پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے جنرل سیکرٹری چوہدری منظور احمد سیاسی و قومی امور پر پارٹی کے مضبوط وکیل اور ابلاغ عامہ کے ماہر لیڈر ہیں۔ موجودہ سیاسی صورتحال، مسلسل بنتی بدلتی حکومتی پالیسیوں، پارٹی لیڈرشپ کی گرفتاریوں، قصور کے واقعات اور اپوزیشن کے ممکنہ احتجاج سمیت ایم ایشوز پر اسلام ٹائمز کیساتھ انکا مختصر انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)
اسلام ٹائمز: مولانا فضل الرحمان کیساتھ نون لیگ بھی اسلام آباد کو بند کرنے جا رہی ہے، اگر وہ 15 لاکھ لوگ لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، جس سے حکومت جا بھی سکتی ہے، احتجاج سے الگ رہنے کیوجہ کیا پیپلز پارٹی ایک دفعہ پھر سیاسی طور پیچھے نہیں رہ جائیگی۔؟
چوہدری منظور احمد: ہمارا موقف اس پہ بڑا واضح ہے، جب متحدہ اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس ہوئی تھی، اس وقت بھی ہم نے واضح کر دیا تھا، مولانا فضل الرحمان صاحب کیساتھ ملاقاتوں میں بھی یہ بات ہو چکی ہے کہ ہمارے دو تحفظات ہیں، ایک تو سیاست کو مذہب کی بنیاد پہ نہیں چلنا چاہیے، یہ ملک، قوم، سیاست اور معاشرے کیلئے مضر ثابت ہوگا، پہلے ہی معاشرہ تقسیم کا شکار ہے، تو مذہب کی بنیاد پہ جب سیاسی مقاصد حاصل کرینگے تو فرقہ واریت کا دروازہ کھل جائیگا، یہ پاکستان کیلئے بہت زیادہ خطرناک ہوگا، ہم کئی دہائیوں سے اس عذاب کو جھیل رہے ہیں، اسی سے شدت پسندی اور دہشت گردی نے جنم لیا ہے، دوسرا ہمارا مسئلہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کو ڈیل ریل کرنیکی تحریکوں کی بجائے جمہوریت کو بحال کرنیوالی کوششوں کے حامی ہیں، 77ء سے لیکر اب تک جمہوریت کیخلاف جو تحریکیں چلی ہیں، ان میں سب سے زیادہ نقصان پی پی پی کا ہوا ہے، اسکا جو نقصان ملک، سماج کو ہوتا ہے، وہ سیاسی جماعت کو بھی ہوتا ہے، جمہوری نظام کی جڑیں کھوکھلی ہو جاتی ہیں۔ یہ بات ہم مولانا صاحب کیساتھ بھی ڈسکس کرتے ہیں، وہ اپنا موقف دیتے ہیں۔
اسلام ٹائمز: اس سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ آپ موجودہ حکومت کی حمایت کرینگے۔؟
چوہدری منظور احمد: نہ ہمارا اصولی موقف یہ ہے کہ ہم جمہوری طریقے سے جلسے کرینگے، جلوس نکالیں گے، ایوان کے اندر بات کرینگے، میڈیا کے ذریعے حکومت پر اعتراض کرینگے، استعفیٰ بھی مانگیں گے، لاک ڈاؤن یا شہروں کو بند کرنیکی بجائے جو طریقے ہیں رائے عامہ کو ہموار کرنیکے ہیں، وہ اختیار کرینگے۔ ایسے اقدامات جن سے جمہوریت ڈی ریل ہو سکتی ہے، ان کے حق میں ہم نہیں ہیں۔ کل جب پی ٹی آئی آئی تھی، مولانا طاہر القادری کیساتھ، اس وقت بھی ہم دھرنا کامیاب نہیں ہونے دیا تھا، جمہوری حکومت کو بچانے کیلئے کھڑے رہے، ہم نے اس وقت بھی کہا تھا کہ آپ کے مطالبات درست ہیں، آپ کا موقف بھی ٹھیک ہو سکتا ہے، لیکن یہ طریقہ کار ملک کیلئے ٹھیک نہیں، اسی طرح مولانا فضل الرحمان کیساتھ بھی ہمارا یہی اختلاف ہے، انکے موقف اور مطالبے کے ہم حامی ہیں، لیکن یہ لاک ڈاؤن اور دھرنوں کا طریقہ کار جمہوریت کیلئے نقصان دہ ہے۔
اسلام ٹائمز: کیا ماضی کیطرح اب بھی اپنا سیاسی نقصان کرنیکی پالیسی اختیار کی جا رہی ہے۔؟
چوہدری منظور احمد: ہاں یہ درست ہے کہ ہم نے نون لیگ کی حکومت کیخلاف جو پی ٹی آئی کا دھرنا تھا، اسکی مخالفت کی وجہ سے پنجاب میں بالخصوص ہمارا سیاسی نقصان ہوا، ہمارے ورکر ناراض ہوئے کہ اپنے مستقل سیاسی حریف مسلم لیگ نون کو نہیں بچایا جانا چاہیے، اب بھی پی ٹی آئی کی حکومت حق حکمرانی کھو چکی ہے، یہ ہمارا موقف ہے، لیکن اس کے خلاف احتجاج جمہوری انداز میں ہونا چاہیے، جس کے لیے کسی طور پر بھی مذہب کا سہارا نہیں لیا جانا چاہیے۔ اس پالیسی سے پہلے بھی ہمارا نقصان ہوا اب ہو سکتا ہے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس سے ملک کا فائدہ ہوا، ہم نہیں سمجھتے کہ ایک سیاسی پارٹی کو اپنے فائدے کیلئے کوئی ایسا طریقہ کار اپنانا چاہیے جس سے ملک کا نقصان ہو یا جمہوریت کمزور ہو، یا آمریت کی راہ ہموار ہو، ہماری نظر میں وہ راستہ جو مشکل ہو سکتا ہے، طویل بھی ہو سکتا ہے، اقتدار کی کرسی بھی اس سے دور ہو سکتی ہے، لیکن ملک اور جمہوریت کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔
اسلام ٹائمز: گرفتاریوں کا دور جاری ہے، پارٹی دباؤ میں ہے، لیڈرشپ جیل میں ہے تو کسی قسم کی تحریک کیسے چلائیں گے۔؟
چوہدری منظور احمد: گرفتاریاں پہلی دفعہ نہیں ہو رہی ہیں، ہم ان کے عادی ہیں، افسوس صرف یہ ہے کہ کوئی الزام ثابت نہیں ہو رہا، صرف سیاسی رہنماؤں کی تذلیل کی جا رہی ہے، جو ملک کیلئے خوش آئند ہے۔ ماحول خراب ہو رہا ہے، جس سے پاکستان کے امیج پر بھی منفی اثرات پڑ رہے ہیں، انتقامی سیاست اور بدلے کی آگ نے پاکستان کی سیاست اور ریاست کا وقار مجروع کیا ہے۔ پہلے جھوٹے الزامات لگاتے ہیں، پھر گرفتاریاں ہو جاتی ہیں، پھر اسی کی بنیاد پہ پروپیگنڈہ شروع ہوجاتا ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت ان غیر قانونی اور اخلاق سے عاری اقدامات کے ذریعے ناکامی اور نااہلی کو چھپانا چاہتی ہے، یہ ایک طرح کی بلیک میلنگ ہے، دوسرا ہمیں اشتعال دلانے کی کوشش کی جا رہی ہے، کہ یہ لوگ ری ایکشن میں غیر جمہوری طرزعمل کا مظاہرہ کریں، لیکن ہم اسکی نوبت نہیں آنے دینگے، کوئی کمزوری نہیں دکھائیں گے، نہ جھکیں گے۔
اس جمہوریت کیلئے خون قربان کر چکے ہیں، نابالغ سیاسی قیادت کو پاکستان پر مسلط کر کے ملک کی جڑیں کھوکھلی جا رہی ہیں۔ حقیقی نمائندہ سیاسی قیادت کو پابند سلاسل رکھ کر عوامی مینڈیٹ کو پائمال کیا جا رہا ہے، جس سے نہ صرف چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی بڑھ رہا ہے، ہمارا موقف یہ ہے کہ 71ء کی تاریخ دہرانے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن ملک کی تقسیم اور ٹکڑے کرنیوالوں کو منہ کی کھانی پڑیگی۔ یہ اقدامات سندھ حکومت کو کمزور کرنے کے کیے جا رہے ہیں، یہ کوشش پہلے بھی کی جا چکی ہے، لیکن جس طرح سوائے شرمندگی اور حسرت کے انہیں کچھ نہیں ملا، یہ اب بھی نامراد رہیں گے، پہلے انہوں نے کراچی میں کچرے کا شوشہ چھوڑا، گورنر راج لگانے کی کوشش کی، ایک وزیر نے اعلان کیا کہ وہ کراچی فتح کرنے جا رہے ہیں، گئے بھی، لیکن ان کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔
اب گرفتاریوں کا ہتھکنڈہ آزمایا جا رہا ہے، جب ہمارے اراکین اسمبلی کو توڑنے اور فارورڈ بلاک کی ترکیبیں کامیاب نہیں ہوئیں تو انتہائی اقدام کے ذریعے پریشر میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن احتجاج کی نوبت آئی تو عوام سڑکوں پر آئیں گے، ان کا بستر گول کر دیں گے۔ ملک کو بچانے کے لئے آخری حد تک جائیں گے۔ جو لوگ نیب کے ذریعے سندھ پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں سندھ کے عوام ایسا ہونے ہر گز نہیں دیں گے۔ ہمارا پیغام یہ ہے کہ سندھ کو فتح کرنے کے خواب دیکھنے کی بجائے مقبوضہ کشمیر کی آزادی پر توجہ دی جائے۔
اسلام ٹائمز: سیاسی جوڑ توڑ تو ہمیشہ جاری رہتا ہے، لیکن احتساب کا عمل خود جمہوریت کی روح اور جمہوری اقدار کی تقویت کیلئے لازمی ہے، پھر احتجاج کی بجائے، عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کیوں نہیں کیا جاتا۔؟
چوہدری منظور احمد: ہم تو بڑی بہادری سے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں، آج تمام مکتبہ فکر آصف علی زرداری کے اس بیانیہ سے اتفاق کر رہے ہیں کہ نیب اور معیشت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ احتساب ڈرامہ تباہ حال معیشت سے توجہ ہٹانے کے لئے ہے۔ عوام بیروزگاری اور مہنگائی کے عذاب میں مبتلا ہیں اور حکمرانوں کی کسی بات کی کوئی فکر ہی نہیں ہے۔ کٹھ پتلی حکومت صرف ٹی وی ڈبوں تک محدود ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب اپنی ساکھ کھو چکا ہے اور وہ صرف سیاسی انجینئرنگ کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ سلیکٹڈ وزیراعظم نے اپنی جھوٹی انا،سیاسی مخاصمت اور تعصب کی وجہ سے انتقام کا بازار گرم کرکے قوم کا ایک سال ضائع کر دیا ہے۔ لیکن انہوں نے ملک کا جو حال کر دیا ہے، اس سے کشمیر کے مسئلے پر بھی پاکستان کے موقف میں کمزوری آ جائیگی۔
اسلام ٹائمز: وزیراعظم عالمی برادری بالخصوص امریکہ سے ثالثی کی امید پہ نیویارک گئے ہیں، سفارتی کامیابیوں کیلئے اپوزیشن کو بھی حکومت کا ساتھ دینا چاہیئے۔؟
چوہدری منظور احمد: عالمی برادری کو کشمیر کی سنگین صورتحال سے آگاہ کرنا، کشمیریوں کی حالت زار پوری دنیا کو دکھانے کی ضرورت تو ہے، لیکن یہ کام فقط ٹوئٹر پہ بیٹھ کر نہیں ہو سکتا، پاکستان کی تاریخ میں تین دن کے مختصر وقت میں وزیراعظم نے چودہ ممالک کا دورہ بھی کیا ہے، ایک طرف ہنگامی صورتحال ہے دوسری طرف فون پہ بات کر کے دنیا کو بھارت کیخلاف اقدام پر آمادہ کرنیکی کوشش کی جا رہی ہے، یہ تو سنجیدگی کا عالم ہے، انہیں کوئی احساس ہی نہیں، ایک خواب عمران خان نے وزرات عظمیٰ تک پہنچ کے پورا کیا، دوسرا انکا خواب دنیا میں نام کمانا تھا، پچھلے دورہ امریکہ کو انہوں نے اسی لیے ورلڈ کپ جیتنے جیسی کامیابی قرار دیا، حالانکہ اس کے بعد پاکستان کا جو نقصان ہوا ہے، وہ پاکستان تاریخ میں نہیں ہوا۔
دنیا میں عمران خان کے علاوہ شاید ہی کوئی حکمران ہو جسے مودی اور ٹرمپ پر اس قدر اعتماد ہو، کشمیر پاکستان کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، کیونکہ کمشیر پاکستان کی نظریاتی شہ رگ ہے۔ ہماری آنکھیں کھولنے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ بھارتی فوج نے کمشیر میں ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے، 45 دن ہوگئے ہیں کہ کرفیو کا سلسلہ جاری ہے، مگر نہ اسلامی دنیا اور نہ ہی مغربی دنیا کی طرف سے کرفیو کے خاتمے کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے۔ جب اسلامی دنیا ہی خاموش ہے، تو سوچنا چاہیے کہ ہم غلطی کہاں کر رہے ہیں، جو بھی ہو، یہ مسئلہ ہمارا ہے، اسے کشمیریوں کو رضا مندی اور مرضی کے مطابق ہونا چاہیے، ہماری سمت اور قومی پالیسی یہ ہونی چاہیے۔
اس کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جا رہے، ہر گذرتے دن کیساتھ کشمیری بھائی اور بہنیں ہم سے مایوس ہو رہے ہیں، اگر امریکی ایجنڈے کے مطابق کشمیر کو تقسیم کر دیا گیا تو یہ ہمارے لیے بھی سانحہ ہوگا اور ایک نیا سانحہ مشرقی پاکستان واقع ہوگا، سیاسی جماعتوں نے اپنی جگہ پر یکجہتی دکھانے کی پوری کوشش کی ہے، اس میں حکومت رکاوٹ ہے، جہاں تک ثالثی کی بات ہے، یہ ایک حساس معاملہ ہے، اس سے پہلے ملک کے اندر اتفاق رائے ضروری ہے، ثالثی کیسی ہوگی، کس طرح ہو گی، خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ جیسے مودی نے جو چال پہلے چلی ہے، ہم کسی ایسے ہی بھیانک اقدام کا شکار نہ ہو جائیں۔
اسلام ٹائمز: ایک طرف پیپلز پارٹی حکومت کی سخت مخالف بھی ہے، دوسری طرف این آر او اور ڈیل کی خبریں بھی چل رہی ہیں، کیا مشرف کی باقیات کو بھی مفاہمت کا موقع دیا جائیگا۔؟
چوہدری منظور احمد: یہ کیسے ممکن ہے کہ لیڈر بھی ہماری پارٹی کے گرفتار ہو رہے ہیں اور ڈیل بھی ہم کر رہے ہیں، اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے ڈیل کی آفر ہوئی تو بھی پیپلزپارٹی ایسا نہیں کرے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کے حالات ہر شعبے میں گھمبیر ہیں اور عوام باہر نکلنے کو تیار ہے اگر سیاسی قیادت آگے نہ آئی تو انارکی پھیلی گی۔ جہاں تک مفاہمت کی بات ہے، مسائل کے حل کے لیے اتفاق رائے ضروری ہے، ماضی میں جب اپوزیشن نے حکومت کیساتھ چلنے کی کوشش کی تو این آر او کا طعنہ دیا گیا۔ یہ واضح ہے کہ اسیر قیادت این آر او یا ڈیل کرنا ہی نہیں چاہتی، یہ کیسے ممکن ہے کہ سالوں جیل کاٹنے کے بعد بھی اصولوں پر سودے بازی کر لیں۔ اب ان افواہوں کو دم توڑ جانا چاہیے کیوں کہ ن لیگ اب مشکل وقت گزر چکا۔ کیا ملک کے حالات ایسے ہیں کہ حکومت کو گھر بھیج دیا جائے؟ ، بالکل ہیں یہ حکومت14 ماہ اپنے وعدے پورے نہیں کر سکی۔ اس پارٹی نے معیشت کے شعبوں میں کارکردگی دکھانی تھی، لیکن کسی وزارت پر عوام کا منتخب کردہ نمائندہ نہیں بیٹھا۔ جہاں تک اس ماحول میں مفاہمت کی بات ہے، اس پر احتساب کا یکطرفہ پن غالب آ چکا ہے، یکساں احتساب ہونا چاہیے اور نیب کو الزامات ثابت بھی کرنے چاہیں۔
اسلام ٹائمز: پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال نہایت مخدوش ہے، قصور میں متعدد واقعات سامنے آرہے ہیں، حکومت کی ناکامی ظاہر ہے، لیکن یہ معاشرے کی مجموعی ذمہ داری بھی ہے، اسکا تدارک کیسے ممکن ہے۔؟
چوہدری منظور احمد: یہ ایک واقعہ بھی افسوسناک اور ناقابل برداشت ہونا چاہیے، لیکن کپتان کا وسیم اکرم پلس اگر پنجاب میں موجود رہیگا تو رہی سہی کسر بھی نکل جائیگی، قصور میں ہونے والے افسوسناک واقعہ کے بعد پورے ضلع کی حالت تبدیل ہو چکی ہے ، اور حکومت بچوں اور عوام کی حفاظت کرنے میں بالکل ناکام رہی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں بچوں کے ساتھ زیادتی اور اس کے بعد قتل کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے جبکہ حکومت کی جانب سے اس حوالے سے مثبت اقدام عمل میں نہیں لائے جا رہے جبکہ زیادہ تر واقعات کا تعلق پنجاب سے ہے۔ حکومت اس حوالے سے اقدامات عمل میں لائیں اور واقعات میں ملوث افراد کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔
2016ء میں قصور میں ہونے والے واقعہ کی تلخ یاد ابی باقی ہے، لوگ ماضی کو بھولے نہیں اور اب ضرورت ہے کہ بچوں کے تحفظ کیلئے ایک مضبوط نظام وجود میں لایا جائے، لیکن بدقسمتی سے باقی انسانی حقوق کی طرح اس موضوع پر بھی سست روی اور تاخیر کے ساتھ کام لیا جارہا ہے۔ ہمارے نظام کئی رکاوٹیں اور خامیاں موجود ہیں، جنہیں دور کرنیکی ضرورت ہے، اس طرح کے واقعات میں اکثر پولیس کی جانب سے تعاون نہیں کیا جاتا اور نہ ہی مجرم کے خلاف کوئی سخت کارروائی کی جاتی ہے، مقدمے کا اخراج آج کل بہت ہی عام ہو گیا ہے اور اس کے ایک وجہ کمزور تفتیشی عمل بھی ہے، جبکہ شواہد کا نہ ملنا اور سائنٹیفیک اپروچ نہ ہونے کی وجہ سے بھی مقدمات متاثر ہوتے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں اضافے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ متاثرہ خاندان کو وقت پرانصاف نہیں ملتا۔
جبکہ اس حوالے سے پولیس ریفارمز کے علاوہ سوشل ریفارمز کی بھی ضرورت ہے تاکہ برا وقت آنے سے پہلے ہی اپنے بچوں کو محفوظ کیا جا سکے۔ مدینے کی ریاست کی بات کرنیوالوں کو کوئی شرم اور ملال نہیں ہے، ورنہ یہ غیر انسانی واقعات روکنے کیلئے اس پہلی ترجیح پہ رکھتے، دراصل یہ بنیادی انسانی حقوق کی بات ہے، جسکا موجودہ حکمرانوں سے کوئی تعلق نہیں، اب تو اعلیٰ عدلیہ نے بھی اس کی نشاندہی کر دی ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کو روندا جا رہا ہے، ملک، معاشرے اور سیاست کیلئے نقصان کا باعث ہے، نہیں معلوم ہماری آنکھیں کب کھلیں گی، کب ہم سوچیں گے، اور آگے بڑھ کر ان غیر انسانی واقعات کو روکیں گے۔