مشتاق احمد ایڈووکیٹ نامور وکیل اور جماعت اسلامی گلگت بلتستان کے امیر ہیں، وہ 2015ء کے عام انتخابات کے دوران جی بی کے نگران وزیر قانون بھی رہ چکے ہیں، مشتاق ایڈووکیٹ جماعت اسلامی کیساتھ ساتھ بار تنظیموں کیساتھ بھی متحرک رہے، وہ گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کی تحریک شروع کرنیوالی اہم شخصیات میں شمار ہوتے ہیں، دھیمے مزاج کے حامل مشتاق ایڈووکیٹ نے جماعت اسلامی کو جی بی کیساتھ کشمیر میں بھی فعال بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ حالیہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے پیش نظر چار اکتوبر کو گلگت میں جماعت اسلامی کشمیر بچائو ریلی کا اہتمام کر رہی ہے، جس میں جماعت کے سربراہ سینیٹر سراج الحق سمیت مرکزی قائدین شریک ہونگے۔ اسلام ٹائمز نے مشتاق احمد ایڈووکیٹ سے مقبوضہ کشمیر کی حالیہ صورتحال کے گلگت بلتستان کے تناظر میں اہم گفتگو کی ہے، جو کہ قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔(ادارہ)
اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان کی موجودہ حیثیت کے تناظر میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور چار اکتوبر کو ہونیوالی کشمیر بچاؤ ریلی کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالیے گا۔؟
مشتاق احمد ایڈووکیٹ: دیکھیں ہم مسئلہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے حوالے سے اپنی نئی نسل کو آگاہی نہیں دے پائے ہیں، ہم نئی نسل کو اپنی تاریخ، یہاں کا جغرافیہ اور مسئلے کو صحیح تناظر میں سمجھانے میں ناکام رہے، لیکن جماعت اسلامی ہر دور میں آئینی مسئلے کو جو کہ ہمارا حقیقی مسئلہ ہے، کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کیلئے کوشاں رہی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہماری یوتھ اور سیاسی قیادت الجھی ہوئی ہے، میرے نقطہ نظر سے یہاں لوگوں کی تین کٹیگریز ہیں۔ ایک طبقہ وہ ہے، جن کو کوئی علم نہیں، وہ اصل مسئلے سے لاعلم ہیں اور لاعلمی میں کوشش کر رہے ہیں۔ دوسرا طبقہ وہ ہے، جو جان بوجھ کر مسئلے کو سمجھنا نہیں چاہتے۔ تیسرا طبقہ وہ ہے، جس میں میں خود بھی شامل ہوں، ہم اس مسئلے کو نئی نسل تک پوری کامیابی کے ساتھ منتقل نہیں کر پائے۔ ہم نے جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے ہر دور میں آگاہی دینے کی کوشش کی، اجتماعی سطح پر بھی اور انفرادی سطح پر بھی۔
جب سے آئینی مسئلے پر جدوجہد کا آغاز ہوا، سب سے پہلے وکلاء نے کوشش کی، اس وقت میں بھی وکالت کے شعبے میں نیا نیا داخل ہوا تھا، ہم نے مل بیٹھ کر تمام مسالک کو اکٹھا کرکے اس مسئلے پر غور کیا، یہاں تین نکات زیر غور آئے، ایک نکتہ یہ تھا کہ جی بی کو آئینی صوبہ بنایا جائے، دوسرا کشمیر طرز کے سیٹ اپ کا تھا، تیسرا نکتہ آزادی کا تھا، لیکن سب اس بات پر متفق تھے کہ کشمیر کا مسئلہ حل کیے بغیر پاکستان نامکمل ہے اور گلگت بلتستان کو بھی حقیقی معنوں میں اپنی منزل نہیں مل سکتی، اس لیے سب سے پہلے مسئلہ کشمیر پر فوکس کرنے کی ضرورت ہے۔ کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تو ہمارا دشمن پاکستان کو اتنا مفلوج کریگا کہ ہمارے پنجاب اور سندھ کے سرسبز میدان بنجر صحرا میں تبدیل ہو جائیں گے۔
اسی لیے قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے، کشمیر تو ہمیں ہر صورت چاہیئے، ورنہ ہماری سرحد تو مری تک سکڑ جاتی ہے، آج بھارت نے اس شہ رگ پر پاؤں رکھا ہے، تو کیا ہم اس شہ رگ کو پامال ہوتا دیکھ پائیں گے، کیا پاکستان میں کشمیر کے بغیر استحکام ہو پائے گا، شہ رگ کٹنے کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ اقتصادی طور پر مفلوج ہو جائیں گے، کشمیر کے بغیر آپ ایک طفیلی ریاست تو بن سکتے ہیں، لیکن مستحکم اسلامی ریاست نہیں۔ گلگت بلتستان چونکہ کشمیر کے ساتھ جڑا ہوا ہے، اگر خدا نخواستہ کشمیر ہاتھ سے نکل جائے گا تو پاکستان اپنے سر کو نہیں پچا پائے گا، کیونکہ جی بی پاکستان کا سر ہے، اسی اہمیت و حساسیت کو ہم اجاگر کرنا چاہتے ہیں، ہم عوام کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں، یہ وقت ہے، جب یہ وقت نکل جائے گا تو ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں گے، قوم کو بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ انڈیا کو بھی واضح پیغام دینے کیلئے کشمیر بچائو ریلی کا اہتمام کیا گیا ہے۔
اسلام ٹائمز: موجودہ صورتحال کے تناظر میں مسئلہ کشمیر کے حل میں مدد گار متفقہ بیانیہ کیا ہونا چاہیئے۔؟
مشتاق احمد ایڈووکیٹ: اس وقت مقبوضہ کشمیر میں لوگ روز قربانیاں دے رہے ہیں، شہیدوں کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا جا رہا ہے، یہ ایک واضح پیغام ہے کہ کشمیری عوام انڈیا سے کتنی نفرت کرتے ہیں، ظلم سے کس حد تک تنگ ہیں اور یہ کہ کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ ہیں، یعنی کشمیری عوام حق خودارادیت کیلئے اپنی جانوں کی قربانی پیش کر رہے ہیں، ایک طرف سے یہ ایک بیانیہ ہے۔ دوسرا بیانیہ یہ ہونا چاہیئے کہ ہم کشمیر کی صورتحال کو انسانی حقوق کا ایشو بنا دیں، کیونکہ گذشتہ پنتالیس دنوں سے کشمیر میں ظلم کی ساری حدیں پار ہوگئی ہیں، مسلسل کرفیو ہے، بیماروں کو دوائی نہیں مل رہی، دوائی نہ ملنے سے بہت ساری اموات ہوئی ہیں، ایسے حالات میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔
بھارت نے جس انداز سے ظلم کیا ہے، اس پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بھی یہ کہنے پر مجبور ہوئی ہیں کہ انڈیا اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے اور کشمیریوں کو ان کا حق فراہم کرے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ اس وقت تمام نظریں وزیراعظم پر مرکوز ہیں کہ وہ اقوام متحدہ میں کس طرح اس مسئلے کو اجاگر کرتے ہیں، کیونکہ ساتھ انڈین لابی بھی سرگرم ہے اور وہ اس مسئلے کو دو ملکوں کا مسئلہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش میں ہے، دوسری طرف کشمیریوں کا موقف ہے کہ یہ انڈیا اور پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے، ڈیڑھ کروڑ لوگوں کا مسئلہ ہے، اس پر سب کا اتفاق ہے، میرے خیال میں اس بیانیے کو فوکس کرنے کی ضرورت ہے اور مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کو انسانی حقوق کا مسئلہ بنانے کی ضرورت ہے۔
اسلام ٹائمز: کشمیر کے آر پار کچھ لوگ ( قوم پرست) گریٹر کشمیر کی بات کر رہے ہیں، انکا اصل بیانیہ کیا ہے۔؟
مشتاق احمد ایڈووکیٹ: اس وقت حریت کانفرنس کے اندر قوم پرست بھی ہیں اور پرو پاکستانی بھی، وہاں جو لوگ حریت کو چلاتے ہیں، ان میں مختلف نظریات کے لوگ شامل ہیں۔ اب انہوں نے اپنے آپ کو اکٹھا کیا ہے اور اس بات پر اتفاق کر لیا ہے کہ سب مل کر یو این قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت پر زور دیا جائے، کیونکہ اس قرارداد میں دونوں چیزیں موجود ہیں، پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کا آپشن بھی موجود ہے اور آزاد ریاست کا آپشن بھی ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے اس موقف پر اتفاق کر لیا ہے کہ ہم حق خودارادیت کیلئے ایک پلیٹ فارم بنائیں، کیونکہ اس پر تو سب کا اتفاق ہے، باقی الحاق اور آزاد ریاست تو بعد کی بات ہے، حق خودارادیت میں چونکہ دونوں آپشن موجود ہے اور یو این قراردادیں بھی اس چیز کو واضح کرتی ہیں تو اس نکتے پر سب متفق ہیں اور اس وقت تک یہی مشترکہ بیانیہ ہے۔
اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر کا حصہ کس نے بنایا۔؟
مشتاق احمد ایڈووکیٹ: دیکھیں، یہ ایک تاریخ ہے، ڈوگروں نے ہمارے اس علاقے کو فتح کرکے کشمیر کے ساتھ شامل کیا، اس سے پہلے یہ ایک آزاد خطہ تھا، اس میں ریاست ہنزہ تھا، ریاست گلگت، غذر میں بھی ایک ریاست تھی، گلگت بلتستان مختلف ریاستوں میں تقسیم رہا ہے، لیکن 47ء سے پہلے ڈوگروں نے اس کو فتح کیا، اور اپنی ریاست کے ساتھ ملا دیا، گویا جی بی کی جدید تاریخ ڈوگروں کے ساتھ ملتی ہے۔ جب ہم نے ڈوگروں کو بھگایا تو پندرہ دن تک یہ ایک آزاد ریاست رہا، بعد میں پاکستان سے لوگوں کو بلا کر اس کے حوالے کیا، لیکن اس وقت کی شاہد پاکستانی لیڈرشپ کی پوزیشن بہت کمزور تھی یا نااہلی تھی کہ جس کی وجہ سے یہ خطہ اپنی منزل تک نہ پہنچ سکا، ابتدائی دنوں میں آزاد کشمیر میں بھی ایک انقلابی کونسل بنی تھی، جس میں خورشید اور سردار ابراہیم شامل تھے، پاکستان سے مشتاق گورمانی وزیر بے محکمہ بھی اس میں شامل تھا، جن کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنی، کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ جی بی کا علاقہ چونکہ کشمیر کا فتح کردہ علاقہ ہے، اس لیے یہاں انقلابی حکومت کے قیام کی ذمہ داری پاکستان کو دی گئی۔ بعد میں معاہدہ کراچی کے بعد لٹک گیا، اس کے بعد سے اصل کہانی شروع ہوتی ہے، یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو خصوصی حیثیت تھی، وہ کیوں نہیں بحال ہوئی، جس طرح کشمیر کی خصوصی حیثیت ہے، اسی طرح جی بی کی کیوں نہیں۔؟
کشمیر میں ریاستی باشندوں کے علاوہ کسی اور کو جائیداد بنانے کی اجازت نہیں ہوتی، وہاں سٹیٹ سبجیکٹ رول نافذ ہے جبکہ جی بی میں یہ رول موجود نہیں، سٹیٹ سبجیکٹ رول کی تاریخ یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں کسی نے بھی اس رول کا مطالبہ ہی نہیں کیا، تمام پاکستانی قوانین یہاں لاگو ہوئے، ایک سٹیٹ سبجیکٹ کا قانون کیوں لاگو نہیں ہوا، مجھے کوئی بھی تاریخ دان بتا دے کہ یہ قانون پہلے لاگو تھا، بعد میں اٹھایا گیا، ایسا نہیں ہے، یہ لاگو ہی نہیں ہوا، پھر یہ کہ کسی نے مطالبہ ہی نہیں کیا، اب جا کر لوگوں کو سمجھ آنے لگی ہے، کیونکہ پہلے تو لوگ کہتے تھے کہ ہم پاکستان کا حصہ ہیں، چلو جو وہاں سے حکمران بن کر آتے ہیں، ان کے ماتحت چلنا ہے، جب بعد میں اصل حقیقت کا علم ہوا تو لوگوں کی آنکھیں کھل گئیں، ہمیں پتہ چلا کہ ہم تو کسی اور مسئلے سے جڑے ہوئے ہیں، اس لیے یہاں کا سپیشل سٹیٹس بحال ہونا ضروری ہے۔ میں یہاں بالکل نئی بات کر رہا ہوں کہ یہاں ایس ایس آر نافذ ہی نہیں تھا، یہ قانون آیا ہی نہیں، اس لیے اب ہم کہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کا حصہ ہونے کے ناتے ہماری خصوصی حیثیت بحال ہونی چاہیئے اور سٹیٹ سبجیکٹ رول کو یہاں لاگو کرنا چاہیئے۔
اسلام ٹائمز: تو کیا اب ایس ایس آر کی بحالی ممکن بھی ہے۔؟
مشتاق احمد ایڈووکیٹ: ہاں یہ بہت ہی آسان ہے، یہ مجھ اور آپ پر منحصر ہے، سوال یہ ہے کہ ہم اور آپ کب متفق ہو جاتے ہیں، میرا رخ مشرق کی طرف ہو اور آپ کا مغرب کی طرف ہو، ہم خود نہ چاہ رہے ہوں تو کوئی امکان ہی نہیں، کیونکہ ہم پر حکومت کرنے والی اسٹیبلشمنٹ بھی کہے گی کہ ٹھیک ہے، یہ لوگ خود نہیں چاہتے، ہم کیا کریں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ اور ہم مل جائیں تو یہ قانون آج ہی نافذ ہوسکتا ہے۔
اسلام ٹائمز: جماعت اسلامی پاکستان کی ایک منظم اور جمہوری پارٹی ہے، ملک بھر میں آپکی جماعت کا سیٹ اپ بہت مضبوط ہے، سٹریٹ پاور بھی ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ جسطرح آپ کامیاب جلسے کرتے ہیں، اسی طرح الیکشن میں کبھی اتنی کامیابی نہیں ملتی۔؟
مشتاق احمد ایڈووکیٹ: پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ہمیں بہت سی چیزیں نظر آتی ہیں، جب آپ پہلے نعرہ لگائیں کہ ہم سرمایہ داروں سے چھین لیں گے، جاگیرداروں سے چھین لیں گے، تلخ حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دار آپ کی جماعت کے اندر موجود ہیں، ان کے بغیر آپ جماعت نہیں چلا سکتے، ان سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے اپنے ٹھیکے ہیں، وہ سیٹیں اپنے ٹھیکوں سے لیتے ہیں، ستر سال سے یہی ہو رہا ہے، اس کو توڑنے کیلئے جماعت اسلامی جدوجہد کر رہی ہے، کوئی ایک بھی سرمایہ دار آپ بتا دیں کہ جماعت اسلامی کے اندر ہے اور اس کی وجہ سے جماعت نے پالیسی تبدیل کی ہو، کوئی ایک بھی جاگیر دار بتا دیں، جس کی جاگیرداری جماعت اسلامی میں چلتی رہی ہو، اسی کو توڑنے کی ہم پورے عزم کے ساتھ جدوجہد کر رہے ہیں، جب اللہ کو منظور ہوگا، ہم کامیاب ہوں گے، اس وقت قوم کو معلوم ہوگا کہ قوم کے اصل نمائندے کون ہیں۔ یہاں پاکستان میں انقلاب لانے والے کون ہیں؟ یہ جعلی قیادتیں آتی رہیں گی اور اسی طرح لوگوں کو سبز خواب دکھاتی رہیں گی، جب تک ہم اس سبز خواب کے اسیر ہوتے رہیں گے، ہماری منزل دور ہوتی جائے گی۔
اسلام ٹائمز: جی بی میں الیکشن نزدیک ہے، جماعت اسلامی کی کیا تیاری ہے۔؟
مشتا ق ایڈووکیٹ: ان شاء اللہ ہم اس دفعہ تھوڑا سا نیا کرکے دکھائیں گے، ہنزہ میں سیٹ اپ بن چکا ہے، ہنزہ سے ہمارا نمائندہ ہوگا اور نگر سے بھی ہوگا، غذر سے بھی امیدوار سامنے لائیں گے، بلتستان میں بھی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ وہاں ایک چھوٹا سا سیٹ اپ پہلے ہی موجود ہے، ہر ضلع میں جماعت کا سیٹ اپ موجود ہے، اگر لوگ سچی قیادت چاہتے ہیں تو اس دفعہ لوگوں کو اصل قیادت دینگے، اگر وہ وہی سراب کے پیچھے جانا چاہتے ہیں تو ان کی مرضی ہے۔
اسلام ٹائمز: کسی جماعت کیساتھ انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسمنٹ کا بھی کوئی امکان ہے۔؟
مشتاق احمد ایڈووکیٹ: پہلی کوشش یہ ہے کہ ہم اپنے بل بوتے پر کھڑے ہوں، اگر کوئی ہم خیال، کوئی اچھا فرد تعاون کرنا چاہتا ہے تو ہم ان کے ساتھ تعاون کرینگے۔ یہی سیاست ہے، سیاست میں اس طرح کی چیزیں چلتی رہتی ہیں۔