ممتاز سہتو اسوقت جماعت اسلامی سندھ کے نائب امیر کی حیثیت سے ذمہ داری سرانجام دے رہے ہیں، زمانہ طالب علمی کے دوران 1982ء سے 1988ء تک وہ اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ رہے، اس دوران وہ جمعیت کی مرکزی شوریٰ کے رکن اور سکھر کے ناظم بھی رہے، بعد ازاں وہ جماعت اسلامی میں فعال ہوئے، خیرپور کے امیر، شباب ملی سندھ کے صدر، حزب المجاہدین سندھ کے آرگنائزر رہ چکے ہیں، وہ جماعت اسلامی سندھ کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری، جنرل سیکرٹری اور پہلے بھی نائب امیر کی ذمہ داریاں سرانجام دے چکے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے مسجد قبا گلبرگ کراچی میں قائم جماعت اسلامی سندھ کے دفتر میں انکے ساتھ مختلف موضوعات کے حوالے سے ایک مختصر نشست کی۔ اس موقع پر ان کیساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ادارہ
اسلام ٹائمز: کارکردگی کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت ناکام نظر آتی ہے یا کامیاب۔؟
ممتاز سہتو: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ کسی کو کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ پی ٹی آئی حکومت ناکام ہوچکی ہے، بلکہ حکومت کو خود ہی اپنی ناکامی نظر آرہی ہے کہ عمران خان نے انتخابی مہم کے کے دوران جتنے بھی دعوے کئے تھے، ان میں کسی ایک میں بھی کامیاب ہوئے ہوں، سوائے ہر جگہ یو ٹرن لینے کے، ان کی کوئی کارکردگی نہیں ہے، ہر غیر جانبدار شخص سمجھتا ہے کہ عمران حکومت ہر شعبے میں ناکام ہوچکی ہے، عمران خان نے ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر دینے کا وعدہ کیا تھا، پچاس لاکھ نوکریاں دے دیں، ایک لاکھ ہی دے دیں، پچاس لاکھ نہ سہی، پچیس لاکھ نہ سہی، ایک ہزار گھر ہی دے دیں، کہتے تھے کہ کشکول اٹھانے، قرض لینے میں شرم محسوس ہوتی ہے، لیکن فخر سے کشکول اٹھائے قرضے لیتے پھر رہے ہیں، کسی بھی محکمے میں آپ چلے جائیں، نہ رشوت خوری کم ہوئی، نہ کرپشن کم ہوئی، غریبوں کو کسی قسم کا ریلیف نہیں ملا، غربت کے مارے عوام خودکشی کر رہی ہے، عمران حکومت تو ماضی کی کرپٹ حکومتوں سے بھی ناکام نظر آتی ہے۔
اسلام ٹائمز: وزیراعظم عمران خان صاحب کیجانب سے معیشت میں بہتری کے دعوے کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
ممتاز سہتو: معیشت کی بہتری کے دعوے تو جب درست نظر آئیں گے کہ جب اس کا مثبت اثر عوام اور مارکیٹ پر نظر آئے، صرف دعوے کرکے آپ اپنے آپ کو تسلی تو دے سکتے ہیں، لیکن مہنگائی کی چکی میں پستی ہوئی عوام کو دھوکہ نہیں دے سکتے، دعویٰ تو جب درست ہوگا کہ جب عوام خود کہے کہ ہاں مہنگائی میں کمی آئی ہے، ہمیں ریلیف مل رہا ہے، درحقیقت صورتحال حکومتی دعووں کے برعکس ہے، عوام یہ کہنے پر مجبور ہے کہ ان سے تو وہ چور اچھے تھے، مختصر یہ کہ کمال تو تب ہوگا کہ خود عوام کہے گی کہ معیشت بہتر ہو رہی ہے، جس کا فائدہ ہمیں پہنچ رہا ہے۔
اسلام ٹائمز: ملک میں جاری احتسابی عمل کو کیسے دیکھتے ہیں، احتساب ہوتا نظر آرہا ہے یا سیاسی انتقام۔؟
ممتاز سہتو: ابھی تک تو یہ ثابت ہوا ہے کہ یہ احتساب نہیں ہو رہا بلکہ احتساب کی آڑ میں مخالفین سے سیاسی انتقام لیا جا رہا ہے، چور کبھی بھی چور کا احتساب نہیں کرسکتا، عمران خان کے ساتھ تمام جماعتوں کا کچرا موجود ہے، پیپلز پارٹی کا کچرا، نواز لیگ کا کچرا، قاف لیگ کا کچرا، ایم کیو ایم کا کچرا بھی تحریک انصاف میں ہے، عمران خان تمام سیاسی جماعتوں کا کچرا جمع کرکے صاف شفاف حکومت کیسے چلا سکتے ہیں، احتساب تو وہ کرسکتا ہے، جس کی ٹیم، جس کے آس پاس، اردگرد، دائیں بائیں صاف شفاف لوگ ہوں، لیکن چور چوروں کا احتساب کبھی بھی نہیں کرسکتا۔
اسلام ٹائمز: اربوں روپے کرپشن کیسز کے باوجود نواز شریف، آصف زرداری و دیگر آج ضمانت پر رہا ہوچکے ہیں، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
ممتاز سہتو: غریب آدمی جیل میں بغیر علاج کے مر جائے، خیر ہے، لیکن جس کے اوپر کہتے ہیں، اربوں روپے کے کرپشن چارجز ہیں، وہ معمولی اسٹامپ پیپر پر ملک سے باہر چلائے جائے، دو ہزار روپے چوری کا ملزم جیل میں سڑ کر مر جائے، نہ اسے کھانے پینے کی سہولت، نہ میڈیکل کی سہولت، نہ سونے کی، تو یہ احتساب تو نہیں ہو رہا، کوئی اسے این آر او کا نام دے رہا ہے تو کوئی کچھ ڈیل یا کچھ اور، ہم اسے حکومت کی ناکامی کہتے ہیں، حکومت کے احتساب کے دعوے میں بھی ناکام ہوچکی ہے۔
اسلام ٹائمز: پی ٹی آئی حکومت اور وزیراعظم عمران خان کا مستقبل کیا نظر آرہا ہے۔؟
ممتاز سہتو: پی ٹی آئی حکومت کے دور میں عوام کے اندر جو مایوسی پھیل چکی ہے، اس کے نتیجے میں سابقہ حکمرانوں کا مستقبل بنتا نظر آرہا ہے، پی ٹی آئی حکومت نے اپنی نااہلی کے باعث انہیں مظلوم بنا دیا ہے، صحیح معنیٰ میں احتساب نہیں کیا، لہٰذا پی ٹی آئی حکومت اپنی نااہلی کے باعث سابقہ حکمرانوں کیلئے دوبارہ راستے بنا رہی ہے۔ جہاں تک حکومتی مستقبل کے حوالے سے آپ کا سوال ہے، ہماری خواہش تو یہی ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنی مدت پوری کرے اور اس دوران عوام کو ریلیف فراہم کرے، جو دعوے وعدے عوام سے کئے تھے، انہیں پورا کرے، جمہوریت کو چلنا چاہیئے، کسی کو اس پر شب خون مارنے کا موقع نہیں دینا چاہیئے۔ البتہ عمران حکومت نے مہنگائی اور بے روزگاری کے ذریعے عوام کی کمر توڑ دی ہے، اس بات کا امکان ہے کہ عوام اٹھ کھڑی ہو، بڑی عوامی تحریک چکے اور عمران خان کو اپنی کرسی چھوڑنی پڑ جائے، عوام جو ردعمل دکھا رہی ہے، اس سے تو نہیں لگتا کہ عمران حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کر پائے۔
اسلام ٹائمز: ملک میں صدارتی نظام کی بازگشت کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
ممتاز سہتو: پہلے مجھے یہ بتائیں کہ ملک میں نظام چل کون سا رہا ہے، کسی کو یہ ہی نہیں پتہ ملک میں نظام چل کونسا رہا ہے، میری ذاتی رائے تو یہ ہے کہ کوئی بھی نظام عملاً چل جائے، آج اگر کوئی صدارتی نظام کی بات کر رہا ہے تو پہلے وہ یہ بتائے کہ ملک میں پارلیمانی نظام چلایا کب ہے، ملک میں پالیمانی نظام اور جمہوریت کو چلنے کب دیا گیا ہے، پاکستان میں جمہوریت کی بنیاد پر صاف شفاف آزاد انتخابات کرائے ہی کب گئے ہیں، نظام وہ ہو جو عوام کی مرضی کے مطابق اسے ریلیف فراہم کرنے والا ہو، سوائے شوشے چھوڑنے کے، سوائے دکھاوا کرنے کے کوئی فائدہ نہیں۔ بہرحال ہمارا موقف یہ ہے ملک میں موجودہ نظام کو چلنے تو دیا جائے اور اس نظام میں جو خرابیاں ہیں، اسے ختم کرنا چاہیئے، اب اس نظام کو چلنا بھی نہ دیا جائے اور پھر دوسرے نظام کے نفاذ کی بات کی جائے، تو یہ درست نہیں، اس میں کبھی ملک و قوم کا مفاد نہیں ہوگا۔
اسلام ٹائمز: جماعت اسلامی اسلام آباد کا رخ کرنے جا رہی ہے، کیا مقاصد ہیں۔؟
ممتاز سہتو: جماعت اسلامی کا ایک نکاتی ایجنڈا ہے اور وہ ہے کشمیر۔ جماعت اسلامی مظلوم و محکوم کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیلئے بائیس دسمبر کو ڈی چوک اسلام آباد پر کشمیر مارچ کر رہی ہے، تاکہ حکمرانوں کو خواب غفلت سے جگا کر ان کو انکی ذمہ داری کا احساس دلایا جا سکے، حکومت کا احساس دلایا جائے کہ مسئلہ کشمیر پر مطالبہ کرنا، مذمت کرنا، بیانات دینا ان کا کام نہیں، بلکہ حکومت کا کام عملی و مؤثر قدامات اٹھانا ہے، ہم حکومت کے اندر احساس بیدار کرنا چاہتے ہیں کہ کشمیر صرف کشمیر نہیں بلکہ پاکستان، حکومت سمجھ نہیں پا رہی کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ حیات ہے، کشمیر کی جنگ پاکستان کی جنگ ہے، کشمیر ہے تو پاکستان ہے، کشمیر کے بغیر پاکستان کا تصور نہیں، آپ اگر سر کاٹ دیں، تو باقی جسم کسی کام کا نہیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، آپ کا سارا پانی کشمیر سے آتا ہے، مسئلہ کشمیر پر حکومت کی جانب سے سمجھوتہ کرنا خودکشی ہوگی، اسی حوالے سے شعور و بیداری کیلئے جماعت اسلامی اسلام آباد کا رخ کر رہی ہے۔
اسلام ٹائمز: بھارت کیجانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے اب تک پی ٹی آئی حکومت کے اقدامات کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
ممتاز سہتو: عمران حکومت نے اپنی پالیسیوں سے اپنے آپ کو مشکوک بنا دیا ہے، کشمیر کے معاملے پر عمران حکومت نے اپنے آپ کو مشکوک بنا دیا ہے، قوم حکومت کی سنجیدہ نہیں سمجھتی، قوم سمجھتی ہے کہ حکمرانوں کی جانب سے کشمیر کے ساتھ غداری کی جا رہی ہے، کشمیر کے سے حکومت بے وفائی کر رہی ہے، حکومت کو یاد رکھنا چاہیئے کہ کشمیر کے ساتھ غداری یا بے وفائی پاکستان کے ساتھ غداری اور بے وفائی ہے۔ عمران خان اپنی ہر تقریر میں کہتے ہیں کہ فوج انکے ساتھ ہے، تو پھر آپ فوج کی کمانڈ کرتے ہوئے آگے بڑھیں، جس طرح بھارت آگے بڑھ سکتا ہے، سارے قوانین اور معاہدے توڑ سکتا ہے، تو عمران حکومت کیوں پابندی کا شکار ہے۔ بھارت اقوام متحدہ اور اس کے معاہدوں کو نہیں مانتا، لہٰذا جب بھارت کیلئے قواعد و ضوابط نہیں ہیں، تو آپ بھی آگے بڑھیں، پیش قدمی کریں، قوم بھی آپ کے پیچھے کھڑی ہوگی۔