1
Wednesday 4 Sep 2024 10:53

ایک خطرناک سازش

ایک خطرناک سازش
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

ایک ایسے وقت میں جب دنیا کی توجہ غزہ میں جنگ بندی کی طرف مبذول ہے، صیہونی کابینہ نے ایک نیا کھیل شروع کر دیا ہے۔ نیتن یاہو نے غزہ کے لئے ایک فوجی حاکم مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ غزہ کی پٹی کے لیے صیہونی فوجی حکمران کی تقرری ایک ایسے عالم میں سامنے آرہی ہے کہ عالمی برادری جنگ کے خاتمے اور غزہی پٹی سے صیہونی فوجی دستوں کے انخلاء کا مطالبہ کر رہی ہے۔ صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی کابینہ نے غزہ کے انتظام و انصرام کے لیے نئے خواب دیکھنے شروع کر دیئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے غزہ میں پولیو کے قطرے پلانے کے منصوبے پر عمل درآمد کے لیے ایک ہفتے کی جنگ بندی کے موقع پر قابضین نے "انسانی ہمدردی کی کوششوں" کی آڑ میں غزہ کو چلانے کے لیے ایک فوجی حکمران مقرر کر دیا ہے۔

اس حوالے سے اسرائیلی اخبار یدیعوت احرونوت نے جمعرات کو خبر دی ہے کہ بریگیڈیئر جنرل کے عہدے پر ترقی پانے والے کرنل ایلاد گورین کو "غزہ پٹی میں انسانی ہمدردی کی کوششوں کے سربراہ" کے نئے قائم کردہ عہدے کا کمانڈر منتخب کیا گیا ہے۔ ناقدین اس تقرری کو غزہ کے لئے مستقل گورنر کی تقرری سے تعبیر کر رہے ہیں اور صہیونیوں کے علاقے پر غیر معینہ مدت تک دوبارہ قبضہ کرنے اور نسلی تطہیر کی پالیسی کو جاری رکھنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں، البتہ یہ سلسلہ 1948 میں یوم نکبہ کے بعد سے جاری ہے۔ صہیونی میڈیا نے اس تقرری کے مقاصد اور غزہ میں اعلیٰ افسر کی ذمہ داریوں کی نشاندہی کی ہے۔اخبار کے مطابق انسانی امداد کی نگرانی، شہری مسائل میں ہم آہنگی اور ممکنہ طور پر غزہ شہر میں پناہ گزینوں کی واپسی اور تعمیر نو کے منصوبوں کا انتظام بظاہر اس فوجی افسر کے ذمہ ہوگا۔

دوسری جانب عبرانی ویب سائٹ "الاوالہ" نے اس انتخاب کی وجہ سے  صیہونی فوج کے اندر اختلافات کے ابھرنے کی اطلاع دی ہے۔ اخبار یدیعوت احرونیٹ نے لکھا ہے کہ گورن کے عہدے کی ابھی تک کوئی واضح تعریف نہیں ہے، لیکن وہ پہلے شخص ہونگے جو مقبوضہ مغربی کنارے میں شہری ترقی کی تنظیم کے سربراہ بریگیڈیئر جنرل ہشام ابراہیم کے متوازی عہدہ پر فائز ہوں گے۔ اس مشہور صہیونی اخبار نے اس اقدام کو غزہ کی پٹی میں نام نہاد "جنگ کے بعد کے دن" کے لیے واضح اسرائیلی حکمت عملی کے فقدان سے تعبیر کیا اور وضاحت کی کہ اسرائیل کی  سیاسی اور سلامتی کونسل نے ابھی تک اس حوالے سے  اسٹریٹجک اہداف کا تعین نہیں کیا ہے۔ اخبار کے مطابق نیتن یاہو کی چھوٹی سکیورٹی کابینہ میں غزہ  پٹی کے مستقبل کا مسئلہ ابھی تک حل طلب ہے، جبکہ اسرائیلی فوج نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ اسرائیل غزہ پٹی کے مستقبل کا ذمہ دار رہے گا اور آنے والے سالوں میں اس میں توسیع کرے گا۔

اس اخبار نے ذکر کیا ہے کہ اس افسر کی ذمہ داری "غزہ کے چیف آفیسر" کے عہدے کی طرح ہے۔ اخبار نے ایک نامعلوم سینیئر سکیورٹی اہلکار کے حوالے سے نئی پوزیشن کے حوالے سے کہا ہے کہ  "یہ ایک ایسی پوزیشن ہے، جو آنے والے سالوں میں فوج کا ساتھ دے گی۔ بہرحال جو یہ مانتا ہے کہ اسرائیل جلد ہی غزہ پٹی پر کنٹرول کر لے گا، وہ غلط سوچ رہا ہے، کیونکہ غزہ میں اسرائیل کی موجودگی اور مداخلت کا انحصار تنازعہ کی لہر پر ہے۔ اخبار نے مزید لکھا ہے کہ، "غزہ کوآرڈینیشن اور کمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ روزانہ کے مسائل  سے نمٹنا جاری رکھے گا، جیسے غزہ کراسنگ کے ذریعے انسانی امداد بھیجنا، تباہ شدہ مقامی انفراسٹرکچر کی تعمیر نو اور غیر ملکی امدادی تنظیموں کے ساتھ باقاعدہ رابطہ قائم کرنا۔ اخبار نے نشاندہی کی کہ جنرل گورن سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ غزہ میں جنگ کو جاری رکھنے کے لیے بین الاقوامی قانونی جواز کو برقرار رکھنے کے لیے طویل المدتی سویلین اسٹریٹجک اقدامات کی قیادت کریں گے۔

غزہ میں فوجی حکمران کی تقرری کے تل ابیب کے مقاصد
غزہ کے انتظام کے لیے ایک فوجی افسر کی تقرری، سب سے پہلے یہ ظاہر کرتی ہے کہ صہیونیوں کا غزہ کی پٹی سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور وہ اس موقع کو اپنے قدم جمانے اور آہستہ آہستہ اس پٹی پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ غزہ میں اس فوجی عہدے پر تعیناتی کے ساتھ ہی صیہونی حکومت کی کابینہ نے بھی جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں یوف گیلنٹ کے اعتراضات کے باوجود "فلاڈیلفیا" کے محور میں رہنے کی منظوری دی۔ نیتن یاہو نے کابینہ کے اجلاس میں دعویٰ کیا کہ "7 اکتوبر کا سانحہ فلاڈیلفیا کا محور اسرائیل کے ہاتھ میں نہ ہونے کے نتیجے میں پیش آیا اور اس بار اسرائیل ان سرحدوں کو اپنے ہاتھ میں رکھنے پر اصرار کر رہا ہے۔" یاد رہے فلاڈیلفیا کے محور سے انخلا حماس کی جنگ بندی کے مذاکرات کو جاری رکھنے کی شرائط میں سے ایک تھی اور عبرانی میڈیا کے مطابق اس کارروائی سے مذاکراتی عمل کو بڑا دھچکا لگے گا۔

پس غزہ کے لیے فوجی حکمران کی تقرری قابض حکومت کی مذاکرات میں عدم مطابقت اور جنگ بندی کے مذاکرات کو ناکام بنانے کے ارادے کو ظاہر کرتی ہے۔ دوسری جانب اس فوجی اہلکار کی تعیناتی سے غزہ کا انتظام خود مختار تنظیموں کے حوالے کرنے کے منصوبہ کی ناکامی تصور کیا جائے گا۔ امریکہ نے غزہ پر تسلط قائم کرنے کی کوشش کی، تاکہ وہ مغربی کنارے کی طرح اسرائیل کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنائے، لیکن نیتن یاہو کو محمود عباس اور تنظیم پر کوئی بھروسہ نہیں ہے اور وہ غزہ کا کنٹرول فوج کے حوالے کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس فوجی حکمران کا مشن غزہ کے تمام معاملات کی نگرانی کرنا ہوگا، اس لیے نیتن یاہو کی حکومت فلاڈیلفیا اور نیٹزاریم کے محوروں کو کنٹرول کرکے فلسطینیوں کی تمام نقل و حرکت پر نظر رکھنے کی کوشش کر رہی ہے، جو غزہ کے شمال اور جنوب کے درمیان ایک رکاوٹ ہیں۔

اس سے قبل، نیتن یاہو نے جنگ بندی کے معاہدے کے لیے اپنی شرطوں میں سے ایک کے طور پر شمالی غزہ واپس جانے کا ارادہ رکھنے والے مہاجرین کے معائنے کا اعلان کیا تھا۔ حماس کے رہنماؤں نے اس درخواست سے اتفاق نہیں کیا تھا۔ اپنے دعوے کے مطابق صہیونی فوج فلاڈیلفیا اور نیٹزاریم کے محور کو کنٹرول کرکے مسلح عناصر کو شمالی غزہ میں داخل ہونے سے روکنا چاہتی ہے، جو اس وقت تقریباً صہیونی فوج کے کنٹرول میں ہے، لیکن اصولی طور پر وہ پناہ گزینوں کو روکنا چاہتی ہے۔ فوجی حکمران کی تقرری کا ایک اور مقصد یہ ہے کہ تل ابیب "رفح گزرگاہ" پر غلبہ حاصل کرنا چاہتا ہے، جو کہ غیر ملکی انسانی امداد بھیجنے کا واحد راستہ ہے، تاکہ اس خطے میں وہ کسی بھی امداد کو کنٹرول کرسکے۔ حالیہ مہینوں میں اقوام متحدہ، ریڈ کراس اور ورلڈ فوڈ پروگرام سے منسلک سول فورسز اور ملازمین نے غزہ کے رہائشیوں میں  امداد کا انتظام کیا ہے، لیکن اس کے بعد، اسرائیلی فوجی اسٹیبلشمنٹ اس معاملے کو سنبھالنا چاہتی ہے۔

نیتن یاہو حکومت نے بظاہر ایک فوجی حکمران کو غزہ میں انسانی اور لاجسٹک آپریشنز کا انچارج مقرر کیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ غزہ میں انسانی بنیادوں پر کارروائیوں سے سول فورسز کے ہاتھ کاٹنا چاہتی ہے۔ قابض فوج نے گزشتہ گیارہ مہینوں میں سول فورسز اور اقوام متحدہ کے عملے کے سینکڑوں افراد کو ہلاک کیا ہے اور وہ نہیں چاہتی کہ یہ لوگ غزہ کے معاملات میں ملوث ہوں۔ نیتن یاہو کی حکومت بھی ایک فوجی حکمران مقرر کرکے غزہ میں فوجی جنگ کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش کر رہی ہے اور اسی وجہ سے وہ اپنے جرائم کو انسانیت کی بحالی کا رنگ دینا چاہتی ہے۔ وہ اس عمل سے بین الاقوامی دباؤ کم کرنا چاہتی ہے۔ یہ ایسے وقت میں ہے، جب صیہونیوں نے گزشتہ گیارہ مہینوں میں غزہ میں انسانی امداد بھیجنے کی اجازت نہیں دی اور بیس لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو موت کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔

لہٰذا نیتن یاہو حکومت کی طرف سے اپنایا جانے والا نام نہاد انسانی ہمدردی کا یہ اقدام انسانی ہمدردی کے جھنڈے تلے اپنی غاصبانہ پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے دھوکے سے زیادہ کچھ نہیں۔ دوسری طرف غزہ کی جنگ بالآخر ایک دن ختم ہو جائے گی اور اس کی تعمیر نو کا دور آئے گا۔ تل ابیب صہیونیوں کی نگرانی میں غزہ کی تعمیر نو کو انجام دینے کی کوشش کرے گا۔ سرنگوں کے پیچیدہ نیٹ ورک سے تنگ آکر تل ابیب کے حکام تعمیر نو کے عمل میں خود شریک رہنا چاہتے ہیں، وہ  مستقبل میں حماس اور دیگر مزاحمتی گروپوں کو اس علاقے میں اقتدار حاصل کرنے سے روکنا چاہتے ہیں۔ فلسطینی گروہوں نے بارہا کہا ہے کہ غزہ کے سیاسی اور سلامتی کے مستقبل کا فیصلہ فلسطینیوں کو خود کرنا چاہیے، لیکن تل ابیب کا نیا اقدام فلسطینیوں کی خواہشات کے خلاف ہے اور اس علاقے کے باشندوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

2007 میں انتخابات کے انعقاد کے ذریعے غزہ کے عوام نے غزہ کا انتظام حماس کے حوالے کر دیا تھا، جو  17 سال سے قابض رہنماؤں کے لئے ڈراؤنا خواب بن چکا ہے، اس لیے وہ نہیں چاہتے کہ اس طرح کا پروگرام دوبارہ دہرایا جائے اور حماس کے دوبارہ اقتدار میں آنے کا باعث بنے۔ نیتن یاہو اور ان کے دوست انسانی ہمدردی کی تنظیم کے نام سے دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ غزہ کے لوگوں کی مدد کر رہے ہیں اور ان کی زندگیوں کو منظم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، لیکن اصل ہدف فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنا اور آخرکار غزہ میں صیہونی آباد کاروں کو آباد کرنا ہے۔ ایک ایسا منصوبہ جو مغربی کنارے میں پانچ دہائیوں سے نافذ ہے اور نئی بستیاں تعمیر کرکے فلسطینیوں کو بتدریج باہر نکال کر اس پر مکمل قبضہ کرنا ہے۔ انتہا پسند صہیونی وزراء نے واضح طور پر اس مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے۔

صیہونی حکومت کے داخلی سلامتی کے وزیر ایتامر بن گوور نے گزشتہ ماہ فروری میں اس حکومت کی سیاسی اور سکیورٹی کابینہ کے اجلاس میں غزہ سے لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی کی ترغیب دینے کے تجرباتی منصوبے پر عمل درآمد پر زور دیا۔ فلسطینیوں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ بار بار نقل مکانی غزہ کے مکینوں کو تنگ کرنے اور انہیں بھاگنے پر مجبور کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ نے 28 جولائی کو اعلان کیا تھا کہ اسرائیل کے انخلاء کے حکم کی وجہ سے صرف ایک ہفتے میں غزہ پٹی کی 9 فیصد آبادی بے گھر ہوگئی ہے۔ حالیہ مہینوں میں اسرائیلی فوج نے غزہ کے مختلف علاقوں میں انخلاء کے احکامات جاری کرکے اور پوری پٹی کو غیر محفوظ بنا کر مزید فلسطینیوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ غزہ کے انتظام کے لیے ایک فوجی افسر کی تقرری کا مطلب فوجی حکمرانی کا قیام ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ صہیونیوں کے ذہن میں غزہ کے لیے طویل مدتی اہداف ہیں، جنہیں سخت گیر فوجیوں کے ذریعے نافذ کیا جانا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1158019
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش