رپورٹ: سید عدیل زیدی
ضلع کرم میں سانحہ بگن کے بعد سے شروع ہونے والی لڑائیوں کے حوالے سے تازہ اطلاعات ہیں کہ فریقین کی جانب سے کئی علاقوں میں جنگ بندی ہوگئی ہے، متعدد مورچوں پر سکیورٹی فورسز کے اہلکار تعینات ہوگئے ہیں اور علاقے میں ایک ہفتے بعد انٹر نیٹ اور موبائل فون سگنلز بحال کر دیئے گئے ہیں۔ اس سے قبل مقامی اور حکومتی سطح پر کئی جرگے بھی منعقد ہوئے، اس حوالے سے ایک اہم جرگہ آج وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی صدارت میں کوہاٹ میں منعقد ہوا، جس میں پاراچنار سے مجلس وحدت مسلمین کے رکن قومی اسمبلی انجینئر حمید حسین، سابق وفاقی وزیر شہریار آفریدی، صوبائی مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف، کمشنر کوہاٹ، صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم ایڈوکیٹ، چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا، آئی جی خیبر پختونخوا پولیس، ایم پی اے کوہاٹ شفیع جان، ایم پی اے داؤد آفریدی اور کوہاٹ ڈویژن کے تمام پارلیمنٹرین سمیت شیعہ، سنی عمائدین و علماء شریک ہوئے۔
جرگے میں کئی اہم فیصلے اور اعلانات ہوئے، اس موقع پر امن کو برقرار رکھنے، شہداء اور دیگر نقصانات کے ازالہ کے لئے ہر قسم کی امداد کا اعلان بھی کیا گیا۔ وزیراعلیٰ نے ہتھیار اٹھانے والوں کے خلاف سخت کارروئی کا بھی اعلان کیا۔ جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ جو بھی ہتھیار اٹھائے گا، دہشت گرد کہلائے گا، دہشت گردوں کا انجام جہنم ہے۔ انہوں نے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو ہدایت کی کہ جو بھی امن کو خراب کرے، اس کے ساتھ دہشت گردوں والا سلوک کیا جائے۔ علی امین گنڈا پور کا مزید کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کی درخواست پر فوج علاقے میں امن کے لئے تعینات ہے، فوج، پولیس اور انتظامیہ ملکر علاقے میں پائیدار امن کے لئے مربوط کوششیں کر رہی ہیں، علاقے میں قائم تمام کے تمام مورچے بلا تفریق ختم کئے جائیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان سیاسی اختلافات اپنی جگہ، علاقے میں امن کیلئے وفاقی حکومت ایف سی کے پلاٹونز فراہم کرے، گرینڈ جرگہ مکمل امن کے قیام تک علاقے میں رہے، صوبائی حکومت ہر ممکن سپورٹ فراہم کرے گی۔
یاد رہے کہ کرم کے علاقہ بگن میں شیعہ مسافروں کے کانوائے پر دہشتگردوں کے وحشیانہ حملہ کے بعد ضلع بھر کے حالات کشیدہ ہوئے، پچاس سے زائد بے گناہ مسافروں کی شہادت کے بعد ردعمل آنا فطری تھا، تاہم افسوس کہ حکومت اس مرتبہ بھی ظالم اور مظلوم کے مابین فرق کرنے میں ناکام رہی، شدت پسندوں کی حمایت میں قریبی قبائلی اضلاع سمیت سرحد پار سے بھی دہشتگرد پاراچنار پہنچے۔ مقامی ذرائع کے مطابق وزیرستان، خیبر، کوہاٹ، ہنگو اور اورکزئی جیسے علاقوں سے سے بھی تکفیری اب بھی لوئر کرم کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں، جس کا ثبوت مارے گئے ایک کمانڈر کی شناخت ہے، جو کہ ٹی ٹی پی ہنگو کا رہنماء ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق ان تکفیری دہشتگردوں نے مقامی تکفیریوں کیساتھ ملکر پاراچنار پر ایک بڑی لشکر کشی کی منصوبہ بندی بھی کی تھی، جو کہ کامیاب نہیں ہوسکی۔ حقیقت یہ ہے کہ کرم کے اہلسنت (یہاں اہلسنت سے مراد مکتب دیوبند کے پیروکار ہیں) معتدل مشران بھی امن چاہتے ہیں، جس کا اظہار وہ ان جرگوں میں کرتے آئے ہیں۔
تاہم یہ طبقہ انتہائی مخصوص ہے، جو کہ حالات سے آگاہ اور جنگ کو اپنی آنے والی نسلوں کیلئے موت سمجھتا ہے، 11 اکتوبر کو قومی عدالت جرگہ میں سنی اور شیعہ نوجوان ایک ہی خیمے میں ایک ساتھ بیٹھے نظر آئے۔ اس کے علاوہ، اسی سوچ کے حامل اہلسنت مشران نے اہل تشیع کیساتھ ملکر صدہ اور پاراچنار میں امن کے لیے مشترکہ جرگے اور اجلاس بھی کیے۔ قومی جرگے میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ کرم سمیت پشتون علاقوں سے فوج نکالی جائے اور مسئلہ کو حل کرنے کے لیے جرگہ کرم بھیجا جائے، رواں ماہ کرم جرگے کے نمائندوں کے نام فائنل کیے گئے، تاہم جب ’’امن دشمنوں‘‘ کو معلوم ہوا کہ پختون خود مسئلہ حل کرنے جا رہے ہیں، تو ایک بار پھر مسلح گروہوں کو اشارہ دیا گیا اور خونریزی شروع کر دی گئی۔ کرم کا حالیہ المیہ بابڑہ، ٹکر، قصہ خوانی، خڑکمر اور آرمی پبلک اسکول جیسے واقعات کا حصہ ہے، جسے یہ مظلوم کبھی نہیں بھولیں گے۔ کرم کی خاص اسٹریٹجک اہمیت کچھ مخصوص قوتوں کے لیے بڑھ گئی ہے، لہذا اب وہ چاہتے ہیں کہ یہاں بدامنی پیدا ہو، تاکہ لوگ علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوں اور یہاں ایک نئی ’’ڈالر جنگ‘‘ شروع کی جائے۔