رکن قومی اسمبلی اور پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنماء ڈاکٹر نثار احمد چیمہ وسطی پنجاب کے معروف زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے برطانیہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور ہیلتھ سروس پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل رہے۔ 2018ء میں پاکستان مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر گوجرانوالا سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ موجودہ سیاسی صورتحال، جنرل مشرف کو سزائے موت، حکومتی اقدامات اور فوج کے ردعمل اور اس حوالے سے اپوزیشن کی پالیسی سمیت اہم ایشوز پر انکے ساتھ اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)
اسلام ٹائمز: حکومتی وزراء کا موقف ہے کہ پرویز مشرف کے متعلق خصوصی عدالت کا فیصلہ غیر آئینی ہے، کیا کہیں گے۔؟
ڈاکٹر نثار احمد چیمہ: یہ بڑی حیرانگی کی بات ہے کہ عدلیہ کے فیصلوں کو مکمل طور پر غیر آئنی ہی کہ دینا، حالانکہ عدلیہ ایک آئینی ادارہ ہے۔ یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ اس میں کوئی جھول ہے یا کہیں پہ کسی قانونی تقاضے کو پورا نہیں کیا گیا۔ مکمل طور پر فیصلے کو غیر آئینی کہنے کا مطلب یہ بنے گا کہ یہ ادارہ یعنی عدالت ہی سرے سے آئین کے خلاف ہے، یا انکا جو فہم ہے آئین کے متعلق، اس کی روشنی میں آئین میں عدالتوں کا ذکر نہیں ہونا چاہیے یا عدالتوں کو کسی ادارے کے ماتحت ہونا چاہیے۔ یہ کہنا کہ فیصلہ غیر آئینی ہے، سرے سے آئین کے منافی بات ہے۔ اس میں کوئی اعتراض نہیں کہ فیصلوں کے کسی پہلو کی نشاندہی کی جائے کہ یہاں سے یہ قانون کے مطابق نہیں ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ الفاظ کے چناؤ میں تعصب سے کام لیا گیا ہے، یہ ایک اخلاقی مسئلہ بنے گا، نہ کہ یہی کہہ دیں کہ فیصلہ یا فیصلہ کرنیوالا ادارہ ہی خلاف آئین ہے۔ یہ تو صرف ایک فرسٹریشن کا اظہار ہے، یہ کوئی صائب رائے نہیں ہے۔
اسلام ٹائمز: جنرل مشرف کے دور اقتدار میں ججز نے بھی انکے فیصلوں کی توثیق کی اور سیاسی رہنماؤں نے بھی مقدمات ختم کرو کر انکا ساتھ دیا، اب وہ غدار کیسے گردانے جا رہے ہیں۔؟
ڈاکٹر نثار احمد چیمہ: ہاں یہ ایک افسوسناک بات ہے کہ پاکستان میں ججز نے عدالتوں نے مارشل لاء پر اعتراض نہیں کیا بلکہ اسکی تائید کی۔ لیکن جنرل مشرف نے جب ایمرجنسی کا اعلان کیا اسوقت عدلیہ نے کہا کہ انہوں نے آئین توڑا ہے، اور آئین کو معطل کیا ہے۔ پھر عدلیہ نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ یہ ایک شخص کا فیصلہ تھا، کسی بھی ادارے کا فیصلہ نہیں تھا، حتیٰ انکی کابینہ یا کور کمانڈرز کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ اس لیے ایک ہی شخص کو سزا تجویز کی گئی ہے۔
اسلام ٹائمز: جنرل مشرف کی سزائے موت کو مسلح افواج نے نہایت اضطراب، غصے اور غم کی نظر سے دیکھا ہے، کیا فوج جیسے ادارے کو کسی آمر کے ذاتی فیصلوں کیوجہ سے مایوس کیا جانا چاہیئے۔؟
ڈاکٹر نثار احمد چیمہ: نہیں اس پہ فوج کو تو مایوس ہونا ہی نہیں چاہیے۔ یہاں وزرائے اعظم کو سزائے موت ہوئی ہیں، انہیں سزائیں دی گئیں ہیں، لیکن سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں نے اس طرح کا ردعمل نہیں دیا، پھر یہ خلاف قانون ہوگا کہ کوئی ایک ادارہ یا پارٹی یہ کہے کہ باقیوں کیلئے تو سزائیں تجویز کی جائیں لیکن کسی مخصوص ادارے سے تعلق کیوجہ سے کسی مجرم کو سزا نہ سنائی جائے۔ چاہے یہ ادارہ فوج ہی کیوں نہ ہو، ورنہ ملک میں قانون کی بالادستی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا، بلکہ ایک کے لیے قانون الگ اور دوسرے کیلئے قانون الگ ہوگا، جس سے نہ معاشرہ آگے بڑھ سکتا ہے، نہ ہی ملک اور حکومت چل سکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ فیصلے درست ہونے چاہیں۔ پھر کسی شخص یا ادارے کو فیصلے پر اعتراض ہے تو اعلیٰ عدالت میں جا کر اپیل کریں، جس کا قانونی حق ہے، وہ کرے اور عدالت میں بحث کر کے ثابت کرے کہ جو فیصلہ ہوا ہے، یہ درست نہیں ہے۔
نہ کہ صرف غصے اور غم کا اظہار کر دیا جائے، حالانکہ اس سے پہلے مسلح افواج کا یہ موقف کئی بار آچکا ہے کہ مشرف کا کیس ذاتی قسم کا ہے، انہوں نے جو فیصلے کیے تھے، ان سے فوج کا کوئی تعلق نہیں۔ اب بھی تحمل سے ان فیصلوں پر جن اداروں یا افراد کا قانونی حق ہے، صرف انہی کو وہ حق استعمال کرتے ہوئے فیصلوں پر اعتراض اعلیٰ عدالتوں میں جمع کروانا چاہیے، قانونی طریقے سے اپنا حق بتائیں اور حاصل کریں۔ پھر یہ بھی ہے کہ مشرف نے تو باقاعدہ ایک سیاسی جماعت بنائی تھی، وہ اس سیاسی جماعت کے سربراہ بھی تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر فوج سے تعلق ہے تو پھر اپنے حلف کے مطابق سیاست میں نہ آئیں، اگر فوج کے اندر رہتے ہوئے اور فوج سے ملازمت سے فراغت کے بعد بھی سیاست کرینگے تو الزامات کا سامنا بھی کرنا پڑیگا، تحفظات کا جواب بھی دینا پڑیگا۔ آپ سیاسی رہنماء ہیں، لیکن جب فیصلہ آپ کے خلاف آگیا یا سخت آ گیا تو شور مچانا شروع کر دیا کہ اس سے کسی ادارے کا وقار اور مورال ڈاؤن ہو رہا ہے، تو یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔
انہیں جو سزا ہوئی ہے وہ بطور سابق صدر ہوئی ہے، یہاں تو ابھی بھی ایک سابق صدر چھ ماہ کے بعد جیل سے باہر آیا ہے، جس کے خلاف ثبوت بھی نہیں ہیں، ان کیخلاف تحقیقات ہی جیل میں بند کر کے کی گئی ہیں، پھر بھی کچھ سامنے نہیں لایا جا سکا۔ پرویز مشرف کیخلاف تو کئی سال تک کیس چلتا رہا ہے اور وہ عدالت میں نہیں آئے۔ فوج کو بدنام تو پرویز مشرف نے کیا ہے۔ فوج کے جذبات کی قدر کی جانی چاہیے اور خیال رکھا جانا چاہیے تاکہ کسی دشمن کو آنکھ اٹھا کے ملک کی طرف دیکھنے کی ہمت نہ ہو، ہمیں صرف فوج کے سیاسی کردار پر اعتراض ہے، پرویز مشرف کی سزاء انکے سیاسی کردار کی بنیاد پہ دی گئی ہے، بلکہ پرویز مشرف کے منفی سیاسی کردار کی وجہ سے دی گئی ہے۔ نہ صرف جنرل مشرف بلکہ جنرل ایوب، جنرل یحییٰ اور جنرل ضیاء کے بھی کسی خلاف آئین یا خلاف قانون اقدام کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔
اسلام ٹائمز: جنرل پرویز مشرف کو جس الزام پہ مجرم مانا گیا ہے، وہ انہوں نے اکیلے تو انجام نہیں دیا، پھر اس میں شامل باقی لوگوں کو کیوں سزا نہیں دی گئی۔؟
ڈاکٹر نثار احمد چیمہ: یہ بات تو ثابت ہو چکی ہے کہ پرویز مشرف نے بغیر کسی کو اس میں شامل کیے یہ کام کیا تھا، اس لیے سب سے بڑا جرم انہوں نے اکیلے انجام دیا تو باقی لوگوں کو کیوں شامل کیا جائے، البتہ اس کے بعد یہ چیز تاریخ کا حصہ بن جائیگی کہ کسی آمر کا ساتھ دینے والے یہ ذہن میں رکھیں گے کہ کل جب اس آمر کو کٹہڑے میں لایا جائیگا تو وہ یہ بھی کہے گا کہ جن لوگوں نے میرا ساتھ دیا یا میرے عمل کی حمایت کی تھی انہیں بھی میرے ساتھ سزا دی جائے۔ اب انہوں نے کیس کو کمزور کرنے کے لیے شوکت عزیز، وزیر قانون اور کورکمانڈرز کا بھی ذکر کر دیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ملوث ثابت کیا جا سکے اور عدالت کوئی سزا نہ دے سکے، یہ مشورہ انہیں قانون جاننے والوں نے دیا ہے، کہ ہو سکتا ہے اس طرح بچ جائیں۔ موجودہ حکومت کی جانب سے بھی یہ درخواستیں اسی لیے آئی ہیں، کہ فلاں فلاں سب کو اس میں شامل کیا جائے۔
اب یہ کام بھی صرف حکومت کر سکتی ہے، لیکن انہوں نے نہیں کیا، کیونکہ یہ قانون میں ہے ہی نہیں کہ حکومت کے علاوہ کوئی یہ کام کر سکتا ہے۔ حالانکہ ملک کیساتھ جو حشر کیا گیا ہے اور جس طرح دستور کا گلہ دبایا گیا ہے، یہ سب نے دیکھا ہے۔ جب حکومت نے نہیں کیا تو یہ شور مچانے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے کہ عدالت نے باقیوں کو کیوں سزا میں شامل نہیں کیا۔ اسی طرح اگر حکومت کو ہمدردی پیدا ہو گئی تھی مشرف سے تو 241 میں شکایت کو واپس لے لیتے۔ دراصل موجودہ حکومت اور پرویز مشرف کو یہ زعم تھا کہ ان کے خلاف کوئی فیصلہ آ ہی نہیں سکتا، نہ ہی آنے دیا جائیگا، جس طرح انہیں عدالت نے طلب کیا تو وہ سی ایم ایچ چلے گئے، پھر میڈیا کو کہتے رہے کہ انہیں نکالنے میں فوج اور آرمی چیف نے انکی مدد کی ہے، پھر اسی طرح کہا کہ میں ایک آدمی نہیں ہوں، میں فوج ہوں، پوری فوج میرے پیچھے کھڑی ہے، حالانکہ وہ ریٹائرڈ ہو چکے تھے، فوج چھوڑ چکے تھے.
وہ صرف اپنی ضد پہ ڈٹے ہوئے تھے، جس وجہ سے حالات یہاں تک پہنچے ہیں، لیکن کلی طور پر یہ صورت حال ملک کے مفاد میں ہے، جمہوری سوچ رکھنے والوں کو اس سے تقویت ملے گی اور جمہوری اصولوں کو پامال کرنے والوں کو تنبیہ ہوگی۔ پھر عمران خان نے اس پر بھی یوٹرن لیا ہے، ہو سکتا ہے وہ جو کچھ آج کہہ رہے ہیں کل حکومت سے باہر ہونے پر پھر موجودہ موقف سے یوٹرن لے لیں۔ یہ موجودہ حکومت کی ایک اور ناکامی اور نا اہلی ہے کہ عدلیہ اور فوج کو آمنے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ انہوں نے اگر ملک کو کچھ دیا ہے تو وہ صرف بحران ہیں، معاشی بحران، آئینی بحران، قانونی بحران، سیاسی بحران، اس سے چھٹکارے کا راستہ صرف الیکشن ہے، نئی حکومت آئے، عوامی حکومت آئے، یہ سب بحران خودبخود ختم ہو جائیں گے۔
اسلام ٹائمز: حکومت کا موقف ہے کہ ملکی سلامتی اور بقا کی ضامن فوج ہے، اس لیے یہ فیصلہ قابل قبول نہیں، کیا ادارے مستحکم نہیں ہونے چاہیئں۔؟
ڈاکٹر نثار احمد چیمہ: ہم تو پھر بھی سزا کا مطالبہ کرتے ہیں، لیکن عمران خان تو پھانسی کا مطالبہ کرتے تھے۔ اب جب حکومت مل گئی ہے تو ایک نیا شوشا چھوڑ دیا ہے۔ ایک طرف انہوں نے خاموشی اختیار کی ہے، وزیروں کو بھی بات کرنے سے منع کیا ہے، دوسری طرف ان کی کابینہ اور اٹارنی جنرل پریس کانفرنسیں بھی کر رہے ہیں۔ باقی اداروں کو بھی عدالت کے فیصلے کا احترام کرنا ہوگا اور خود وزیراعظم اور حکومت کو بھی۔ صرف فوج نہیں بلکہ کوئی ایک ستون بھی گرا تو ریاست خطرے میں پڑ جائیگی۔ اس سب کی ذمہ داری تو حکومت کے پاس ہوتی ہے، لیکن یہ ہی نہیں پتہ کہ حکومت ہے بھی یا نہیں، اگر حکومت ہے تو یہ نہیں پتہ وہ کس کی ہے۔
وفاقی وزراء کی ہے، آئی ایس پی آر کی ہے یا اٹارنی جنرل یہ بتائیں کہ حکومت وہ ہیں، بلکہ اب تو حکومت ڈوریں باہر سے بھی ہلائی جا رہی ہیں، ایک فون پر خارجہ پالیسی ہی تبدیل کی جا رہی ہے، اس لیے انہوں نے اداروں اور ریاست کو جتنا کمزور کر سکتے تھے، کر چکے ہیں، اب یہ اللہ نہ کرے پاکستان کو گروی رکھ دینگے، کل اگر امریکہ دباؤ ڈالے گا تو چین سے سی پیک کے معاملے پر بھی پیچھے ہٹ جائیں گے۔ پرویز مشرف کے خلاف جب مقدمہ درج کیا جا رہا تھا تو اس وقت کہا جا رہا تھا کہ کیا کوئی سربراہ پاک فوج سزا دے سکتا ہے تاہم متنازعہ حالات میں مقدمہ درج ہوا اور انہیں حالات میں ہی اسے آگے بھی بڑھایا گیا۔
اسلام ٹائمز: لاہور میں وکلاء گردی کے معاملے میں جسطرح سے حکومت نے ہینڈل کیا ہے، آپکے خیال میں کیا یہ کافی اور درست تھا۔؟
ڈاکٹر نثار احمد چیمہ: دیکھیں، عمران خان صاحب جب حکومت میں نہیں آئے تھے، جو انہوں نے سنہرے کواب دکھائے تھے، اس میں ایک بات وہ بہت زیادہ دہراتے تھے کہ خیبر پختوخواہ میں انہوں نے ایک مثالی حکومت قائم کی ہے، جہاں سب کے لیے ایک قانون ہے، پھر پولیس کے متعلق وہ خصوصی طور پر کہتے تھے کہ پولیس کو غیر سیاسی بنا دیا گیا ہے، اب پنجاب پولیس کو بھی وہ زیادہ فعال بنا دینگے، وہ اپنا کام آزادی سے اور قانون کے مطابق کریگی۔ لیکن جب سے حکومت میں آئے ہیں تو باقی چیزوں کیطرح ان سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ کسی بھی لحاظ سے سنبھالا نہیں جا رہا۔ وہ جس شخص کو خود پنجاب میں لیکر آئے، وہی درانی صاحب انکی حکومت کا حال دیکھ کر سب کچھ چھوڑ کر چلے گئے، انہیں کسی نے پوچھا تک نہیں، پھر انہیں صرف پندرہ ماہ کتنے آئی جی بدلے ہیں، پولیس کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے، اس لیے وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے، پنجاب میں انتظامیہ کو یہی نہیں پتہ کہ انہوں نے احکامات کہاں سے لینے ہیں، وزیراعلیٰ ہاوس سے، گورنر ہاوس سے یا اسپیکر صاحب سے، یا خود اسلام آباد سے انہیں بتایا جائیگا کہ فیصلوں کا اختیار کس کے پاس ہے۔
پنجاب بارہ کڑور کی آبادی ہے، وہاں جس شیر شاہ سوری کو لایا گیا ہے اس پر وفاقی کابینہ اور پنجاب کابینہ ہی خوش نہیں، حقیقت میں پنجاب کے اندر کوئی گورننس نظر نہیں آتی، یہ تو پھر بھی لاہور کے لوگوں اور عام شہریوں یا مریضوں کے لواحقین نے پولیس کو حوصلہ دیا اور انہوں نے کسی حد تک وکلاء کو کنٹرول کیا، ورنہ وہ سات کلو میٹر تک دندناتے ہوئے آئے ہیں، لیکن انہیں کسی نے روکا تک نہیں، پوچھا تک نہیں، پولیس یا انتظامیہ نے ہینڈل کیا کرنا تھا، لگتا ہے کہ یا تو انہیں پتہ نہیں تھا، یا وہ وکیلوں کو کسی کے کہنے پر کھلا چھوڑ چکے تھے۔ جس کلچر کی عمران خان نے ہمیشہ مخالفت کی وہی کلچر پنجاب میں رائج ہے، لوکل انتظامیہ اور پولیس نے کوئی کردار ادا نہیں کیا، حکومت مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ پھر وزیر یہ کہہ رہے ہیں کہ رٹ قائم نہیں ہو رہی، انہیں تو رٹ قائم کر کے دکھانی چاہیے، ورنہ حالات مزید خراب ہوتے جائیں گے۔
اسلام ٹائمز: حکومت کا کہنا ہے کہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ ماڈل ٹاون کی طرز کا کوئی نیا واقعہ پیش آئے، کیا پولیس کے اس صبر کے پیچھے یہ مقصد نظر آتا ہے۔؟
ڈاکٹر نثار احمد چیمہ: یہ کوئی جواز نہیں کہ اپنی ناکامی کو ماڈل ٹاون کے سانحے سے جوڑ دیں، اس سے پہلے جو حکومت تھی، لوگوں کو اختلاف بھی ہے لیکن اداروں پر کنٹرول تھا، پولیس بھی کام کر رہی تھی، یہی ہسپتال اپنی جگہ کام کر رہے تھے۔ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دی جا رہی تھیں۔ لیکن جو لاہور میں ہوا ہے، اسکی پہلے کوئی مثال نہیں، اسکی وجہ یہ نہیں کہ پہلے وکلاء کو کوئی مسئلہ نہیں ہوا، بلکہ پہلے اسکی مثال اس لیے موجود کہ صوبائی حکومت اور مقامی انتظامیہ ایسے واقعات رونماء نہیں ہونے دیتی تھی، یہ سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے ہیں، وکلاء حضرات، ان سے مل کر پہلے ہی بات کر لی جاتی تو سانحہ پیش نہیں آتا، اب یہ صرف ناتجربہ کاری نہیں بلکہ مجرمانہ غفلت ہے۔
جب صوبے کا وزیراعلیٰ ہی اسلام آباد جا کر رپورٹ کرتا ہو، وہاں سے ہدایات لیتا ہو، تو بیوروکریسی نے کیا کام کرنا ہے اور صوبائی کابینہ نے ایک ٹیم کی صورت میں کیسے چلنا ہے۔ مختلف طبقات احتجاج تو کرتے ہیں۔ اب یہ ریاست کی رٹ کی بات کرتے ہیں، تو موجودہ حکمران بتائیں کہ پاکستان میں دھرنوں اور متشدد احتجاج کا عمل کس نے متعارف کروایا۔ اب ڈیموکریسی اور ریاست کیلئے ضروری ہے کہ نئے انتخابات ہوں۔ لیکن حیرت والی بات ہے کہ اب بھی وزیراعظم یہ کہتا ہے کہ جب تک میں ہوں بزدار رہیگا۔ یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ کس بنیاد پہ ایسا کہتے ہیں۔ حالانکہ عثمان بزدار نے سب بنیادیں ہلا دی ہیں، اب کچھ بھی نہیں بچا، پی ٹی آئی مکمل طور پر پنجاب میں فلاپ ہو چکی ہے، لاہور کا واقعہ اسکا آخری ثبوت ہے۔ اب یہ چھٹے آئی جی کو تبدیل کر چکے ہیں، جب انہیں اپنی فورس پر اعتماد نہیں تو رٹ کیسے قائم کر سکتے ہیں۔