تحریر: ارشاد حسین ناصر
اس میں کسی کو شک و شبہ نہیں رہنا چاہیئے کہ اس ملک، اس ملت اور جہان اسلام کیلئے اگر کسی سے خطرہ ہے تو وہ تکفیریت ہے۔ تکفیریت ہی اصل میں وہ عنصر ہے، جو اصل کی جگہ نقل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اصل جہاد و مزاحمت کرنے والوں کی بجائے تکفیری عناصر و گروہ سامنے لائے جاتے ہیں۔ یہ عالمی اسلام دشمن قوتوں کے ایجنٹس ہر ملک اور مکتب میں موجود ہیں اور ان کے ذریعے عالمی استعمار مختلف اوقات میں اپنے بھیانک مقاصد حاصل کرنے کی کوششوں میں رہا ہے۔ حالیہ اسلامی تاریخ میں ان کو داعش کی شکل میں اور شام و عراق میں دیگر مختلف ناموں سے بڑے کر و فر سے منظم کیا گیا تھا۔ شام و عراق کی سلامتی اور ان تکفیریوں کو شکست فاش دینے کیلئے جمہوری اسلامی، مقاومت لبنان، مقاومت عراق و یمن نے بھرپور قربانیاں دیں اور اپنی سرزمینوں کو ان سے محفوظ بنایا اور ان کے ہاتھوں یرغمال اپنے عوام کو ان سے گلو خلاصی کروائی۔
مگر یہ مختلف ادوار میں کچھ نہ کچھ اپنے وجود کا اظہار کرتے رہے۔ اس لیے کہ ان کی پس پردہ قوتوں نے انہیں کسی نا کسی شکل میں بچا کر رکھا ہوا تھا۔ اگرچہ یہ جہلاء کے گروہ باہمی لڑائیوں میں اپنے سینکڑوں لوگوں کر مروا چکے ہیں، مگر پھر انہیں کسی نا کسی انداز میں ہانکنے والے ایک مقصد، ایک نام یعنی جمہوری اسلامی ایران پر جمع کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ جیسے شام کا ایشو ہے، اسرائیل کو لبنان میں بدترین شکست اور مقاصد کے حصول میں بری طرح کی ناکامی کے بعد ایک بار پھر شام جو لبنان و فلسطین کا اصل مددگار ہے، اس کو سزا دینے کیلئے انہیں بھرپور وسائل کیساتھ سامنے لایا گیا ہے۔ شام کا محاذ ایسے وقت میں گرم کیا جا رہا ہے، جب لبنان سے شکست خوردگی کی خفت اٹھا کر اسرائیل دنیا کے سامنے اپنی ذلالت کا تماشا بن چکا ہے اور اپنے لاکھوں آبادکاروں کو واپس بھیجنے اور شمال اسرائیل میں دوبارہ آباد کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد کروانے میں سخت مسائل سے دوچار دکھائی دیتا ہے۔
میرے ذاتی خیال میں لبنان کے محاذ کی وجہ سے پاکستان میں پاراچنار کے حالات کو بھی خراب کیا گیا ہے۔ پاراچنار کے لوگ جری و بہادر ہیں اور لڑنے کا ہنر انہیں وراثت میں ملا ہوا ہے۔ یہ اپنے علاقوں کی حفاظت و سلامتی کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتے اور اپنے خلاف عالمی سازش گروں کو ہمیشہ شرمندہ کرتے آئے ہیں۔ ان کے بارے میں عمومی خیال ہے کہ یہاں کے بہت سے لوگ شام میں مقاومت شام کا فعال حصہ یعنی زینبیون میں سب سے زیادہ حصہ دار ہیں۔ یہ لوگ بی بی زینب بنت علی ؑ کے مزار کی حفاظت کیلئے موجود تھے، چونکہ داعش و ہم فکر دیگر گروہوں نے بہت سے عرب ممالک سے یہ اعلانات کیلئے تھے کہ ہم ان روضوں بشمول امام حسین، امام علی علیھم السلام کو زمین بوس کر دینگے۔ یہ باتیں ہوا میں نہیں کی جا رہیں بلکہ ریکارڈ پر موجود ہیں۔
ان اعلانات کے بعد پوری دنیا سے محبان اہلبیت میں شدید غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی تھی اور جوانوں نے حرمین ہائے مقدس کے دفاع کیلئے خود کو رضاکارانہ طور پر حفاظتی ٹیموں میں شامل ہونے کیلئے روابط کئے تو یہ زینبیون گروہ، خمینیون، حسینیوں، فاطمیون جیسے نام سامنے آئے۔ ان گروہوں نے فقط شام میں اپنا کردار ادا کیا یا عراق میں موجود رہے۔ ان لوگوں نے کبھی بھی اپنے ممالک میں جہاد اور نفاذ اسلام یا انقلاب لانے کی بات نہیں کی، نا ہی کسی دوسرے مکتب کے لوگوں کے قتل و مقاتلہ کا سلسلہ شروع کیا، جبکہ ان کے مقابل القاعدہ سے لیکر ازبک، تاجک، ایغور، طالبان، ترکستانی گروہوں نے نا فقط شام و عراق میں ظلم و بربریت کی تاریخیں رقم کیں، بلکہ اپنے ممالک میں بھی اپنا اسلام نافذ کرنے کے اعلانات کیے۔اپنے مکتبہ فکر کے علاوہ دیگر مکاتیب اسلام کو کافر و زندیق قرار دے کر انہیں بم دھماکوں، خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ جیسے حملوں کا شکار کیا۔ اس میں پاکستان و افغانستان سرفہرست دکھائی دیتے ہیں۔
ان دونوں ہمسایہ ممالک میں داعش و طالبان گروہوں نے ہزاروں بے گناہوں کو خون میں لت پت کیا ہے، ان کے اعمال اور کارروائیوں سے مساجد محفوظ رہیں نا مدارس، مجالس نشانہ بنیں تو اسکولز و تربیت گاہیں، ان کے ہاتھوں علماء محفوظ رہے نا ہی اساتذہ۔ ان لوگوں نے اغوا برائے تاوان کو کاروبار بنایا اور بے گناہوں کے گلے کاٹ کر خوف و ہراس پھیلا کر اپنی دہشت و وحشت قائم کی، تاکہ لوگ ان کے خوف سے ڈر کر ان کا ساتھ دیں۔ سوچنے والوں کو تھوڑا سوچنا چاہیئے کہ آخر ازبکستان والے نام نہاد مجاہدین کا شام میں کیا مفاد ہے کہ یہ لوگ جدید ترین اسلحہ اٹھا کر شامی حکومت کے خلاف سامنے آرہے ہیں۔ تاجکوں کا شام کے بشار الاسد نے کیا بگاڑا ہے کہ یہ ہزاروں میل، کئی دوسرے ممالک کو بلا رکاوٹ عبور کرکے شام کے ان علاقوں میں پہنچے ہوئے ہیں، جہاں خود اہل شام کا پہنچنا ممکن نہیں، جبکہ یہ لوگ جدید ترین اسلحہ و ساز و سامان، گاڑیوں اور کروزروں سے لیس ہیں۔ ان کو یہ وسائل کس نے دیئے ہیں۔ کون ان کو سپانسرڈ کر رہا ہے۔ کون انہیں ان کے ممالک سے اٹھا کر لا رہا ہے۔ اگر اسے اسلام کا درد و غم ہے، مسلمانوں کا درد ہے تو یہ ایک سال سے زیادہ اہل غزہ کی مقاومت اور جہاد میں کہاں گم تھے۔؟
پاراچنار کے اہل تشیع قبائل کے ساتھ ہر طرف سے ظلم ہو رہا ہے، ان کے مدمقابل بھی ایسے ہی تکفیری عناصر کو منظم کیا گیا ہے۔ افغانستان کی حکومت جو خود کو تکفیری عناصر بالخصوص طالبان کی پاکستان میں کارروائیوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے اور پاکستانی سکیورٹی ادارے و حمایتی لوگ ان کی کرم میں قتل و غارت میں شرکت کی نفی کرتے ہیں۔ انہیں داعش کی دھمکیوں، خوارج گروہ تحریک طالبان کی دھمکیوں اور افغانستان کی باڑ کاٹ کر پاکستان میں داخل ہونے کی ویڈیوز دکھائی نہیں دیتیں؟ حقیقت یہی ہے کہ شام کیساتھ پاکستان کو بھی ایک بار پھر ان تکفیری عناصر کے ذریعے آگ و خون میں دھکیلنے کی سازش ہوچکی ہے۔ پاراچنار کے لوگ تو یہ برداشت کر جائیں گے، اس لیے کہ انہوں نے ہمیشہ ہی ایسے مسائل کا سامنا کیا ہے اور ذہنی طور پر اس کیلئے ہمہ وقت تیار بھی رہتے ہیں۔ کیا ہمارا ملک اس تکفیریت، اس زہر کے اثرات کو سہنے اور ان سے نمٹنے کیلئے تیار ہے۔؟ کیا ہماری اسی ہزار قربانیاں کافی نہیں کہ ایک بار پھر ملک کو مقتل گاہ بنانے والوں کو سوچنا چاہیئے کہ یہ کھیل آخر کب تک یونہی چلتا رہیگا۔؟ اس کھیل کو اب بند ہو جانا چاہیئے، عالمی قوتوں کے اپنے مقاصد ہیں، جن کا حصہ بننے کی بجائے امت کے مشترکہ مفادات کے حصول میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔