معروف ماہر تعلیم، شاعر و ادیب، محقق، مفکر اور اقبال شناس ڈاکٹر ہارون رشید تبسم کا تعلق سرگودہا سے ہے، استاد ہونے کیساتھ ساتھ پاکستانیات اور نظریہ پاکستان پر متعدد کتب کے مصنف ہیں، ملک بھر میں اقبالیات کے حوالے سے اپنا مقام رکھتے ہیں، نوجوانوں میں بے حد مقبول ہیں۔ سابق صدر شعبہ اردو گورنمنٹ انبالہ مسلم کالج سرگودھا، 12 اکتوبر 1955ء کو پیدا ہوئے، 1993ء میں اقبالیات میں ایم فل اور 2002ء میں اردو میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 75 ادبی اور 27 نصابی کتب تحریر کرچکے ہیں۔ موجودہ صورتحال، قومی و بین الاقوامی حالات اور پاکستان کیلئے راہِ حل کے تناظر میں انکے ساتھ اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)
اسلام ٹائمز: بھارت میں مسلمانوں کیخلاف تعصب اور عناد پہ مبنی اقدامات میں اضافہ ہو رہا ہے، کیا موجودہ حکمران اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں۔؟
پروفیسر ہارون رشید تبسم: بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے، بالخصوص کشمیر کی حیثیت کا خاتمہ کرنیکی کوشش، بابری مسجد کے انہدام کا فیصلہ اور پھر شہریت ترمیمی بل۔ میرے خیال میں یہ مودی سرکار کا جنون ہے، جتنا بھی غور کریں، یہ سمجھنا مشکل ہے کہ اس کے پیچھے سوائے تعصب کو ہوا دینے کے کوئی اور چیز اس کا محرک ہو۔ پورے ہندوستان کو مورد الزام ٹھہرانا مناسب نہیں، کیونکہ بھارت کے اندر بھی ان اقدامات کیخلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں، پورا بھارت ہل کر رہ گیا ہے۔ موجودہ حکمرانوں کے سامنے علامہ اقبال کے افکار اور قائداعظم کا راستہ موجود ہے، آج پہلے والے حالات نہیں، اس خطے کے مسلمان بہت مضبوط پوزیشن میں ہیں، تدبر اور مناسب سیاسی حکمت عملی کی ضرورت ہے، یہی قائداعظم کا خاصہ تھا، جس طرح بابائے قوم نے حالات اور ہندوستانی سیاست میں ہندووانہ متعصب ذہنیت کو بھانپ کر بامقصد جدوجہد کی، آج کے دور میں ان کوششوں کو بروئے کار لانا زیادہ آسان ہے، لیکن جس چیز کی کمی ہے، وہ قائداعظم جیسی بصیرت اور انتھک محنت کرنیوالی قیادت ہے، اس وقت اس کا فقدان ہے، اس لیے موجودہ حکمران طبقے سے کچھ زیادہ توقعات نہیں رکھی جا سکتی ہیں۔
اسلام ٹائمز: موجودہ صورتحال میں کشمیری اور بھارتی مسلمانوں کی امداد کرنا پاکستان کی ذمہ داری ہے، اس سے عہدہ براء ہونیکے لیے کیا کیا جانا چاہیئے۔؟
پروفیسر ہارون رشید تبسم: عالمی سطح پر یکسر حالات تبدیل ہوچکے ہیں، بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا تعلق عالمی طاقتوں کے مفادات سے بھی ہے، جیسا کہ ہندوستان میں انگریز کی موجودگی کیوجہ سے اس علاقے کی سیاست اور معاشرت پر اس کے اثرات مرتب ہوئے تھے، لیکن علامہ اقبال کی فکر اور قائداعظم کی مدبرانہ قیادت نے اس مشکل صورتحال میں قوم کی رہنمائی کی۔ لوگوں نے ان کا ساتھ کیوں دیا، کیونکہ انہوں نے سب سے پہلے حالات کا ایسا تجزیہ پیش کیا، جس سے صورتحال سب کے لیے زیادہ واضح ہوگئی، سب سے پہلے حقائق کی روشنی میں موجودہ صورتحال کا درست تجزیہ، اس کے پسِ پردہ کارفرما عوامل، اندرونی، بیرونی اور عالمی سیاسی قوتوں کے مفادات کی گہرائی اور کس طریقے سے بھارت میں اپنے مفادات کا کھیل کھیل رہے ہیں، اس کی تمام تر باریکیوں تک رسائی ضروری ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ حکمران طبقہ یہ استعداد رکھتا ہے۔؟ اس کا جواب مثبت نہیں، یہیں سے تمام مسائل کی شروعات ہوتی ہیں اور موجودہ مشکلات کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے، دوسرا یہ کہ پاکستان کے اندرونی حالات سیاسی اور معاشی عدم استحکام کی وجہ سے ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے حالات کا ذمہ دار عام پاکستانی نہیں ہے، اسی طرح پاکستان جو کردار ادا کرسکتا ہے، اس سے نہ صرف خطے یعنی کشمیر اور ہندوستان کی صورتحال بدل سکتی ہے بلکہ پوری دنیا میں اہم تبدیلیاں وقوع پذیر ہوسکتی ہیں۔ پاکستان کو ایک سازش کے تحت بانجھ کرنیکی کوشش کی گئی ہے، تاکہ پاکستان اپنی حیثیت اور طاقت کے مطابق زیادہ موثر کردار ادا کرنیکی پوزیشن میں نہ رہے، لیکن پاکستان کا ماضی میں بڑا مضبوط کردار رہا ہے، قوموں کی زندگی میں عارضی اور وقتی طور پر مشکلات اور مسائل درپیش ہوتے ہیں، بحیثت قوم ہی ان کا مقابلہ بھی کیا جانا چاہیئے اور ان کا حل بھی تلاش کیا جانا چاہیئے۔
اسلام ٹائمز: پاکستان کے اندرونی حالات اپنی جگہ لیکن بالخصوص کشمیر کے مسلمانوں کو جو توقعات پاکستان سے ہیں، بحیثیت قوم ہم پیچھے رہ گئے ہیں، اسکی کیا وجوہات ہیں۔؟
پروفیسر ہارون رشید تبسم: لیڈرشپ کی کمزوری۔ اس کا مختصر اور جامع جواب یہی ہے۔ لیکن نظریات کبھی نہیں مرتے، اگر کوئی سیاسی لیڈر کمزوری دکھا رہا ہے یا کسی بحرانی صورتحال کا سامنا بھی ہے تو پاکستانی قوم نے نظریاتی طور پر کشمیری بھائیوں کو کبھی تنہاء نہیں چھوڑا۔ اب اسی بنیاد پہ سفارتی اور پھر عالمی سطح پر میڈیا کے ذریعے کشمیر کی صورتحال ہر وقت اور اس وقت تک اجاگر کرتے رہنے کی ضرورت ہے، جب تک وہ آزادی کی منزل کو پا نہیں لیتے۔ کشمیری قیادت، نوجوان، بچے، خواتین سب ڈٹے ہوئے ہیں، انہوں نے کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ اپنی جدوجہد سے اور اپنا خون دیکر ثابت کیا ہے کہ یہ انکے ایمان کا حصہ ہے، وہ اپنے آپ کو پاکستانی سمجھتے ہیں، بھارتی استبداد سے نجات چاہتے ہیں۔ بطور معاشرہ کشمیر کبھی بھارت کا حصہ نہیں رہا، اس لیے اپنی تہذیب و تمدن اور قومی مستقبل کے طور پر کشمیر ہمیشہ پاکستان کی طرف دیکھتا ہے، یہی خیال بھارت کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے، بلکہ شہریت ترمیمی بل اور بابری مسجد کا فیصلہ کشمیریوں کی جدوجہد کی وجہ سے بھارت کو جو دھچکا لگا ہے، اس کی وجہ سے جو لرزا طاری ہوا ہے، اس سے جو انہیں تکلیف پہنچی ہے، یہ اس کا اظہار ہے۔
کشمیری مجاہدین اور عوام نے اپنے لہو سے جو تاریخ لکھی ہے، انہوں نے جو بھارت کے متعصب وجود پر جو ضربیں لگائی ہیں، اس سے پہنچنے والے درد کیوجہ سے مودی سرکار کراہ رہی ہے، اس درد اور تکلیف سے اٹھنے والی ٹیسوں سے ہندوستان کے کونے کونے میں چیخ و پکار کی آوازیں اٹھ رہی ہیں، لیکن عام ہندوستانی بالخصوس سکھوں نے اس کی حقیقت اور بھارتی سرکار کی طرف سے ہونیوالی زیادتیوں کو سمجھ لیا ہے، بھارت میں کشمیریوں اور خود پاکستان کیلئے نرم گوشہ پایا جاتا ہے۔ میرے خیال میں یہ پاکستانی معاشرے سے کشمیریوں اور بھارت میں اقلیتوں کیخلاف ہونیوالے مظالم کیخلاف اٹھنے والی آوازوں کی بدولت ہوا ہے۔ پاکستانی قوم میں یہ جو احساس پایا جاتا ہے کہ جیسے بھارت نے غلبہ حاصل کر لیا ہے اور ہم کمزور پڑ گئے ہیں، اس کی وجہ حکمران طبقے کی جانب سے قوم کو اعتماد میں لیے بغیر خارجہ پالیسی اور قومی مفادات کی بے ڈھنگی ترتیب ہے۔ اچانک ہونیوالے فیصلوں کی وجہ سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ پاکستانی بحیثیت قوم کشمیریوں کو تنہاء چھوڑ چکے ہیں، ایسا نہیں ہے، پاکستانی قوم بیدار اور ہوشیار ہے، کسی ایسی صورت کو برداشت نہیں کریگی، جس سے کشمیر کاز پر منفی اثرات مرتب ہوں۔
اسلام ٹائمز: پاکستان سفارتی سطح پر بھارت کیخلاف کیا اقدامات کرسکتا ہے۔؟
پروفیسر ہارون رشید تبسم: آج میڈیا، سوشل میڈیا کی رسائی اتنی زیادہ ہے کہ دنیا تک اپنی آواز پہنچانا آسان ہے اور اسی طرح کسی بھی ملک کیلئے حقائق چھپانا مشکل ہے۔ ابھی دنیا کو تک پیغام صرف ضروری نہیں کہ اقوام متحدہ میں تقریر کرکے پہنچایا جا سکتا ہے، بلکہ اس کے لیے متواتر کوششوں کی ضرورت ہوتی ہے، پاکستان کے پاس بھی ہر ریاست کی طرح یہ وسائل موجود ہیں کہ دوسری اقوام تک اپنے وفود، جن میں صرف سفارت کار نہ ہوں، سرکاری اہلکار نہ ہوں، بلکہ ہر طبقہ زندگی کے لوگ ہوں، بات پہچانے والے افراد کی پاکستان میں کمی نہیں، وہ سب جائیں دنیا کے کونے کونے میں بھارتی مظالم اور مودی کی ہٹ دھرمی کے متعلق بتائیں۔ پاکستان دنیا میں بھارت کا ناطقہ بند کرسکتا ہے، بھارتی تجارت اور سیاست کو مفلوج بنا سکتا ہے۔ اس میں سب سے اہم کردار مسلم ممالک کا ہے، یہ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ انہیں بھارت کیخلاف کشمیریوں کی حمایت پر اکٹھا کرے۔ اگر ایسا نہ بھی ہو تو پاکستان خود ڈٹا رہے، کشمیر پاکستان کی شہ رگ حیات ہے، مظلوم کی آہ سے ڈریں، ورنہ ہمارے حکمران دنیا میں ذلیل و خوار ہونگے اور پاکستانی قوم کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑیگا۔
اسلام ٹائمز: مسلم ممالک نے تو صاف جواب دیا ہے، وہ پاکستان کو بھارت کی ہاں میں ہاں ملانے کا مشورہ دے رہے ہیں، پاکستان کا لیڈنگ رول ان حالات میں کیسے ممکن ہے۔؟
پروفیسر ہارون رشید تبسم: یہ ایک انتہائی تکلیف دہ بات ہے، لیکن میرے خیال میں کسی ملک نے پاکستان کے موقف کی نفی نہیں کی، اس کے باوجود کہ تمام مسلم ممالک کے بھارت سے مفادات وابستہ ہیں، تجارت ہے، تعلقات ہیں، لیکن کسی مسلم ملک نے بالخصوص بھارت کے موقف کی تائید نہیں کی، نہ ہی پاکستان کو بھارت کی ہر بات تسلیم کرنیکا مشورہ دیا ہے۔ بطور قوم ہماری اپنی پالیسی اتنی جاندار اور شاندار ہونی چاہیئے کہ دوسری اقوام اپنا رخ موڑنے پر مجبور ہو جائیں۔ اگر مسلم ممالک ہی بھارت کا بائیکاٹ کر دیں تو انہیں گھٹنے ٹیکنے پڑینگے۔
اسلام ٹائمز: فلسطین کے مسئلے پر مسلم ممالک نے بائیکاٹ بھی کیا، مشترکہ فورم بھی بنائے، کشمیر کے حوالے سے ایسا بھی کچھ سامنے نہیں آیا، اسکی کیا وجہ ہے۔؟
پروفیسر ہارون رشید تبسم: فلسطین کے مسئلے پر مسلم ممالک بالخصوص عرب ممالک نے غداری کی ہے، امریکہ نے انہیں اسرائیل کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔ یہی پالیسی انہوں نے بھارت کے لیے بنائی، پہلے مسلم ممالک کی معیشت کمزور کی گئی، پھر عرب بادشاہتیں ایک ایک خاندان تک محدود ہوگئیں، اب انہیں کوئی قوم تو کہا ہی نہیں جا سکتا، فلسطین ایسی کاز تھی، جس پہ عرب اقوام کا کردار تھا، اس کو کمزور کرنیکے لیے انکی کمر توڑی گئی، جنگوں، باہمی تنازعات اور آمریتوں کو مسلط کیا گیا۔ اب وہی عرب بدقسمتی سے اسرائیل کے ساتھ جا بیٹھے ہیں۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ پاکستان جن مسلم اقوام کو راستہ دکھاتا رہا، انکو یکجا کرتا رہا، تقویت دیتا رہا، اب وہی پاکستان اس اسٹیج پہ کھڑا ہے کہ ان عرب ممالک کے ینگ لیڈرز پاکستان کو ڈکٹیٹ کرتے ہیں، دھمکیاں دیتے ہیں اور ہمارے حکمران انکے دباؤ میں آکر فیصلے کرتے ہیں، یہ عالم اسلام میں پاکستان کی حیثیت پر ہونے والا سب سے بڑا وار ہے۔ جیسا میں نے پہلے کہا ہے کہ یہ ایک بہت بڑا منصوبہ یا سازش ہے کہ جس کے ایک سرے پر اسرائیل اور دوسرے پر بھارت ہے، درمیان میں عرب بادشاہتیں ہیں۔
فلسطین سے لیکر کشمیر تک مسلمان ظلم کی چکی میں پیسے جا رہے ہیں اور حکمران تماشا دیکھ رہے ہیں، حکمران امریکہ کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسی لیے پاکستان جس خوش فہمی میں مبتلا تھا کہ جس شد و مد کیساتھ ہم نے انکا ساتھ دیا ہے، عرب ممالک کشمیر کے حوالے سے پاکستان کیساتھ کھڑے ہونگے، لیکن بہت دیر ہوچکی تھی، یہی ہماری کمزوری ہے کہ دوست ممالک کیساتھ تعلقات کی نوعیت کی سمجھ نہیں پائے، پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ دشمن کی خاموش حکمت عملی کا تدارک کرسکیں۔ دوسروں پر انحصار کرنے والی اقوام کی قسمت میں ہمیشہ ذلت ہی آتی ہے، جو مسلمان کیلئے موت سے بدتر ہے، عزت کی موت ہی حقیقی زندگی ہے، جن لوگوں نے اسرائیل کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے، ان پر انحصار کیسے کیا جا سکتا ہے۔ تعلقات اپنی جگہ لیکن فرمانبرداری کسی قوم کو زیب نہیں دیتی، اس کا سب سے بڑا نقصان تب ہوا جب ہم نے پاکستان کی بقاء کا فیصلہ کرنا ہے، یعنی کشمیر۔
اسلام ٹائمز: عالم اسلام بلاکوں میں منقسم ہے، ایک طرف عرب لیگ، او آئی سی اور دوسری طرف ترکی، ملایشیاء اور ایران ہیں، پاکستان اپنا وزن کس پلڑے میں ڈالے، کہیں جانے کا کوئی راستہ ہے۔؟
پروفیسر ہارون رشید تبسم: یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب عالم اسلام کے مفادات کے تحفظ اور مسلم اقوام کے وقار کی سربلندی کے لیے بنائے گئے اتحاد مسلم دشمن قوتوں کے ہاتھوں یرغمال بن جائیں اور مسلم ممالک کو ایسی راہ دکھائی جا رہی ہو کہ یا تو ہمارے تیل سے ہاتھ اٹھا لو یا ہم جس طرح اسرائیل کی اقتداء میں کھڑے ہیں، تم بھی بھارت اور دوسری دشمن قوتوں کے پیچھے ہاتھ باندھ کے کھڑے ہو جاؤ۔ یہ پاکستان کے لیے بڑا دھچکا ہے کہ چوراہے میں کھڑے ہو کر دیکھ رہے ہیں، کوئی راستہ نہیں مل رہا۔ اس سے بھی بڑی مصیبت یہ ہے کہ جن ممالک نے یہ نعرہ لگایا کہ ہم او آئی سی کے کمزور کردار کو جاندار بنانے کی کوشش کے طور ہر نیا اتحاد تشکیل دینے جا رہے ہیں، انکی سمت بھی واضح نہیں۔ پھر مسلم ممالک صرف عالم اسلام کی حیثیت سے دو بلاکوں میں تقسیم نہیں بلکہ عرب آپس میں تقسیم ہیں اور غیر عرب آپس میں تقسیم ہیں۔ لیکن پاکستان کے پاس جو راستہ ہے، وہ یہ نہیں کہ یا تو مسلم ممالک میں سے پاکستان کسی دوسرے ملک کی پیروی کرے، یا یہ سمجھ لیا جائے کہ دوسرے ممالک کا ایک حصہ پاکستان کے پیچھے چل پڑے۔
مسلم ممالک ایک ہی دین کے پیروکار ہیں، لیکن اب وہ الگ الگ ریاستوں میں خود مختار حیثیت رکھتے ہیں، سب کو اپنے مفادات مقدم ہیں، پاکستان کو اپنی سمت واضح رکھنی چاہیئے، لیکن نظریہ پاکستان کو پسِ پشت ڈال کر کسی سودے بازی کا حصہ نہیں بننا چاہیئے۔ ہمارے لیے قرآن و سنت کے بعد بانی پاکستان کے چھوڑے ہوئے اصول رہنماء ہیں۔ انہوں نے اصولوں پر کبھی سودا نہیں کیا، دوسری اقوام بھی جس قدر کمزوری یا لاتعلقی کی طرف مائل ہوں، اگر انسانی قدروں پہ مبنی اصولوں کو مدنظر رکھ کر ان سے بات کی جائے تو اس کا اثر ہوتا ہے، جو سوچ میں تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔ پاکستان کے پاس یہی راستہ ہے کہ اپنے اصولوں کو نہ بھولیں، ان پہ قائم رہیں، حالات خود بخود وہی رخ اختیار کرنا شروع کر دینگے، جہاں بنیادی انسانی اقدار کی پاسداری کی جا رہی ہوگی۔ اب پاکستان کا اسٹینڈ کیا بنتا ہے، وہ ہے مظلوم کی حمایت، پوری قوم کا اس پر اتفاق ہے۔
کشمیر کی آزادی سے مراد یہی ہے کہ انہیں استصواب رائے کا حق ملے، فلسطینیوں کو اپنی سرزمین واپس ملے، عالمی طاقتیں دنیا میں مداخلت بند کریں، مسلم ممالک کے وسائل کو وہ خود استعمال کریں۔ سوائے اسرائیل اور بھارت یا ان کی سرپرستی کرنیوالوں کے کوئی ان اصولوں پہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہیں کرتا، لیکن یہ صرف ایسے رہنماء کے ذریعے انجام پا سکتا ہے، جس نے خود اصولوں کی نفی نہ کی ہے اور کردار سے ثابت کیا ہو کہ وہ انسانی اقدار کی حامل قوم کا لیڈر ہے۔ جب تک ہم قائداعظم اور اقبال کا راستہ اختیار نہیں کرینگے سربلند نہیں ہونگے۔ پاکستان کے لیڈنگ رول سے مراد یہ ہے کہ اگر عرب و غیر عرب مسلم ممالک اقدار اور اصولوں پہ سمجھوتہ کریں تو پاکستان ڈٹا رہے، لیڈنگ رول کا مطلب صرف مفادات پہ مبنی تعلقات میں استحکام اور توازن نہیں ہے۔ اسی میں پاکستانی کی بقاء اور مستقبل میں کامیابی کا راز مضمر ہے۔