پنجاب کے وزیر برائے ہاؤسنگ، شہری ترقی اور ہیلتھ انجینئرنگ محمود الرشید 1954ء کو پیدا ہوئے، 1978ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اکنامکس میں ماسٹر کیا، اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے 1988ء اور 1990ء میں رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے، 2013ء میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے اور اپوزیشن لیڈر رہے، 2018ء میں پھر رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی کابینہ کے فعال رکن ہیں۔ حالیہ سیاسی صورتحال،جنرل پرویز مشرف کی سزا اور پاکستان کے عرب اور غیر عرب مسلم ممالک کیساتھ تعلقات میں آنیوالی تبدیلیوں سمیت اہم ایشوز پر اسلام ٹائمز کیساتھ انکا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)
اسلام ٹائمز: ادارے ریاست کا ستون ہیں، لیکن ایک کے بعد ایک حادثہ نئے بحران کو جنم دے رہا ہے، اب حکومت عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد کیسے کروائے گی۔؟
میاں محمود الرشید: پاکستان کو اندرونی اور بیرونی طور پر مختلف چینلجز درپیش ہیں، ریاست اداروں کے بل بوتے پر ہی کھڑی ہوتی ہے، اس وقت مسلح افواج سمیت تمام ادارے بہت زیادہ تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملکی مفاد کو مقدم رکھے ہوئے چل رہے ہیں۔ پاکستان کا مستقبل جمہوریت ہے، عدلیہ کو اپنی آزادی برقرار رکھتے ہوئے اصولوں اور آئین کے اندر رہتے ہوئے کام کرنا ہوگا، اسی طرح حکومت اور دوسرے ادارے بھی اپنا کردار ادا کرینگے۔ کچھ دن قبل آرمی چیف کی توسیع کے متعلق فیصلہ آیا کہ پارلیمنٹ اس کے بارے میں قانون سازی کرے، اس پر بھی حکومتی وزراء اور ماہرین قانون کے درمیان مختلف آراء پائی جاتی تھیں، اور پائی جاتی ہیں، لیکن ہم نے عدلیہ کے فیصلے کو اولیت دی اور کوئی ایسا اشارہ نہیں دیا جس سے یہ ظاہر ہو کہ حکومت عدلیہ کی آزادی یا فیصلوں کے خلاف جا رہی ہے، یا اہمیت نہیں دے رہی۔ اس سلسلے میں عدالت کی طرف سے چھ ماہ کا وقت دیا گیا، جس کے مطابق قانون سازی کرنے یا نظرِ ثانی کی اپیل کے بارے میں گفت و شنید اور تبادلہ خیال جاری ہے۔ ہم پہلے دن سے ہی عدلیہ کا احترام کرتے ہیں، کسی کو قانون سے بالا تر نہیں سمجھتے، وزیراعظم اسی لیے ہمیشہ اسلام کے پہلے دور کی مثالیں دیتے رہتے ہیں کہ جب ہر شخص بلا تخصیص عدالت یا قاضی کے سامنے حاضر ہوتا تھا، یہ دنیا میں سب سے بڑی مثال ہے، قانون کی بالادستی کی۔ اسوقت بھی حکومت اپنے اس عزم پہ قائم ہے۔
اسلام ٹائمز: کیا جنرل پرویز مشرف کو دی گئی سزا پر بھی حکومت اپنی ذمہ داری پوری کریگی۔؟
میاں محمود الرشید: اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ حکومت قانونی تقاضے پورے کریگی، اور قانون اور آئین کے مطابق اپنی ذمہ داری انجام دیگی۔ جہاں سقم موجود ہے وہاں اس کے مطابق اس کی نشاندہی کرتے ہوئے متعلقہ فورم پہ اپیل بھی کرینگے اور آواز بھی اٹھائیں گے۔ اس کے علاوہ حکومت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ ریاست کے تمام اداروں کو تقویت دیں، بالخصوص فوج کے متعلق کسی ایسے تاثر کو نہ بڑھنے دیں جس سے فوج کے اندر مایوسی کا عنصر ابھرے یا انکی قربانیوں کو نظرانداز کیا جانے کا تاثر پیدا ہو۔ ملک جن حالات سے گذر رہا ہے، فوج کا کردار سب سے زیادہ اہم ہے، اس سے قبل بھی فوج کی قربانیوں اور کوششوں کی وجہ سے پاکستان کو امن نصیب ہوا ہے اور دہشت گردی سے چھٹکارا ملا ہے۔ جنرل مشرف کے فیصلے کے متعلق، پہلے دن سے ہی حکومت کا موقف سامنے آچکا ہے کہ یہ براہ راست ایک مخصوص شخص کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ سب کو معلوم ہو چکا ہے کہ اس فیصلے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ ملک کسی بحران اور تناؤ کا متحمل نہیں، پھر کوئی ایسا فیصلہ جس سے واضح طور پر ملک میں فساد کی صورتحال پیدا ہونے اور الجھنیں پیدا ہونے کا خدشہ ہو، اسکی تائید نہیں کی جا سکتی۔
جب پرویز مشرف کیساتھ ان لوگوں نے این آر او کیا اور سیاستدانوں کیخلاف ہر قسم کے مقدمات ختم ہو گئے تھے، تو پھر مسلم لیگ (ن) کو جب اقتدار ملا تو انہوں نے کیوں ایک کیس بنایا، اس کا واضح مطلب یہی تھا کہ یہ کیس بدنیتی کی بنیاد پر بنایا گیا، اس میں ججز نے بھی منفی کردار ادا کیا۔ اس لیے اب اگر یہ کہا جائے کہ یہ فیصلہ بھی انتقام کی بنیاد پر آیا ہے تو غلط نہیں ہے۔ ایسی صورت میں حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ انصاف کیساتھ کھڑی ہو، قانون کے دائرے میں رہ کر اپنا کردار ادا کرے۔ صرف یہی ایک طریقہ ہے جس سے اداروں کی ساکھ اور قومی وقار کو بحال رکھا جا سکتا ہے۔ قوموں کی زندگی چند دنوں پر مشتمل نہیں ہوتی، بحران بھی پیدا ہوتے ہیں لیکن حکومت اور قومی قیادت نے مستقبل کو سامنے رکھ کر فیصلے کرنا ہوتے ہیں، ملکی مفاد اور قوم کی بہتری اسی میں ہے کہ ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں، کسی ذاتی اور شخصی بنیاد پہ نہ کوئی فیصلہ آئے نہ ہی کوئی قانون بنے۔
اسلام ٹائمز: جنرل مشرف تو ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں، پھر فوج اور حکومت کیجانب سے اسے فوج کیخلاف فیصلے کے طور پر کیوں لیا گیا اور ردعمل دیا گیا ہے۔؟
میاں محمود الرشید: نہ ایسا نہیں، وہ کسی سیاسی جماعت کے سربراہ نہیں ہیں۔ اس وقت وہ صرف سابق صدر، اور سابق آرمی چیف ہیں۔ انکی شناخت فوج ہے، جس وجہ سے پوری فوج کا ردعمل آیا ہے، صرف جرنیلوں یا افسروں نے اس پر غم اور غصے کا اظہار نہیں کیا، بلکہ انہوں نے واضح کیا ہے کہ نیچے تک فوج میں اضطراب پایا جاتا ہے، کیونکہ پوری فوج انہیں سپہ سالار کے طور پر اور ایک کمانڈو کے طور پر جانتی ہے۔ یہ ایک ایک سپاہی جانتا ہے کہ انہوں نے پاکستان کی خاطر جنگیں لڑی ہیں، جنگوں میں کمانڈ کیا ہے، عجلت میں کیے گئے فیصلے سے نہ صرف فوج کا مورال ڈاون ہوا ہے، بلکہ دشمن کی جانب سے طعنے بھی دیئے جا رہے ہیں، خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے اور پاکستان کا مذاق اڑیا جا رہا ہے، یہ پورے ملک کیلئے شرمندگی کا باعث ہے۔ سارا پاکستان مسلح افواج کیساتھ ہے، شہروں اور دیہاتوں میں اس فیصلے کیخلاف لوگوں نے سڑکوں پر احتجاج کیا جا رہا ہے۔
عوام اس لیے سڑکوں پہ نکلے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے مسلح افواج کو تکلیف پہنچی ہے، اور پاکستانی عوام فوج کو تکلیف پہنچانے یا مایوس کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، اگر جنرل مشرف صرف کسی سیاسی پارٹی کے سربراہ ہوتے تو یوں لوگ سڑکوں پر نکل کر احتجاج نہ کرتے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ مسلح افواج کے کمانڈر ہیں، انکے خلاف اس طرح کے فیصلے کے اثرات پوری فوج پر ہونگے، جس سے فوج میں مایوسی پیدا ہوگی، اور ملک کا دفاع خطرے میں پڑ جائیگا۔ پاکستان ہر طرف سے خطروں سے دوچار ہے، اس وقت کوئی پاکستانی مسلح افواج کیخلاف کسی قسم کے فیصلے کو کیسے قبول کر سکتا ہے۔ عدلیہ کا احترام اپنی جگہ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے، ہر پاکستانی کا دل فوج کیساتھ دھڑکتا ہے۔
اسلام ٹائمز: لیکن اس فیصلے سے پہلے پورا قانونی طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے، اس دوران فوج اور حکومت نے اپنا کردار کیوں ادا نہیں کیا۔؟
میاں محمود الرشید: نہیں ایسا نہیں ہوا، اسی لیے حکومت نے اپیل کی تھی کہ خصوصی عدالت کو فیصلہ دینے سے روکا جائے، اس کے باوجود کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ بلکہ موجودہ آرمی چیف کی توسیع کے معاملے کو بھی زیادہ طول دیا گیا۔ اس سے ہٹ کر بھی دیکھیں تو پی ٹی ایم کے لوگوں کو بھی بری کر دیا گیا ہے، حالانکہ ان کے متعلق پوری دنیا میں پاکستان دشمن میڈیا یہ دکھا رہا تھا کہ وہ کس کے ہاتھوں میں کھیل رہے تھے، دوسری طرف فوج اور حکومت کو کٹہڑے میں کھڑا کر دیا گیا۔ پھر محترم چیف جسٹس نے کس طرح مکے لہراتے ہوئے کہا کہ سابق آرمی چیف کیخلاف فیصلہ آنیوالا ہے، انہوں نے ایک تو یہ بات کیوں کہی، جبکہ کیس عدالت میں تھا، پھر انہوں نے یہ کیوں نہیں کہا کہ سابق صدر کیخلاف فیصلہ یا انکے متعلق فیصلہ آنیوالا ہے۔ یہ ساری باتیں ان فیصلوں اور احکامات کو مشکوک بناتی ہیں۔ جب ان پر ایک عام آدمی اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں تو پھر مسلح افواج جیسا منظم ادارہ اسے کیسے قبول کر سکتا ہے۔ پھر فوج تو صرف احکامات پر چلتی ہے، اس کے باوجود فوج کے متعلق کیسز کو حکومت نے بڑی احتیاط سے چلانے یا ختم کروانے کی کوشش کی، لیکن عدالتوں نے حساس ترین ایشوز پر انہیں معمولی سمجھ کر فیصلے دیئے۔
اسلام ٹائمز: اب تو ہر طرف سے یہی کہا جا رہا ہے کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے، اب جا کر سب سے زیادہ ذمہ داری کس کی ہے۔؟
میاں محمود الرشید: ذمہ داری تو سب سے زیادہ حکومت کی ہے، اور ہم اس چیلنج کو دیکھ رہے ہیں، حکومت نے ابھی تک کسی ادارے کو غیرمستحکم نہیں ہونے دیا۔ لیکن اس کو ایشو بنانے کی بجائے ایک کیس کے طور پر ہی دیکھنا چاہیے۔ پھر کیسز یا مقدمات میں سقم رہ جاتے ہیں، اس میں بھی جو سقم ہے، ہم اسی کی بات کر رہے ہیں، سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف کیس میں وفاقی حکومت کو سنا ہی نہیں گیا۔ وفاقی حکومت کے پاس اپیل کی گنجائش موجود ہے۔ اپوزیشن کا کردار غیر ذمہ دارانہ ہے، بلاول بھٹو نے کیوں کہا کہ عمران خان ابو بچاؤ مہم جاری رکھے ہوئے ہیں، ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیئیں، ذوالفقار علی بھٹو بھی ایوب خان کو ڈیڈی کہتے تھے۔ اداروں کے خلاف بات کرنا کسی صورت درست نہیں ہو گا اور دونوں ادارے ہی ہمارے لیے قابل احترام ہیں۔ سقم یہ ہے کہ جب میاں نواز شریف نے یہ کیس فائل کروایا تو انہوں نے اس معاملے میں شامل سب لوگوں کو اس میں کیوں نہیں رکھا، شامل تو ججز بھی تھے، انہیں عہدے مل گئے، جس کے ساتھ مل کر انہوں نے یہ جرم کیا، لیکن صرف اسے سزا دے دی۔
اسلام ٹائمز: وکلاء نے ہسپتال پر حملہ کیا اور وکلاء کی تنظیموں نے عدالتوں میں پولیس کے داخلے پر پابندی لگا دی، کیا اس بے بسی سے عام آدمی میں مایوسی پیدا نہیں ہوگی۔؟
میاں محمود الرشید: یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں کچھ معاملات ایسے ہیں، جہاں حکومت اور ریاست نے اپنی اتھارٹی کو کمزور کیا ہے، اس میں ایک مثال طبقاتی گروہوں اور پریشر گروپس کی ہے، مذہب کے نام پر شدت پسندی اور اس کیساتھ دہشت گرد گروپوں کو مشکل سے قابو کیا گیا ہے، جس کا جہاں دل کرتا ہے وہ طاقت دکھاتا اور آزماتا ہے، کل ہی تو مولوی حضرات نے اسلام آباد کو سنبھالا ہوا تھا، پھر اسی طرح ینگ ڈاکٹرز نے ہڑتالیں کی ہوئی ہیں، لیکن عدلیہ کی آزادی اور ججز کی بحالی کے نام پر آنیوالی تبدیلی کا ایک برا نتیجہ یہ ہے کہ وکلاء، نہ صرف اپنے آپ کو سب سے برتر سمجھتے ہیں، بلکہ قانون سے مبرا بھی گردانتے ہیں۔ یہ ایک قابل افسوس بات ہے، لیکن لاہور کے واقعہ میں ملوث وکلاء کو پولیس نے گرفتار کیا ہے، کیس فائل کیے ہیں، عدالتوں سے ریمانڈ لیا ہے، یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ اسی طرح کوشش کی جائیگی کہ کسی کیساتھ زیادتی بھی نہ ہو اور جن لوگوں نے جرم انجام دیا ہے، انہیں بھی قرار واقعی سزا ملے۔ یہ جو کچھ ہو رہا ہے اسکا سیدھا سا حل یہی ہے کہ ریاست اپنی رٹ قائم کرے اور پھر اس کو قائم رکھے۔ کسی ایک گروپ کی بجائے ہر تجاوز کرنیوالے کیخلاف ریاست کی رٹ اسٹیبلش ہونی چاہیے۔ یہی ہماری پالیسی ہے۔
اسلام ٹائمز: لاہور کے واقعہ کے علاوہ بھی پنجاب میں گورننس کی صورتحال مایوس کن ہے، اسکے باوجود وزیراعلیٰ پنجاب کی تائید کیوں کی جا رہی ہے۔؟
میاں محمود الرشید: پورا ملک ہی کراسز کا شکار تھا اور ہماری حکومت کو مزید مشکلات میں دھکیلنے کیلئے ایک ہنگامی صورتحال برقرار رکھی جا رہی ہے، اسلام آباد کی طرف آنیوالا مارچ، دھرنا، لاہور میں ہسپتال جیسے واقعات اور جنرل مشرف کی سزا اس کی کڑیاں ہیں، لیکن پنجاب حکومت نے وفاقی حکومت کی طرح بڑی خوش اسلوبی سے ہسپتال میں ہونیوالی توڑ پھوڑ کے ذمہ داروں کو پکڑ بھی لیا ہے اور کسی بڑے سانحہ کو بھی روک لیا ہے۔
اسلام ٹائمز: کشمیر کی صورتحال کے بعد شہریت بل کیوجہ سے بھارت کے تمام مسلمانوں کا مستقبل خطرے میں ہے، لیکن جن مسلم ممالک نے کشمیر پر آواز اٹھائی وزیراعظم نے ان سے وعدہ خلافی کی اور جن ممالک نے بھارت کی حمایت کی، انکی رائے پر عمل کیا، کیا یہ ملکی مفاد کیخلاف نہیں۔؟
میاں محمود الرشید: بظاہر یہ تاثر لیا جا رہا ہے، لیکن کسی بھی ملک کی طرف جھکاؤ والی کوئی بات نہیں، نہ ہی وزیراعظم نے کسی ملک سے ڈکٹیشن لی ہے، جن سے مشورہ کیا ہے وہ بھی دوست ہیں اور جن سے معذرت کی ہے وہ بھی اپنے ہیں، اسی طرح پاکستان کسی بھی ملک کے مفادات کے ساتھ کھڑا ہونا نہیں چاہتا، پاکستان امہ کے مفاد اور ہم آہنگی کے لیے کلیدی کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ دورہ ملائیشیا کے حوالے سے مختلف قسم کی قیاس آرائیاں کی گئیں، ہم سمجھتے ہیں کہ مسلم امہ کا اتحاد اس وقت اہم ترین ضرورت ہے اور وزیراعظم مسلم ممالک کو اکھٹا کرنا چاہتے ہیں۔ جس سلسلے میں انہوں نے کسی دل آزاری نہیں کی، بلکہ سب کو اعتماد میں لیا ہے، وقت کیساتھ ساتھ یہ حالات بہتر ہو جائیں گے، پاکستان عربی اور عجمی کی تفریق سے بالاتر ہو کر مسلمان ممالک کو قریب لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن کشمیر کو نظرانداز کرنے اور بھارت میں بسنے والے مسلمان بھائیوں کو تنہاء چھوڑنے والی کسی بات میں کوئی حقیقت نہیں۔
جنیوا میں بھی اس مسئلے پر بات کی گئی ہے، جیسے پہلے تمام عالمی فورمز پر اس ایشو کو اٹھایا گیا ہے، دنیا کو یہ باور کروا رہے ہیں کہ کشمیر پر بھارتی تسلط کےباعث خطے میں ایک اور بحران کا خطرہ ہے، بھارت کشمیرکی مسلم اکثریت کواقلیت میں تبدیل کرنےکی کوشش کررہا ہے، دنیا کو سمجھنا ہوگا کہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اٹھا تو کیا ہوسکتا ہے، عالمی برادری کو سوچنا چاہیے کہ 2 ایٹمی طاقتوں میں کشیدگی بڑھی تو کیا ہوگا؟ عالمی برادری بھارت پر دباوَ ڈال کربحران ختم کرے، آسام میں 20 لاکھ افراد کو اپنی بھارتی شہریت ثابت کرنے کو کہا جارہا ہے۔ اس کے خلاف بھارتی شہری گلیوں میں نکل آئے ہیں۔ بھارت نے80 لاکھ کشمیریوں کو نظربند کردیا ہے۔ کشمیری عوام گھروں اور رہنما جیلوں میں قید ہیں۔ اب بھارت اس سنگین صورتحال میں ایل او سی پر کشیدگی کو بڑھانا چاہتا ہے اور میزائل نصب کیے گئے ہیں، جو واضح طور پر جنگ کا ماحول بنانے اور خطے کو نئے بحران میں ڈالنے کی کوشش ہے، وزیراعظم اس لیے بھی ملک میں ہی موجود رہنا چاہتے ہیں کہ بھارتی ریشہ دوانیوں کو ناکام بنایا جا سکے۔