور جرمن محققین میں تعجب اور بعض اوقات طنزیہ جذبات کو جنم دیا ہے۔
 
کچھ ماہ قبل جرمنی میں حکومت کی درخواست پر ایک تحقیق انجام پائی تھی جس میں ملک میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے رجحانات کا جائزہ لیا گیا تھا۔ اس تحقیق کا کچھ حصہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے منظرعام پر بھی آیا تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ "جرمن معاشرے کے وسیع حصے میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز رجحانات واضح ہیں اور یہ ایک روزمرہ حقیقت ہے۔" اگرچہ دیگر انجام پانے والی تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے کہ ہر سال جرمن پولیس کی جانب سے مسلمان شہریوں کے خلاف 700 سے 1000 کے لگ بھگ توہین آمیز، اشتعال انگیز، دھمکی آمیز اقدامات نیز مالی نقصان اور شدید جسمانی تشدد انجام پاتا ہے لیکن مذکورہ بالا تحقیق میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ اسی طرح جرمن پولیس کی رپورٹس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران گذشتہ برس کی نسبت ان اقدامات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
 
طوفان الاقصی آپریشن کے بعد دیگر مغربی ممالک کی طرح جرمنی کے کچھ شہروں میں بھی مظلوم فلسطینی قوم کے حق میں مظاہرے برپا ہوتے رہتے ہیں۔ جرمن پولیس اور حکام نے نظم عامہ اور یہود دشمنی کے بہانے ان مظاہروں پر پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن اس کے باوجود مختلف شہروں میں فلسطین کے حق میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے جرمن حکومت شدید غصے میں ہے۔ جرمن پولیس نے بھی فلسطین کے حق میں مظاہرے کرنے والوں کے خلاف ردعمل شدید کر دیا ہے اور بڑی تعداد میں مظاہرین کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ جرمنی میں فلسطین کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اہل غزہ کی حمایت کا کھلم کھلا اعلان شدید نتائج جیسے گرفتاری، کام سے فارغ ہو جانے یا مہاجرت کی دستاویزات کینسل ہو جانے کے خطرات سے ہمراہ ہوتا ہے۔ جرمن حکومت ان ہتھکنڈوں کے ذریعے اس ملک میں بڑے پیمانے پر موجود فلسطین کے حامیوں کا گلا گھونٹ دینا چاہتی ہے۔
 
طوفان الاقصی آپریشن کے کچھ ہی دن بعد جرمن پولیس نے ہمبورگ مسجد پر دھاوا بول کر انتہائی شدت پسند اقدامات انجام دیے۔ جرمن پولیس کا کہنا تھا کہ یہ اقدامات ہمبورگ اسلامک سنٹر کا جرمنی میں فلسطین کے حامی گروہوں سے رابطہ منقطع کرنے کیلئے انجام پا رہے ہیں۔ یہ دباو گذشتہ کئی ماہ سے جاری تھا اور اس ہفتے ہمبورگ اسلامک سنٹر کو بند کر دینا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ طوفان الاقصی آپریشن کے بعد مسلمان جرمن شہریوں کے خلاف جرمن پولیس کے شدت پسندانہ اقدامات اس حد تک بڑھ چکے تھے کہ یورپین کونسل کے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اس صورتحال پر وارننگ جاری کی تھی۔ اس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں یورپ بھر میں اسلاموفوبیا کی بڑھتی لہر پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ یورپین کونسل کے نسل پرستی کے خلاف کمیشن کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ جنگ کے بعد یورپ میں اسلاموفوبیا میں اضافہ ہوا ہے۔
 
اس رپورٹ کے مطابق اسلاموفوبیا اجنبی فوبیا سے مل گئی ہے اور سیاسی طور پر خطرناک اسلام پسندی کا استعمال کیا گیا ہے۔ یورپین کونسل کے کمیشن نے یورپ میں دیکھے جانے والی مسلمانوں کے خلاف نفرت اور امتیازی رویوں کی مختلف صورتوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف اقدامات کا بھی کلی طور پر مسلمانوں یا مسلمان سمجھے جانے والے افراد کیلئے منفی اثرات کا باعث بنے ہیں۔ رپورٹ میں اس بات کا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ جرمنی میں مسلمان خواتین اسلاموفوبیا کا شکار ہیں اور خاص طور پر باحجاب خواتین کو زیادہ سماجی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جرمنی میں دائیں بازو کی شدت پسند سیاسی جماعت الٹرنیٹو وہ واحد جماعت نہیں جو کھلم کھلا مسلمان دشمنی پر مبنی ایجنڈے پر گامزن ہے بلکہ کرسچین ڈموکریٹک یونین اور کرسچین سوشل یونین بھی مسلمانوں کے خلاف درپردہ دشمنی میں مصروف ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1150175
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش