پی ٹی آئی پنجاب کے رہنماء، خوشاب سے قومی اسمبلی کے رکن اور قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے ممبر ملک محمد احسان اللہ ٹوانہ کیساتھ موجودہ حکومت کی ایک سالہ کارکردگی، مسئلہ کشمیر پر حکومت کی فعالیت، سفارتی، سیاسی کوششیں اور خطے میں جنگ کے منڈلاتے بادلوں کیوجہ سے پیدا ہونیوالے سنگین صورتحال سمیت اہم ایشوز پر انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)
اسلام ٹائمز: حکومت نے ایک سال میں جو وعدے اور دعوے کیے انکا ایک حصہ بھی پورا نہیں ہوسکا، کیا عوام میں پائی جانیوالی اس مایوسی کا احساس پی ٹی آئی میں بھی پایا جاتا ہے۔؟
ملک احسان ٹوانہ: اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ ملک کی معیشت نہ پہلے ٹھیک تھی اور نہ اب ٹھیک ہے۔ کشمیر کی صورتحال بھی اس وقت انتہائی نازک ہے۔ لیکن ان حالات میں عمران خان کی وجہ سے بیرونی امداد ملی اور غیر ملکی دوروں کے دوران عمران خان کو بہت عزت ملی ہے۔ حزب اختلاف حکومت کو کمزور کرنا چاہتی ہے اور موجودہ ملک کی نازک صورتحال کے باوجود وہ ملک کو مزید کمزور کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، جس میں حزب اختلاف کو بری طرح ناکامی ہوئی ہے۔ ایک بات ہم اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے معیشت کی درستگی کے لیے درست سمت کا تعین کیا، ہمارے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے کہ ایک دن میں ملک کی معیشت کو بہتر کر دیں، اس میں وقت لگے گا۔ سابق حکمرانوں نے ملک کو تباہ کیا اور آمدن سے زائد اخراجات کیے اور تمام ٹیکس مشینری کو تباہ کر دیا۔
ہم نے آتے ہی ایف بی آر کے تمام افسران کو تبدیل کر دیا ہے اور ہم نے جو اہداف دیئے ہیں، اس پر پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارے ملک کو معیشت کے چیلنجز اور سکیورٹی کی صورتحال کا سامنا تھا جبکہ کشمیر کی صورتحال ملک کو انتہائی نازک صورتحال پر لے آئی۔ اس وقت معیشت کو درست کرنا ایک حکومت کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس میں آرمی سمیت سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، کیونکہ معیشت خراب ہوگی تو سکیورٹی کی صورتحال بھی خراب ہوگی۔ ان دونوں کا ایک دوسرے سے براہ راست تعلق ہے۔ سنگین ترین صورتحال کے باوجود امپورٹس کی کمی کی وجہ سے خسارہ کم ہوا ہے۔ حکومت کو معاشی میدان میں ابھی بہت کام کرنا ہے کہ معیشت سست روی کا شکار ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کی پہلی ذمہ داری ہے کہ سرمایہ کاری کے حوالے سے اچھا ماحول بنائے۔ ہمیں اپنی معاشی سرگرمیاں بڑھانے کے لیے ابھی بہت کام کرنا ہوگا۔ عام آدمی مشکل میں ہے اور اسے اب تک کوئی ریلیف نہیں ملا ہے۔
اسلام ٹائمز: کشمیر کی سنگین صورتحال سے ہر پاکستانی فکر مند ہے، لیکن وزیراعظم نے سوائے ملک میں بیٹھ کر بیانات دینے کے کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا، کیا کشمیر کا مسئلہ زیادہ سنجیدگی کا متقاضی نہیں۔؟
ملک احسان ٹوانہ: یہ درست ہے کہ دنیا کو خطے میں موجود مسائل کے حل کیلیے کردار ادا کرنا چاہیئے، لیکن اس کا دار و مدار پاکستان پر ہی ہے، دنیا کی ذمہ داری بعد میں ہے، اسی طرح یہ مسئلہ صرف حکومت کا نہیں پورے ملک کا ہے، ہر پاکستانی کا ہے، یہی ہماری کوشش ہے، جس طرح آج کشمیریوں کو ہماری ضرورت ہے، اسی طرح پاکستان کو انکی حمایت کیلئے قومی یکجہتی کی ضرورت ہے، جس کے لیے عمران خان قوم کو مسلسل اعتماد میں لے رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج سارا پاکستان کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے، کشمیری بہت مشکل وقت سے گزر رہے ہیں، 80 لاکھ کشمیری 4 ہفتے سے کرفیو کے باعث بند ہیں، بھارتی حکومت انسانوں پر ظلم کر رہی ہے۔ وزیراعظم جناب عمران خان کی کال پر عوام نے جس طرح کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی کیا، وہ یقیناً قابل فخر ہے۔ لوگوں نے عملی طور پر ثابت کیا کہ ان کے دل اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ بھارتی استبداد سے آزادی تک ان کی ہر طرح سے حمایت اور ان کے موقف کی تائید کرتے رہیں گے۔
قوم نے کشمیر آور بھرپور طور پر منا کر عالمی برادری کو یہ احساس دلایا ہے کہ کشمیر کے مسئلے سے صرفِ نظر کرنا مسائل کو بڑھانے کا باعث بنے گا۔ اس لیے عالمی برادری کو اپنی خاموشی توڑنا ہوگی اور مودی حکومت کی جانب سے ایک متنازع علاقے کو بھارتی یونین کا جبراً حصہ بنانے کے ناجائز اور بین الاقوامی قوانین کے منافی اقدام کی مذمت کرنا ہوگی۔ علاوہ ازیں اس فیصلے کو واپس لینے اور مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق تلاش کرنے کے معاملے پر بھارتی حکومت کو سفارتی دباؤ میں بھی لانا ہوگا۔ پاکستانی عوام نے کشمیری عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرکے اقوام عالم کو یہ باور کرایا ہے کہ اگر انہوں نے کشمیر کے معاملے پر خاموشی قائم رکھی تو جارحیت کا یہ سلسلہ طویل تر ہو جائے گا اور اس طرح پوری دنیا میں امن خطرے میں پڑ جائے گا۔ احتجاجی واکس کے ذریعے یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی کہ نریندر مودی کے کشمیر کے حوالے سے حالیہ اقدامات پر دنیا کے بڑے ممالک اگر اسی طرح مہر بلب رہے تو یہ خطہ بلکہ پوری دنیا ایٹمی جنگ کے دھانے پر پہنچ جائے گی۔
کیونکہ بھارت کی جانب سے کسی بھی نوعیت کی جارحیت کا مظاہرہ کیا گیا تو پاکستان خاموش نہیں بیٹھے گا اور جیسا کہ جناب وزیراعظم نے واضح کیا ہے کہ کسی بھی بھارتی ایڈونچر کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ مقبوضہ کشمیر میں حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب سے خراب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ وہاں کرفیو نافذ ہوئے چار ہفتے مکمل ہونے کو ہیں۔ کشمیری عوام مسلسل محصور ہیں۔ ان کے پاس کھانے کو کچھ باقی نہیں بچا۔ ادویات اور دوسری سہولتوں کی بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔ علاوہ ازیں بھارتی فوج کی جانب سے کشمیر میں انسانی حقوق کی شدید ترین خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں۔ جو کشمیری بھارتی فوج کے ہاتھ لگتے ہیں، انہیں انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ اس رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔
جس میں بتایا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے مظلوم کشمیریوں کی نسل کشی اور بڑھتے ہوئے احتجاج کو کچلنے کے لیے سری نگر میں بنکرز قائم کر دیئے ہیں اور بلند عمارتوں پر شوٹرز تعینات کر دیئے ہیں۔ پیلٹ گنوں کا بھی بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے سینکڑوں افراد متاثر ہوئے ہیں۔ یہ صورتحال جاری رہی تو مقبوضہ کشمیر میں ایک بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ ایسی کسی صورتحال سے بچنے کے لیے عالمی برادری کو اپنی خاموشی توڑنا ہوگی۔ پاکستانی قوم گذشتہ روز یہی پیغام دینے کے لیے گھروں سے باہر نکلی تھی۔ تاریخی اور اصولی طور پر یہ طے ہے کہ مقبوضہ کشمیر صرف بھارت کا معاملہ نہیں، کشمیریوں کی ستر سال سے جاری جدوجہد آزادی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے لے کر پاک بھارت ڈائیلاگ کے ہر فورم کی کارروائی اس حقیقت کا ثبوت ہے، چنانچہ ناگزیر ہے کہ عالمی طاقتیں اثر و رسوخ استعمال کریں اور مذاکرات کیلئے بھارت پر زور دیں، تاکہ حل طلب معاملات کا قابل قبول حل تلاش کیا جا سکے۔
اسلام ٹائمز: کیا حکومت کیجانب سے کشمیر آور منا لینے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ کشمیریوں کے زخموں پر مرہم رکھ دیا ہے اور وہ مندمل ہو جائیگا۔؟
ملک احسان ٹوانہ: آل پارٹیز حریت کانفرنس کے بزرگ چیئرمین جناب سید علی گیلانی نے پاکستان سے مدد کی اپیل کی تھی۔ اس اپیل کے جواب میں وزیراعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کشمیر آور کا اعلان کیا اور ساتھ ہی دنیا پر واضح کیا کہ کوئی کشمیریوں کا ساتھ دے نہ دے پاکستانی قوم آخری حد تک اہل کشمیر کے ساتھ کھڑی رہے گی۔ ہم کشمیر کی آزادی تک کشمیریوں کے ساتھ کھڑے رہیں گے، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کچھ قابل فہم اور بعض ناقابل فہم وجوہات کی بنا پر موجودہ عالمی نظام پسماندہ اقوام اور مسلم ممالک کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ دنیا میں سیاسی، سفارتی اور معاشی و تکنیکی امور پر جتنی تنظیمیں ہیں، لگ بھگ سب کی پالیسی چھ سات ممالک بناتے ہیں۔ ان طاقتور ممالک کی حکومتیں اس وقت تک کوئی حکمت عملی کارگر نہیں بنا سکتیں، جب تک ان کی نجی دفاعی صنعت اور مالیاتی ماہرین اس کو قبول نہ کریں۔ یوں عالمی قوتوں کی دلچسپی چند کاروباری اداروں کے مفادات تک محدود رہ جاتی ہے۔
اقوام متحدہ اور بے شمار تنظیمیں انسانی حقوق کے تحفظ، انسانی بھائی چارے اور محروم معاشروں کی ترقی کے لئے کام کر رہی ہیں۔ ان تنظیموں اور اداروں کو کام کرنے کے لئے فنڈز یہی طاقتور کاروباری گروپ فراہم کرتے ہیں۔ اپنی ساکھ بچانے کے لئے یہ ادارے اگرچہ دنیا میں جس جگہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو بلا امتیاز آواز بلند کرتے ہیں، مگر ان کی تشویش پر کارروائی بہرحال جن قوتوں کو کرنا ہے، وہ گونگی بہری بن جاتی ہیں۔ اس کا ثبوت اقوام متحدہ کی گذشتہ ایک سال میں جاری کی گئی دو رپورٹس ہیں، جن میں بھارتی فوج کو مقبوضہ کشمیر میں ظلم کرنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مرتکب قرار دیا گیا۔ ایسی ہی ایک رپورٹ امریکہ نے جاری کی اور بھارت کو مذہبی امتیاز اور مذہبی بنیاد پر عدم برداشت والے ملکوں میں سرفہرست قرار دیا۔ دنیا یہ مانتی ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ ان بین الاقوامی رپورٹس کے بعد سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کو بھارت کے اقدامات کا نوٹس لیتے ہوئے تنازع کشمیر پر کھلی بحث کرانا چاہیئے تھی۔
مگر مساوی اور منصفانہ عالمی نظام کی محافظ ہونے کی دعویدار یہ قوتیں چار ہفتوں سے کرفیو میں سانس لیتے کشمیریوں کو اپنے مفادات میں تول رہی ہیں۔ پاکستان اور اہل کشمیر کا جینا مرنا ایک ہے۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، جبکہ پاکستان کشمیریوں کا وکیل ہے۔ صدیوں سے جغرافیائی، معاشی اور مذہبی رشتوں نے پاکستان کے لوگوں کو کشمیر سے جوڑ رکھا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ تنازع کشمیر کو پرامن طریقے سے طے کرنے کی بات کی۔ تاریخی طور پر کشمیر کا تنازع انگریز راج کی بدانتظامی یا ہندو نواز پالیسی کے طفیل پیدا ہوا۔ جمہوریت کا مطلب اکثریت کے فیصلے کا احترام ہوتا ہے۔ ساری دنیا جمہوریت اور جمہوری اصولوں کا راگ الاپتی ہے مگر فلسطین کی طرح اہل کشمیر کی اس رائے کو نظر انداز کیا جا رہا ہے کہ وہ آزادی چاہتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کشمیر کی وجہ سے چار جنگیں لڑ چکے ہیں۔ آئے روز لائن آف کنٹرول پر دونوں طرف جانی نقصان ہو رہا ہے۔
پاکستان نے عالمی برادری، بھارت کے دوست ممالک اور بین الاقوامی اداروں سے مداخلت کی اپیل کی، تاکہ ہفتوں سے بنیادی ضروریات سے محروم کشمیریوں کی مدد کی جا سکے۔ اب تک عالمی ضمیر اس سلسلے میں سویا دکھائی دیتا ہے۔ پاکستانی قوم نے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لئے امن کا راستہ اختیار کیا۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ تنازعات کا حل ہمیشہ مذاکرات اور بات چیت سے نکلتا ہے۔ جنگیں تنازعات کو طے کرنے کی بجائے سنگین بنانے کا کام کرتی ہیں، اہل کشمیر اپنا حال فلسطین کے مظلوم عوام جیسا ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے نہ ہی پاکستان کبھی انہیں تنہا اور لاوارث چھوڑے گا۔ پاکستان ایک ایک کرکے ہر دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے، ہر اس پلیٹ فارم سے رجوع کر رہا ہے، جو اہل کشمیر کو مدد فراہم کرسکے، لیکن معاملات متواتر سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ عالمی برادری کا ضمیر بیدار نہ ہوا اور پاکستان کی جانب سے معاملے کو مذاکرات سے طے کرنے کا جو راستہ تجویز کیا گیا، اسے نہ اختیار کیا گیا تو آخری انتخاب جنگ ہوسکتا ہے۔ وزیراعظم جب پاک فوج کے تیار ہونے کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ پاکستانی قوم اور فوج کشمیریوں کی مدد کے لئے ہر صورت حال کے لئے تیار ہیں۔
اسلام ٹائمز: انڈیا تو ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا، ہر طرف جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں، اس دوران وزیر خارجہ نے بھارت کیساتھ بات کرنیکا عندیہ کیوں دیا، جبکہ عمران خان مذاکرات نہ کرنیکا اعلان کرچکے ہیں۔؟
ملک احسان ٹوانہ: سفارت کاری کا کام ہی یہی ہے، دنیا کو جنگ سے بچانے اور گریز کی کوشش کرنا، مذاکرات کی مشروط پیشکش کرکے موجودہ تلخ حالات میں پاکستان نے بھارت پر ایک اور برتری حاصل کر لی ہے۔ مذاکرات نہ کرنیکا اعلان اسی لیے کیا تھا کہ بھارت موجودہ اقدامات واپس لے، اب بھی بات چیت شروع کرنیکے لیے یہی شرائط ہیں کہ اگر مقبوضہ کشمیر سے کرفیو ہٹا دیا جائے، کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق بحال کر دیئے جائیں، قیدیوں کو رہائی دی جائے اور مقبوضہ کشمیر کی قیادت کی رائے معلوم کرنے کے لیے پاکستانی قیادت کو کشمیری کی قیادت سے ملاقات کرنے دی جائے تو پاک بھارت مذاکرات ہوسکتے ہیں۔ پہلے کی طرح اب بھی پاکستان کو مذاکرات پر کوئی اعتراض نہیں، یہ مذاکرات براہ راست بھی ہوسکتے ہیں اور اس حوالے سے کسی تیسرے ملک کی ثالثی کا بھی خیر مقدم کیا جائے گا۔
باوجودہ صورتحال میں پاکستان کی جانب سے بھارت کی جانب جو زیتون کی شاخ بڑھائی گئی ہے، اس کی اپنی اہمیت ہے۔ نریندر مودی کے رویئے کی وجہ سے اگرچہ اس کی امید بہت کم ہے کہ نئی دہلی میں پاکستان کی اس پیشکش کا حقیقت پسندی سے جائزہ لے کر مثبت جواب دیا جائے گا، تاہم پاکستان کی جانب سے مذاکرات کی مشروط پہل اس لحاظ سے بر محل ہے کہ اس طرح دنیا پر یہ واضح ہو جائے گا کہ جنوبی ایشیاء کے خطے کو جنگی جنون سے تباہی کی جانب دھکیلنے والا بھارت ہے، جبکہ پاکستان نے ہمیشہ امن اور صلح کی بات کی ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں پاکستان کی جانب سے بھارت کو مذاکرات کی یہ کوئی پہلی دعوت نہیں، وزیراعظم عمران خان جب سے اقتدار میں آئے ہیں، بھارت کو پاکستان کی جانب سے بار بار امن کے پیغامات بھیجے جاتے رہے ہیں، متعدد بار یہ کہا گیا کہ آئیے آپس کے مسائل باہمی طور پر بات چیت سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تاکہ اس پورے خطے، خصوصی طور پر برصغیر میں پائیدار امن قائم ہو، ایسا پائیدار امن جو دونوں ملکوں اور ان کے عوام کے لیے ترقی کی راہ ہموار کرے، مگر بدقسمتی سے ان میں سے کوئی پیش کش بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی اور اس کی وجہ بھارت کی اکڑ بازی ہے۔ رواں سال کے آغاز میں جب دونوں ملکوں میں عملی طور پر جنگ تقریباً چھڑ چکی تھی، عمران خان اُس وقت بھی مودی کو خبردار کر رہے تھے، یہ کریڈٹ وزیراعظم عمران خان کو بہرحال ضرور جاتا ہے کہ دو جوہری طاقتوں کی جنگ کو آخری دموں پر انہوں نے روکنے میں پوری ذمہ داری اور بصیرت کا مظاہرہ کیا، جبکہ تباہی کے لامتناہی سلسلے کی راہ ہموار کرنے میں بھارت کی متعصب قیادت نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ دنیا پاکستان کے معاملے میں چاہے جس قدر عصبیت کا مظاہرہ کیوں نہ کرے۔
مگر دنیا کے اس حصے میں امن بحال اور برقرار رکھنے میں پاکستانی کی کوششوں سے انکار کوئی نہیں کرسکتا۔ افغانستان ہی کو دیکھ لیں، جہاں ہمارے مغربی کرم فرماؤں کو بڑی دیر بعد احساس ہو رہا ہے کہ پاکستان امن بحال کرنے میں معاونت کر رہا ہے۔ تلخ ترین حالات کے باوجود پاکستان کی جانب سے بھارت کو مذاکرات کی مشروط کی پیشکش اصل میں امن کو ایک موقع دینے کے مترادف ہے، ورنہ یہ کسی کمزوری کی وجہ سے نہیں ہے۔ مگر اندیشہ یہ ہے کہ بھارتی حکومت جس کوتاہ اندیش تعصب کی گرفت میں ہے، وہ اسے اس پیشکش کا مثبت جواب دینے سے روکے گا۔ مگر اس کے سنگین نتائج کا اندیشہ ہے اور ان نتائج سے بچنے کے لیے خطے کی اور دنیا بھر کی نمائندہ قوتوں اور عالمی اداروں کو مؤثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
اسلام ٹائمز: کیا مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پہ عالمی برادری کی خاموشی سے افغان امن عمل متاثر ہوسکتا ہے۔؟
ملک احسان ٹوانہ: عالمی ذرائع ابلاغ میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کو افغان امن عمل کی راہ میں ممکنہ رکاوٹ کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ یہ بہت حد تک درست ہے، کیونکہ پاکستان کئی دہائیوں سے افغانستان میں بھارتی کردار پر تشویش ظاہر کرتا آرہا ہے، اب کشمیر کی تازہ صورتحال ہمیں ہمسایہ ملک سے مزید عدم اعتماد کا شکار کر دے گی۔ پاکستان، افغان طالبان سے امریکی مذاکرات میں اہم کردار ادا کر رہا ہے، لیکن مقبوضہ کشمیر کا تازہ معاملہ پاکستان کی توجہ افغانستان سے ہٹانے کا موجب بن سکتا ہے۔ دوحہ میں طالبان اور امریکہ کے مذاکرات کا نواں دور مکمل ہوچکا ہے۔ لیکن افغانستان میں قیام امن سے بھارت کو اپنی امیدوں پر اوس پڑتی نظر آتی ہے۔ جیسے جیسے طالبان اور امریکہ کی گفت و شنید آگے بڑھتی جا رہی تھی اور اس میں پاکستان کا مثبت کردار عالمی طاقتوں کو پاکستان کا مرہون احسان بنا رہا تھا۔
نئی دہلی میں صدمے کی کیفیت شدت اختیار کرتی جا رہی تھی۔ بھارت افغانستان کو پاکستان مخالف تخریب کاریوں کیلئے اڈے کے طور پر استعمال کرتا چلا آرہا ہے۔ اس مقصد سے پچھلی کئی دہائیوں میں بھارت نے افغان حکومتوں پر بڑی سرمایہ کاری کی، تاہم امریکہ اور افغان طالبان کے مذاکرات میں کامیابی اور افغان سرزمین پر قیام امن سے بھارت کیلئے افغانستان میں تخریب کارانہ منصوبہ بندی کے ٹھکانے باقی نہ رہتے، چنانچہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ناجائز مداخلت کے تازہ واقعات کے پیچھے مودی سرکار کی یہ شاطرانہ نیت بھی کارفرما ہے کہ افغان امن عمل کی پیش رفت میں رکاوٹ پیدا کی جائے۔ پاکستان کی جانب سے اس پر زور دینے کی ضرورت ہے، تاکہ امریکہ پر یہ صورتحال اور اس کے اثرات مزید واضح ہو کر سامنے آجائیں۔
افغانستان سے پُرامن انخلا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا انتخابی ایجنڈا ہے اور افغانستان سے مناسب شرائط پر افواج کا انخلا اگلی مدتِ صدارت کی انتخابی مہم میں ڈونلڈ ٹرمپ ایک کارنامے کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں، جبکہ نریندر مودی اس میں بڑی رکاوٹ ڈالتا نظر آرہا ہے، حال ہی میں کانگرس کی ہاؤس سب کمیٹی برائے ایشیا کے چیئرمین بریڈ شیرمان نے اعلان کیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی اندوہناک صورتحال پر سماعت کریں گے۔ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ ہم امریکی قیادت کو باور کروائیں کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم اور خطۂ کشمیر کی صورتحال اور اس کے اثرات خطے کے امن پر کس طرح اثرا نداز ہو رہے ہیں۔