رپورٹ: سید عدیل زیدی
ڈیرہ اسماعیل خان ایک طویل عرصہ سے دہشتگردی کا شکار رہا ہے، جس میں ایک مخصوص مکتب فکر اہل تشیع کو منظم سازش کے تحت کے قتل و غارت گری کا نشانہ بنایا گیا، جس میں ٹارگٹ کلنگ کے ساتھ ساتھ بم دھماکے اور خودکش حملے بھی کئے گئے۔ اس قسم کا ایک اندوہناک واقعہ آج سے 12 سال قبل دس محرم الحرام یوم عاشورہ کو پیش آیا، جس میں تقریباً 10 عزاداران مظلوم کربلا شہید ہوگئے جبکہ 130 کے قریب زخمی ہوئے تھے۔ 25 نومبر 2012ء بمطابق 10 محرم الحرام یوم عاشور کا مرکزی جلوس کمشنری بازار میں گلی محلہ مجاہد نگر کے قریب تقریباً 10 بج کر 30 منٹ پر گزر رہا تھا کہ ایک دکان کے شیٹر میں نصب بم زوردار دھماکہ سے پھٹ گیا، اس سانحہ میں بشیر حسین، صفدر عباس، والدین کا اکلوتا معصوم بچہ حسن مجتبیٰ، معظم علی اور ذوالقرنین حیدر بھی شہید ہوئے، یہ دھماکہ اس وقت ہوا، جب چاہ سید منور شاہ کا مرکزی جلوس گزرا اور بستی ڈیوالہ کا جلوس گلی کے قریب پہنچا۔
اس واقعہ کا مقدمہ تھانہ سٹی میں درج کیا گیا، درج شدہ ایف آئی آر کے مطابق یوم عاشور کا جلوس مسگراں بازار میں کمشنری بازار پہنچا تو تقریباً 10 بج کر 30 منٹ کمشنری بازار میں گلی محلہ مجاہد نگر کے قریب تو دھماکا ہوا، جس میں 122 افراد سمیت ایف سی کے 3 اہلکار بھی زخمی ہوئے۔ مقامی صحافی سید توقیر زیدی کے مطابق پولیس اور سکیورٹی اداروں نے دھماکے میں ملوث دہشتگردوں کا سراغ لگا کر ولید نامی دہشت گرد کو گرفتار کر لیا تھا، گرفتار دہشت گرد ولید نے دوران تفتیش تحقیقاتی اداروں کو بتایا کہ میرا اصل ٹارگٹ چاہ سید منور شاہ کا جلوس (زیدی سادات خاندان) تھا۔ ولید نے دوران تفتیش تحقیقاتی اداروں کو بتایا کہ جیسے ہی چاہ سید منور شاہ کا جلوس گلی کے قریب پہنچا، میں نے کئی بار ریمورٹ سے دھماکا کرنے کی کوشش کی، مگر جلوس کی سکیورٹی پر مامور بی ڈی اسکواڈ کی گاڑی پر لگے جیمر کی وجہ سے دھماکا نہ ہوسکا۔
دہشت گرد ولید کے مطابق جیسے ہی ڈی اسکواڈ کی گاڑی بم کی رینج سے آگے گئی تو ریمورٹ نے کام کیا اور میں نے دھماکا کر دیا۔ تاہم اس دوران چاہ سید منور شاہ سادات خاندان کا جلوس گزر چکا تھا جبکہ بستی ڈیوالہ کا جلوس دھماکے کی زد میں آگیا۔ آج سانحے کو 12 برس گزر گئے ہیں، شہداء کے لواحقین آج بھی اپنے پیاروں کی گری لاشوں کے لئے انصاف کے منتظر ہیں۔ یاد رہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں اہل تشیع مکتب فکر کے پیروکاروں کو ایک منظم سازش کے تحت نشانہ بنایا، ٹارگٹ کلنگ، خودکش حملوں اور بم دھماکوں کا نشانہ بنائے جانے کے باوجود ڈی آئی خان کے شیعیان حیدر کرارؑ کی استقامت اور حوصلوں میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی۔ تاہم افسوسناک پہلو یہ ہے کہ سینکڑوں بے گناہ شہریوں کی شہادت اور ہزاروں کے زخمی ہونے کے باوجود اس قتل و غارت گری کے ذمہ داران کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا۔
اس سانحہ کے متاثرین اپنے پیاروں کو کھو چکے ہیں، لیکن ان شہداء کے قاتل
قانون کی گرفت سے باہر ہیں، جو کہ متاثرین دہشتگردی کے زخموں پر نمک پاشی ہے، بعض واقعات ایسے بھی گزرے ہیں کہ جن میں قاتل مشخص ہیں اور وہ شہداء کے لواحقین کے سامنے دندناتے پھرتے ہیں، جب ایسے مظلوم شخص کے سامنے اس کے باپ، بھائی یا بیٹے کا قاتل آزاد پھرے تو اس پر کیا گزرتی ہوگی، یہ درد ریاست محسوس کرنے سے قاصر ہے۔ اب جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان میں کسی حد تک امن قائم ہوچکا ہے، تاہم متاثرین کو انصاف فراہم کرنا اور قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانا ریاست کی ذمہ داری ہے، اگر حکمران ڈی آئی خان میں پائیدار امن چاہتے ہیں تو سانحہ عاشورہ سمیت دیگر سانحات اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانا لازمی ہے۔