تحریر: سید رضا عمادی
غزہ اور لبنان کے عوام کے خلاف صیہونی حکومت کی مسلسل نسل کشی کے خلاف دنیا کے پچاس سے زائد ممالک نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، سلامتی کونسل اور اس تنظیم کی جنرل اسمبلی سے صیہونی حکومت پر ہتھیاروں کی پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔ غزہ کے عوام کے خلاف صیہونی حکومت کی نسل کشی کو تیرہ ماہ گزر چکے ہیں۔ اس عرصے کے دوران 43 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور ایک لاکھ سے زائد زخمی ہوئے ہیں، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں۔ روزانہ کی بمباری کے علاوہ قدس پر قابض حکومت نے غزہ کے عوام پر فاقے اور بھوک مسلط کرنے کے لئے انسانی امداد بالخصوص خوراک اور ادویات کی ترسیل پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے۔ صیہونی حکومت اس شیطانی حربے کے ذریعے کئی فلسطینیوں کی شہادت کا سبب بنی ہے۔
مغربی ممالک بالخصوص امریکہ نہ صرف صیہونی حکومت کو کھلی اور پوشیدہ سیاسی اور اقتصادی امداد فراہم کر رہا ہے بلکہ اسے ہتھیار بھیج کر غزہ اور لبنان کے عوام کی نسل کشی میں بھی بھرپور مدد کر رہا ہے۔ بے شک اس جرم میں امریکہ اور مغربی ممالک برابر کے شریک ہیں۔ غزہ اور لبنان میں صیہونی حکومت کے حوالے سے اس بات کے پختہ شواہد موجود ہیں کہ صیہونی حکومت کو فراہم کیے جانے والے یہ ہتھیار فلسطین کی شہری آبادی کے خلاف جاری تشدد کی خونی کارروائیوں میں استعمال ہو رہے ہیں، جو بین الاقوامی قوانین کی واضح خلاف ورزی ہے۔ اس کی واضح مثال حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل شہید "سید حسن نصراللہ" کے قتل میں امریکہ کے تیار کردہ ٹنوں وزنی بنکر بسٹر بموں کا استعمال ہے۔
اس سے پہلے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے مقبوضہ علاقوں میں ہتھیار بھیجنے پر پابندی کی حمایت کی تھی اور 28 ممالک نے اس پابندی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ البتہ چھ ممالک نے مخالفت میں ووٹ دیا اور 13 ممالک نے ووٹ نہیں دیا۔ قابل ذکر ہے کہ امریکہ اور جرمنی نے اس پابندی کے خلاف ووٹ دیا۔ یہ دونوں ممالک صیہونی حکومت کو زیادہ تر ہتھیار فراہم کرتے ہیں۔ امریکہ کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ ہتھیار مقبوضہ علاقوں میں بھیجتا ہے۔ گذشتہ سال کے دوران واشنگٹن نے صیہونی حکومت کو 17 ارب ڈالر سے زیادہ کی فوجی اور اقتصادی امداد فراہم کی ہے۔ امریکہ کے بعد جرمنی اور اٹلی وہ ممالک ہیں، جنہوں نے مقبوضہ علاقوں میں سب سے زیادہ ہتھیار بھیجے ہیں۔
اب غزہ اور لبنان کے عوام کے خلاف صیہونی حکومت کی نسل کشی کے تسلسل اور اس بے مثال جرم کو روکنے میں عالمی برادری کی نااہلی کے باعث پچاس سے زائد ممالک نے مقبوضہ علاقوں میں ہتھیاروں کی ترسیل بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دنیا کے پچاس سے زائد ممالک نے سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے صیہونی حکومت کو ہتھیاروں کی فروخت یا منتقلی کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان پچاس ممالک کی درخواست نے ثابت کر دیا ہے کہ غاصب صیہونی حکومت کی طرف سے غزہ اور لبنان کے عوام کے خلاف کیے جانے والے جرائم میں وہ تمام ممالک برابر کے شریک ہیں، جو مقبوضہ علاقوں میں ہتھیار فراہم کر رہے ہیں۔
یہ بات بھی وقت گزرنے کے ساتھ عیاں ہو رہی ہے کہ ہتھیار برآمد کرنے والے ممالک اس جنگ کو طول دینے کا بھی باعث ہیں۔ آج اگر عالمی ادارے صیہونی حکومت کے سامنے بے بس نظر آرہے ہیں تو اس کی زمہ داری بھی ان ملکوں پر ہے، جو اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آج مظلوم فلسطینیوں کو جو انصاف فراہم نہیں ہو رہا ہے تو اس میں بھی اسرائیل نواز ممالک شامل ہیں۔ یہ بات نہیں بھولنی چاہیئے کہ جب تاریخ لکھی جائے گی تو فلسطینیوں کی نسل کشی میں ان تمام ممالک کا ذکر آئے گا، جو آج کسی بھی حوالے سے اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں، مظلوم فلسطینیوں اور لبنانیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ اسرائیل نواز یہ ممالک بین الاقوامی نظام کی نااہلی میں بھی برابر کے شریک ہیں۔