Friday 27 Mar 2020 17:49
ڈاکٹر ثاقب حسین بنگش کا تعلق پاراچنار کے نواحی علاقے شلوزان سے ہے۔ ایگریکلچرل یونیورسٹی پشاور سے ایم فل کرنے کے دوران طلباء کے حقوق کیلئے کام کرتے رہے ہیں۔ اسی اثناء میں دو سال تک آئی ایس او کے ڈویژنل صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے، جبکہ 2016ء میں تحریک حسینی کے قائم مقام صدر کی حیثیت سے احسن طریقے سے فرائض انجام دیئے۔ اسکے بعد چین جاکر وہاں سے ڈاکٹریٹ کر لی اور وہیں پر جاب ہوگئی۔ چند ماہ قبل چھٹیوں پر پاکستان آئے۔ چھٹیاں تو ختم ہوگئیں، مگر کرونا کی وجہ سے یہیں پر رک گئے۔ انہوں نے پاراچنار ویلفیئر سوسائٹی کے نام سے ایک تنظیم تشکیل دیکر کرونا کے حوالے سے آگہی مہم کا آغاز کیا ہے۔ اسلام ٹائمز نے انکے ساتھ اس حوالے سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا ہے، جسے نذر قارئین کر رہے ہیں۔(ادارہ)
اسلام ٹاتمز: بنگش صاحب! کرونا کے حوالے سے آپ جو مشن چلا رہے ہیں، آپکی ترجیحات میں کیا کیا شامل ہے۔؟
ثاقب بنگش: ہمارا اولین مقصد یہ ہے کہ کرونا کے حوالے سے عوام کا شعور بیدار کیا جائے۔ پاکستان بھر میں عوام نہایت غفلت کا شکار ہے۔ ہم گھر گھر، گاؤں گاؤں جاکر دیکھتے ہیں کہ اکثر لوگ اب بھی اسے ایک مسخرہ خیال کر رہے ہیں۔ جگہ جگہ لوگ دیہات کے ڈیروں میں بیٹھے ہوئے گپیں مار رہے ہوتے ہیں۔ لہذا ہماری اولین ترجیح یہ ہے کہ لوگوں کو دنیا بھر خصوصاً وطن عزیز کی اصل صورتحال سے آگاہ کریں۔ اس کے علاوہ لوگوں میں بلا تفریق ماسکس، صابن، دستانے، سینیٹائزرز اور معلوماتی لٹریچر کی تقسیم بھی عمل میں لائی جا رہی ہے۔
اسلام ٹاتمز: اب تک کون کون سے دیہات میں کتنی تعداد میں مذکورہ اشیاء تقسیم کی جاچکی ہیں۔؟
ثاقب بنگش: اب تک پاراچنار شہر کے گھروں اور دوکانداروں کے علاوہ لوئر کرم کے علاقوں بالش خیل، ابراہیم زئی، سمیر، شلوزان اور احمد زئی وغیرہ میں تقریباً ایک لاکھ کی تعداد میں مختلف اشیاء تقسیم کی جاچکی ہیں، جبکہ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ ابھی 80 فیصد کرم باقی رہتا ہے، باری آنے پر ہر جگہ جانے کا ارادہ ہے، ان شاء اللہ
اسلام ٹاتمز: اس کار خیر میں فنڈنگ کون کر رہا ہے۔ کوئی ادارہ یا کوئی خاص شخص ہے جو باقاعدہ طریقے سے آپکی مالی مدد کر رہا ہو۔؟
ثاقب بنگش: کوئی خاص ادارہ یا شخص تو نہیں۔ ہم نے پاراچنار ویلفیئر سوسائٹی کے نام سے ایک ادارہ تشکیل دیا ہے۔ اسی پلیٹ فارم سے یہ کام ہو رہا ہے۔ تاہم چونکہ ہماری یہ سوسائٹی زیادہ مشہور نہیں، تو پہلے مرحلے میں ہم ممبران ہی نے پچاس پچاس ہزار روپے جمع کرکے اس کار خیر کی ابتداء کی۔ اسی سے جاکر پشاور اور اسلام آباد میں سنیٹائزر کے لئے ضروری مواد، دستانے اور ماسک خریدے اور واپس آکر اپنے آفس سے کام شروع کیا۔ اس کے بعد باہر سے بھی کچھ لوگوں نے مالی کمک کی۔ تاہم وہ ایک لاکھ روپے کے سے زیادہ نہیں اور وہ اتنی نہیں کہ جس سے ضرورت پوری کی جاسکے۔ بہرحال ہم اپنے ارادے میں پکے ہیں۔ اپنا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں اور جاری رکھیں گے۔
اسلام ٹاتمز: آپکی اس سوسائٹی میں اور کون کون اہم افراد کام کر رہے ہیں۔؟
ثاقب بنگش: ہمارے ساتھ میرے آئی ایس او کے پرانے دوست سید مسرت علی شاہ کاظمی ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر حسنین، ڈاکٹر امجد علی وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
اسلام ٹاتمز: کرم میں ابھی تک کووڈ 19 کا کوئی خاص کیس تو ریکارڈ نہیں ہوا ہے۔؟
ثاقب بنگش: آج احمد زئی سے ایک نرس کو مشکوک قرار دیا جاچکا ہے۔ اس کے ٹیسٹ لئے جاچکے ہیں۔ جس کے نتیجے کا انتظار ہے۔ اللہ خیر کرے، اگر یہ مثبت آگیا تو پھر پورے گاؤں کی سکریننگ کرنی پڑے گی۔
اسلام ٹائمز: اپنے دورہ جات کے دوران شہر اور دیہات کی صورتحال آپ نے اچھے طریقے سے دیکھی ہوگی۔ بتائیں آپکو کیسے لگی۔؟
ثاقب بنگش: دیہات کی صورتحال بہت بدتر دیکھنے میں آئی۔ خصوصاً احمد زئی کی حالت انتہائی قابل رحم دیکھی، جہاں کل ایک نرس کو مشکوک قرار دیکر اس کے ٹیسٹ بھیج دیئے گئے ہیں۔ اس گاؤں میں لوگوں نے محفلیں سجائی ہوئی تھیں۔ دیہاتی ڈیروں میں درجنوں کے حساب سے لوگوں کو گپیں مارتے پایا۔ ہم نے انہیں بہت سمجھایا کہ خدا را، گھروں میں بیٹھ جائیں، یہ آپ نے کیا کر رکھا ہے، اس پر انہوں نے ہمارا مذاق اڑایا۔ کہا ہم اتنے بزدل نہیں، ابھی سینکڑوں کلومیٹر فاصلے پر ہے بیماری۔ چنانچہ اگر صورتحال یہی رہی تو خدا نخواستہ کسی ایک کو بیماری لگنے کی صورت میں گاؤں کا ایک بھی شخص بچ نہیں پائے گا۔
اسلام ٹائمز: خدا نخواستہ کرم میں اگر یہ آفت پھوٹ پڑی تو عوام کی کیا پوزیشن ہے۔ بیماری سے کیسے نمٹے گی۔ نیز آپکا کیا خیال ہے، ہسپتال سے لیکر کفن دفن تک کے مسائل سے لوگ کس طرح نمٹیں گے۔؟
ثاقب بنگش: اس کام کے لئے مرکز اور تحریک حسینی نیز دیگر تنظیموں کی سطح پر ایک علیحدہ کمیٹی بھی کام کر رہی ہے۔ ہم نے بھی مرکز اور تحریک کے ساتھ رابطہ کیا ہے اور اپنی خدمات انہیں پیش کی ہیں۔ کرم میں کرونا کے حوالے سے ایک خصوصی سیل کا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے، جو ہر گاؤں کے ساتھ رابطے میں ہوگا۔ اطلاعات جمع اور فراہم کرے گا۔ کفن اور دفن کے لئے خصوصی مقامات کا بندوبست کیا جاچکا ہے۔ جس میں ان کے ساتھ ہمارا ٹرسٹ بھی کمک کرے گا۔ اللہ نہ کرے، اگر آفت آگئی تو قوم ان شاء اللہ تیار ہے۔
اسلام ٹائمز: اجتماعات کے حوالے سے پورے ملک میں پابندی لگائی جاچکی ہے۔ یہاں کرم میں کیا صورتحال ہے۔؟
ثاقب بنگش: حکومت سے پہلے یہاں تحریک حسینی کے سرپرست اعلیٰ علامہ سید عابد حسین الحسینی اور مرکزی انجمن حسینیہ کے سیکریٹری حاجی سردار حسین نے ایک مشترکہ بیان کے ذریعے لوگوں کو گھروں میں بیٹھنے کا مشورہ دیا اور حکومت کو اس حوالے سے اپنی خدمات پیش کیں۔ یہاں کے علماء میں سے پیش امام علامہ فدا حسین مظاہری اور علامہ سید عابد حسینی نے عوام کو ہجوم بنانے حتی مذہبی اجتماعات، شادی بیاہ اور قرآن خوانی سے بھی منع کیا۔ نماز جمعہ کا انعقاد بھی روک دیا۔ یہاں تک کے جنازے میں بھی لوگوں کی غیر ضروری شرکت کو خطرناک قرار دیتے ہوئے عوام سے پرہیز کرنے کی درخواست کی۔ نتیجتاً لوگوں نے ہر طرح کی محافل اور اجتماعات کو رضاکارانہ طور پر روک دیا۔
اسلام ٹاتمز: بنگش صاحب! کرونا کے حوالے سے آپ جو مشن چلا رہے ہیں، آپکی ترجیحات میں کیا کیا شامل ہے۔؟
ثاقب بنگش: ہمارا اولین مقصد یہ ہے کہ کرونا کے حوالے سے عوام کا شعور بیدار کیا جائے۔ پاکستان بھر میں عوام نہایت غفلت کا شکار ہے۔ ہم گھر گھر، گاؤں گاؤں جاکر دیکھتے ہیں کہ اکثر لوگ اب بھی اسے ایک مسخرہ خیال کر رہے ہیں۔ جگہ جگہ لوگ دیہات کے ڈیروں میں بیٹھے ہوئے گپیں مار رہے ہوتے ہیں۔ لہذا ہماری اولین ترجیح یہ ہے کہ لوگوں کو دنیا بھر خصوصاً وطن عزیز کی اصل صورتحال سے آگاہ کریں۔ اس کے علاوہ لوگوں میں بلا تفریق ماسکس، صابن، دستانے، سینیٹائزرز اور معلوماتی لٹریچر کی تقسیم بھی عمل میں لائی جا رہی ہے۔
اسلام ٹاتمز: اب تک کون کون سے دیہات میں کتنی تعداد میں مذکورہ اشیاء تقسیم کی جاچکی ہیں۔؟
ثاقب بنگش: اب تک پاراچنار شہر کے گھروں اور دوکانداروں کے علاوہ لوئر کرم کے علاقوں بالش خیل، ابراہیم زئی، سمیر، شلوزان اور احمد زئی وغیرہ میں تقریباً ایک لاکھ کی تعداد میں مختلف اشیاء تقسیم کی جاچکی ہیں، جبکہ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ ابھی 80 فیصد کرم باقی رہتا ہے، باری آنے پر ہر جگہ جانے کا ارادہ ہے، ان شاء اللہ
اسلام ٹاتمز: اس کار خیر میں فنڈنگ کون کر رہا ہے۔ کوئی ادارہ یا کوئی خاص شخص ہے جو باقاعدہ طریقے سے آپکی مالی مدد کر رہا ہو۔؟
ثاقب بنگش: کوئی خاص ادارہ یا شخص تو نہیں۔ ہم نے پاراچنار ویلفیئر سوسائٹی کے نام سے ایک ادارہ تشکیل دیا ہے۔ اسی پلیٹ فارم سے یہ کام ہو رہا ہے۔ تاہم چونکہ ہماری یہ سوسائٹی زیادہ مشہور نہیں، تو پہلے مرحلے میں ہم ممبران ہی نے پچاس پچاس ہزار روپے جمع کرکے اس کار خیر کی ابتداء کی۔ اسی سے جاکر پشاور اور اسلام آباد میں سنیٹائزر کے لئے ضروری مواد، دستانے اور ماسک خریدے اور واپس آکر اپنے آفس سے کام شروع کیا۔ اس کے بعد باہر سے بھی کچھ لوگوں نے مالی کمک کی۔ تاہم وہ ایک لاکھ روپے کے سے زیادہ نہیں اور وہ اتنی نہیں کہ جس سے ضرورت پوری کی جاسکے۔ بہرحال ہم اپنے ارادے میں پکے ہیں۔ اپنا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں اور جاری رکھیں گے۔
اسلام ٹاتمز: آپکی اس سوسائٹی میں اور کون کون اہم افراد کام کر رہے ہیں۔؟
ثاقب بنگش: ہمارے ساتھ میرے آئی ایس او کے پرانے دوست سید مسرت علی شاہ کاظمی ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر حسنین، ڈاکٹر امجد علی وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
اسلام ٹاتمز: کرم میں ابھی تک کووڈ 19 کا کوئی خاص کیس تو ریکارڈ نہیں ہوا ہے۔؟
ثاقب بنگش: آج احمد زئی سے ایک نرس کو مشکوک قرار دیا جاچکا ہے۔ اس کے ٹیسٹ لئے جاچکے ہیں۔ جس کے نتیجے کا انتظار ہے۔ اللہ خیر کرے، اگر یہ مثبت آگیا تو پھر پورے گاؤں کی سکریننگ کرنی پڑے گی۔
اسلام ٹائمز: اپنے دورہ جات کے دوران شہر اور دیہات کی صورتحال آپ نے اچھے طریقے سے دیکھی ہوگی۔ بتائیں آپکو کیسے لگی۔؟
ثاقب بنگش: دیہات کی صورتحال بہت بدتر دیکھنے میں آئی۔ خصوصاً احمد زئی کی حالت انتہائی قابل رحم دیکھی، جہاں کل ایک نرس کو مشکوک قرار دیکر اس کے ٹیسٹ بھیج دیئے گئے ہیں۔ اس گاؤں میں لوگوں نے محفلیں سجائی ہوئی تھیں۔ دیہاتی ڈیروں میں درجنوں کے حساب سے لوگوں کو گپیں مارتے پایا۔ ہم نے انہیں بہت سمجھایا کہ خدا را، گھروں میں بیٹھ جائیں، یہ آپ نے کیا کر رکھا ہے، اس پر انہوں نے ہمارا مذاق اڑایا۔ کہا ہم اتنے بزدل نہیں، ابھی سینکڑوں کلومیٹر فاصلے پر ہے بیماری۔ چنانچہ اگر صورتحال یہی رہی تو خدا نخواستہ کسی ایک کو بیماری لگنے کی صورت میں گاؤں کا ایک بھی شخص بچ نہیں پائے گا۔
اسلام ٹائمز: خدا نخواستہ کرم میں اگر یہ آفت پھوٹ پڑی تو عوام کی کیا پوزیشن ہے۔ بیماری سے کیسے نمٹے گی۔ نیز آپکا کیا خیال ہے، ہسپتال سے لیکر کفن دفن تک کے مسائل سے لوگ کس طرح نمٹیں گے۔؟
ثاقب بنگش: اس کام کے لئے مرکز اور تحریک حسینی نیز دیگر تنظیموں کی سطح پر ایک علیحدہ کمیٹی بھی کام کر رہی ہے۔ ہم نے بھی مرکز اور تحریک کے ساتھ رابطہ کیا ہے اور اپنی خدمات انہیں پیش کی ہیں۔ کرم میں کرونا کے حوالے سے ایک خصوصی سیل کا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے، جو ہر گاؤں کے ساتھ رابطے میں ہوگا۔ اطلاعات جمع اور فراہم کرے گا۔ کفن اور دفن کے لئے خصوصی مقامات کا بندوبست کیا جاچکا ہے۔ جس میں ان کے ساتھ ہمارا ٹرسٹ بھی کمک کرے گا۔ اللہ نہ کرے، اگر آفت آگئی تو قوم ان شاء اللہ تیار ہے۔
اسلام ٹائمز: اجتماعات کے حوالے سے پورے ملک میں پابندی لگائی جاچکی ہے۔ یہاں کرم میں کیا صورتحال ہے۔؟
ثاقب بنگش: حکومت سے پہلے یہاں تحریک حسینی کے سرپرست اعلیٰ علامہ سید عابد حسین الحسینی اور مرکزی انجمن حسینیہ کے سیکریٹری حاجی سردار حسین نے ایک مشترکہ بیان کے ذریعے لوگوں کو گھروں میں بیٹھنے کا مشورہ دیا اور حکومت کو اس حوالے سے اپنی خدمات پیش کیں۔ یہاں کے علماء میں سے پیش امام علامہ فدا حسین مظاہری اور علامہ سید عابد حسینی نے عوام کو ہجوم بنانے حتی مذہبی اجتماعات، شادی بیاہ اور قرآن خوانی سے بھی منع کیا۔ نماز جمعہ کا انعقاد بھی روک دیا۔ یہاں تک کے جنازے میں بھی لوگوں کی غیر ضروری شرکت کو خطرناک قرار دیتے ہوئے عوام سے پرہیز کرنے کی درخواست کی۔ نتیجتاً لوگوں نے ہر طرح کی محافل اور اجتماعات کو رضاکارانہ طور پر روک دیا۔
خبر کا کوڈ : 852983
منتخب
14 Nov 2024
13 Nov 2024
13 Nov 2024
14 Nov 2024
13 Nov 2024
12 Nov 2024
12 Nov 2024
12 Nov 2024
اللہ مزید توفیق دے۔