معروف اہلسنت رہنماء علامہ سید عقیل انجم جمعیت علمائے پاکستان (نورانی) کراچی کے صدر ہیں، اس سے قبل آپ جے یو پی سندھ کے صدر کی حیثیت سے ذمہ داری سرانجام دے رہے تھے، کراچی کی حساس صورتحال کے پیش نظر آپ کو دوبارہ کراچی کی صدارت کی ذمہ داری سپرد کی گئی ہے۔ زمانہ طالبعلمی میں آپ انجمن طلباءاسلام پاکستان کے مرکزی صدر بھی رہ چکے ہیں۔ آپ جے یو پی (نورانی) کی فعال ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ آپ ملی یکجہتی کونسل سندھ کے مصالحتی کمیشن کے اہم رکن ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے علامہ سید عقیل انجم قادری کے ساتھ مسئلہ کشمیر اور حالیہ بھارتی اقدام کے حوالے سے کراچی میں انکی رہائش گاہ پر ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر آپ سے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ
اسلام ٹائمز: مسئلہ کشمیر سے متعلق حالیہ بھارتی اقدام اور اس پر امت مسلمہ کا مجموعی رویہ کیا نظر آتا ہے۔؟
علامہ سید عقیل انجم قادری: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ ہم ایک مسلمان کی حیثیت سے سوچتے اور تفکر کرتے ہیں، اسی انداز سے عملی اقدامات بھی اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن دنیا کے دیگر ممالک اپنی خارجہ پالیسی اپنے معاشی و ذاتی مفادات کو پیش نظر رکھ کر بناتے ہیں، دنیا بھر کے حکمرانوں کے سوچنے اور عمل کرنے کا انداز مفادات کی سیاست ہے، مسئلہ کشمیر میں سب سے بڑی مجرم خود ریاست پاکستان ہے کہ ستر سال گزرنے کے باوجود اقوام عالم اور اقوام اسلام میں کشمیر کا مقدمہ درست انداز میں نہیں لڑ سکے، جبکہ مظلوم کشمیری عوام قربیانیاں دیتے چلے آرہے ہیں، اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔ پاکستان میں کشمیر کمیٹیاں سیاسی رشوت کے طور پر اسلامی نظریاتی کونسل کی طرح بنتی رہی ہیں اور ان کی سربراہی جن لوگوں نے بھی کیں، انہوں نے سہولیات سے استفادہ تو کیا، لیکن دنیا کے سامنے مسئلہ کشمیر کی حساسیت اور مقدمے کو پیش نہیں کر سکے، یہ تمام لوگ بھی مجرم ہیں
دنیا کے نام نہاد مسلم و عرب حکمران جو مسئلہ کشمیر میں مظلوم کشمیریوں اور پاکستان کے ساتھ نہیں کھڑے ہیں، اس کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ ہم اپنا مقدمہ صحیح طور پر نہیں لڑ سکے اور دوسری دجہ یہ ہے ان نام نہاد مسلم ممالک کے اپنے مفادات ہیں، جس کی وجہ سے وہ مسئلہ کشمیر پر سرد مہری کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں، اس موقع پر میں ایران اور ترکی جنہوں نے کھل کر مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف کی کھل کر حمایت کی ہے، ان کو بھی خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں، کیونکہ اسی رویئے کی ضرورت تھی، ہمارا اسلامی ممالک کا ایک چھوٹا سا بھی بائیکاٹ بھارت کی عقل کو ٹھکانے لگا سکتا ہے۔
اسلام ٹائمز: ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مودی سرکار مسلم اکثریتی علاقے پر سے دباو¿ ختم کرے، پاکستان اور بھارت کو الجھائے رکھنے کیلئے برطانیہ نے جان بوجھ کر مسئلہ کشمیر کو حل نہیں کیا، اس بیان کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں۔؟
علامہ سید عقیل انجم قادری: ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای ایک مدبر اور دور اندیش شخصیت ہیں، ان کا تاریخ، اسلامی تعلیمات اور عصری سیاست پر بہت گہری نگاہ ہے، ان کے سوچنے کا انداز بھی ایک مدبر مسلم لیڈر جیسا ہے، انہوں نے اس حقیقت کا اظہار کیا کہ بنیادی طور پر مسئلہ کشمیر کو پیدا ہی اس لئے کیا تھا کہ یہ دونوں ممالک کے درمیان کشمکش کا باعث بنے، آیت اللہ خامنہ ای کا بیان ہمارے اور مظلوم کشمیریوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے مترادف ہے، انہوں نے اس بیماری کے پیدا ہونے کا صحیح تجزیہ کیا اور مظلوم کشمیریوں کی ہے، یہ بہت اہمیت کی حامل ہے۔
اسلام ٹائمز: آپ نے نام نہاد مسلم ممالک کی جانب سے معاشی مفادات کے پیش نظر کے تحت مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈالنے کا ذکر کیا، ایرانی پارلیمنٹ میں معاشی بحران اور بھارت سے اچھے تعلقات کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کے خلاف قرارداد کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ سید عقیل انجم قادری: یہ انتہائی قابل تحسین ہے کہ ایرانی پارلیمنٹ نے اپنے ملکی مفادات اور بھارت کے ساتھ اپنے بہترین سیاسی و سفارتی تعلقات کے باوجود بھارت کے خلاف اور مظلوم کشمیریوں کے حق میں قرارداد منظور کی ہے، مزہ جب آئے کہ جب قرارداد پر عمل درآمد بھی ہوگا، یہ انتہائی شرم کا مقام ہے ان ممالک اور حکمرانوں کیلئے جو اپنے آپ کو مسلم لیڈر کہتے ہیں اور عالم اسلام کی قیادت کے دعویدار ہیں، وہ عرب ہونے کے ناتے اپنے آپ کو عام مسلمانوں سے بالاتر بھی سمجھتے ہیں، عجمیوں کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں، ان ممالک اور حکمرانوں کیلئے یہ انتہائی شرم کا مقام ہے کہ وہ ابھی تک یا تو غیر جانبدار ہیں یا ان کا جھکاؤ مکمل طور پر یا کافی حد تک بھارت کی جانب ہے، جس کے پیچھے سیاسی سے زیادہ معاشی مفادات ہیں۔
اسلام ٹائمز: ایک طرف کشمیریوں پر مظالم ہو رہے ہیں دوسری جانب متحدہ عرب امارات کیجانب سے بھارتی وزیراعظم مودی کو بلایا جاتا ہے اور اسے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ دیا جاتا ہے، کیا کہیں کہ ایک اہم عرب ملک کے اس اقدام پر۔؟
علامہ سید عقیل انجم قادری: اس سے پہلے مودی کو اعلیٰ ترین سویلین اعزاز سعودی عرب نے دیا تھا، کیا اس وقت مودی احمد آباد میں مسلمانوں کا قتل مشہو رنہیںتھا، کیا وہ شیو سینا کا رکن نہیں تھا، کیا وہ فاشسٹ جماعت اور اس کے نظریات کا علمبردار نہیں تھا، ان تمام حقائق کے باوجود سعودی عرب نے یہ کام کیا، لہٰذا اس اعزاز دینے والے معاملے میں پیش قدمی تو سعودی عرب کی طرف سے ہوئی، اب یہ جو متحدہ عرب امارات کی جانب سے مودی کو اعلیٰ ترین سول اعزاز دیا گیا ہے، اسی حوالے سے اقبال نے کہا تھا کہ
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں! جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
ان مسلم اور عرب حکمرانوں پر تو ہمیں شرم آتی ہے، ان کا ظاہر تو مسلمانوں جیسا ہے، لیکن ان کی سوچ، فکر، طرز عمل امت مسلمہ سے میل نہیں کھاتا، یہ تو تاجر ہیں اور اپنے اقتدار کو دوام دینا چاہتے ہیں۔
اسلام ٹائمز: کیا یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی نہیں ہے۔؟
علامہ سید عقیل انجم قادری: یہ تو میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں، پاکستان میں تو عرصہ دراز سے وزیر خارجہ ہی نہیں ہوتا تھا، پاکستان میں کچھ خارجہ پالیسی سول حکومت بناتی ہے اور کچھ خارجہ پالیسی کچھ ممالک کے بارے میں دیگر ریاستی ادارے بناتے ہیں، اسی دوہری پالیسی کی وجہ سے مجھے تو پاکستان کی خارجہ پالیسی ہر جگہ پر ناکام ہی نظر آتی ہے، پاکستان کا عالم اسلام میں لیڈرشپ جو قائدانہ کردار تھا، وہ ملک میں قیادت کے فقدان کے باعث اب پاکستان کے پاس نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم ستر سالوں میں مسئلہ کشمیر کو دنیا کے سامنے صحیح طور پر پیش نہیں کر سکے۔
اسلام ٹائمز: کیا جا رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر پر بھارتی اقدام کے پیچھے امریکا اور اسرائیل ہیں۔؟
علامہ سید عقیل انجم قادری: عرصہ دراز سے یہ بات مشہور ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی مشیر اور فوجی فعال ہیں، حزب اللہ اور حماس کے مقابلے میں جو اسرائیلی پالیسی میکرز ہیں، اس قسم کے تجربہ کار افراد مقبوضہ کشمیر میں بھیجے گئے ہیں، جو پالیسی بناتے ہیں کہ کیسے مسلمانوں اور مزاحمت کاروں سے نمٹا جائے، ایٹمی اسلامی ملک پاکستان کو مسائل میں الجھائے رکھنا اسرائیل اور امریکا کی پالیسی کا حصہ ہے، سی پیک کو ناکام بنانے، چین کے کردار کو محدود کرنے کیلئے بھارت کو علاقے کا تھانیدار امریکا بنانا چاہتا ہے۔
اسلام ٹائمز: مسئلہ کشمیر کا حل کیا پیش کرینگے۔؟
علامہ سید عقیل انجم قادری: جس جگہ گولیاں چل رہی ہو، کرفیو لگا ہو، فوجی بوٹوں کے ذریعے انسانی جذبات، احساسات اور آوازوں کو، انسانی حقوق کو سلب کرلیا گیا ہو، وہاں ٹیبل ٹاک سے کام نہیں چلتا، کہا جاتا ہے کہ مسئلہ کشمیر مزاکرات سے ہی حل ہوگا، میں سمجھتا ہوں مسئلہ کشمیر کا حل محض مزاکرات سے حل نہیں ہو سکتا، ٹھیک ہے ایک مہذب قوم کی حیثیت سے ہمیں مظلوم کشمیریوں کی اخلاقی، سیاسی، سفارتی، معاشی حمایت کرنی چاہیئے، لیکن مجھے تو مسئلہ کشمیر کا حل جہاد فی سبیل اللہ میں ہی نظر آتا ہے اور یہ سویلین جہاد فی سبیل اللہ ہی نہیں ہونا چاہیئے، یہ حکومتی جہاد ہونا چاہئے، یہی اس مسئلے کا حل ہے۔