0
Thursday 7 Nov 2024 18:29

اسرائیل نابودی کے دہانے پر مگر حزب اللہ۔۔

اسرائیل نابودی کے دہانے پر مگر حزب اللہ۔۔
تحریر: محمد حسن جمالی

حزب اللہ کے قائدین کی شہادت اسرائیل کے لئے نابودی کا کنواں ثابت ہو رہی ہے۔ لبنان کے مجاہدین اپنے قائدین کی شہادت سے نہ صرف مرعوب نہیں ہوئے بلکہ ان کے جذبہ جہاد میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ حالت یہ ہے کہ اب مختلف ذرائع سے اسرائیل نابکار خود دبے انداز میں حزب اللہ کو جنگ بندی کا پیغام بھیج رہا ہے۔ حزب اللہ کے عظیم لیڈر سید حسن اللہ اور حماس کے لیڈر اسماعیل ہنیہ کو شہید کرکے اسرائیل پوری دنیا پر اپنی طاقت کا سکہ جمانے کا خواب دیکھ رہا تھا، مگر نتیجہ اس کا برعکس نکلا۔ سید حسن نصراللہ اور اسماعیل ہنیہ کے خون ناحق نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنے مشترکہ دشمن اسرائیل کے خلاف مقاومت اور مقابلہ کرنے کیلئے سرجوڑ کر سوچنے پر مجبور کر دیا۔ ان عظیم مجاہدین کی شہادت نے مسلمانان جہاں کے سامنے اس حقیقت کو روز روشن کی طرح عیاں کر دیا کہ امریکہ و اسرائیل ہی تمام مسلمانوں کے حقیقی دشمن ہیں۔

مسلمانوں کو فرقہ واریت کی بنیاد پر آپس میں دست و گریباں ہونے کے بجائے متحد ہوکر اپنے حقیقی دشمن اسرائیل و امریکہ کے خلاف نظری و عملی کام کرنا لازمی ہے اور شہادت مسلمانوں کے لئے ہار نہیں بلکہ جنت کی کلید ہے۔ اسلام کے آغاز اور مسلمانوں کی کفار و مشرکین سے جنگوں کی تاریخ خدا کی راہ کے مجاہدین کی رشادتوں اور کوششوں سے بھری پڑی ہیں۔ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی جان و مال سے لڑنے والوں کی تجلیل کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ ایسے لوگوں نے خدا کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔ بہت بڑا ثواب، ابدی جنت، "خدا کی رضا" اور "عظیم کامیابی" ان کی منتظر ہے۔ آپ مسلمانوں کو جہاد کے میدانوں میں حاضر رہنے کی تشویق و ترغیب دلاتے تھے۔اللہ تعالیٰ کا اپنے پیغمبر کے ذریعے راہ خدا میں جہاد کرنے والے مجاہدوں کو مختلف خوشخبریاں دینا اور پیغمبر اکرم (ص) کی پاکیزہ سیرت، مسلمانوں کو میدان کارزار میں دشمنوں سے لڑنے، ان کے ساتھ مقابلہ کرنے اور اسلام کے مقدس اہداف کی طرف پیش قدمی کرنے کا اہم ترین سبب بنی۔ چنانچہ مسلمان جنگ کے میدان میں حاضر ہونے اور شہادت کی منزل پانے میں ایک دوسرے پر سبقت لیا کرتے تھے۔
 
پیغمبر اکرم (ص) نے مجاہدین کی اس طرح تربیت کی کہ وہ شہداء کے خاص درجے تک پہنچنے کے لیے کسی چیز کی پروا نہیں کرتے تھے۔ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدا کی طرف سے مشرکین مکہ کے ساتھ مسلمانوں کی پہلی جنگ کے موقع پر مسلمانوں سے اظہار رائے کرنے کا تقاضا کیا تو انصار کے بزرگوں میں سے سعد بن معاذ نے یوں اظہار نظر کیا: اے خدا کے رسول ہم آپ پر ایمان لائے ہیں، آپ کی تصدیق کی ہے اور اب بھی ہم آپ کے پیچھے اور آپ کے حکم کے لیے تیار ہیں۔ خدا کی قسم اگر آپ کو دریا میں پھینکا جائے تو ہم بھی آپ کے پیچھے دریا میں ڈوبنے کے لئے تیار ہیں۔ عمیر بن حمام نے اسی جنگ کے آغاز میں جہاد کی آیات کی تلاوت کے بعد ہاتھ میں لی ہوئی کھجور کو زمین پر پھینک دیا اور کہا: میرے اور جنت کے درمیان اتنا فاصلہ ہے کہ وہ مجھے مار ڈالیں۔ اس نے فوراً اپنی تلوار اٹھائی اور دشمن کی صفوں پر مارا، جس کے نتیجے میں کچھ افراد کو ہلاک اور کچھ کو زخمی کیا، پھر خود شہید ہوئے۔

غزوہ احد میں عمرو بن جموح نام کا ایک بوڑھا آدمی جو لنگڑا تھا اور مشکل سے چل سکتا تھا، وہ جنگ سے مستثنیٰ تھا اور اس کے چاروں بیٹے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رکاب میں جہاد کرنے کے لئے میدان جنگ میں جا رہے تھے، اس کے باوجود وہ خود بھی عازم جنگ ہوئے۔ انہیں جہاد سے روکنے کی بہت کوشش کی گٗی، مگر انہوں نے انکار کیا اور کہا: یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ جنت میں جائیں اور میں عورتوں اور بچوں کے ساتھ شہر میں رہوں؟ چنانچہ انہوں نے جنگی لباس پہنا اور اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور کہا: خدایا! مجھے میرے گھر والوں کے پاس نہ لوٹانا۔جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے اصرار کا سامنا کرنا پڑا تو آپ نے ان کی قوم سے کہا کہ آپ انہیں محاذ جنگ میں شامل ہونے سے نہ روکیں۔ شاید اللہ ان کی خواہش پوری کر دے اور یہ شہید ہو جائیں، چنانچہ وہ آنحضرت (ص) کی اجازت سے جنگ میں شریک اور شہید ہوئے۔ ان کے جسم کو احد کی سرزمین میں دفن کر دیا گیا۔

جنگ احد میں جب پیغمبر اکرم (ص) کے قتل کی افواہ پھیل گئی تو بہت سارے مسلمانوں نے اپنا جذبہ شہادت کھو دیا اور وہ جنگ سے فرار ہوگئے۔ چنانچہ اس جنگ میں مسلمانوں کے ایک گروہ کی خلاف ورزی کے باعث مسلمانوں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ تاریخ اسلام کے تلخ واقعات میں سے ایک ہے۔ کچھ مسلمان پروانوں کی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد چکر لگا رہے تھے، حالانکہ ان کے بچنے کی کوئی امید نہیں تھی، اس کے باوجود انہوں نے میدان جنگ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ اس گروہ کے سربراہ علی بن ابی طالب تھے، جن کے جسم مبارک پر نوے سے زیادہ زخم آئے تھے۔ اسی جنگ میں یہ مشہور جملہ "لا فتی الا علی لا سیف الاذوالفقار" آپ (ع) کے وصف میں بولا گیا۔ انس بن نضیر بھی اس گروہ میں شامل تھے، جب ان کا دو فراریوں سے سامنا ہوا، جو بیٹھے ہوئے تھے اور لڑائی کے نتائج کا انتظار کر رہے تھے تو انہوں نے ناراضگی کی حالت میں ان سے پوچھا کہ تم یہاں کیوں بیٹھے ہو۔؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کیا گیا ہے۔ کہا: موت کے بعد زندگی کی کیا اہمیت ہے؟! اٹھو اور رسول اللہ کی طرح میدان میں چلے جاؤ اور مقام شہادت پر فائز ہو جاو۔

یہ کہتے ہوئے وہ خود میدان کارزار کی طرف لوٹے، بہادری سے لڑے اور شہید ہوگئے۔ان کے چہرے پر ستر ضربیں لگی ہوئی تھیں اور ان کے کپڑوں سے ان کی لاش کی شناخت کی گئی تھی۔ اسی جنگ میں رسول اللہ نے سماک بن خرشہ (ابو دجانہ) سے اپنی بیعت اٹھا لی، تاکہ وہ معرکہ جنگ چھوڑ دے، لیکن انہوں نے رسول اللہ کو تنہا چھوڑنے سے انکار کر دیا اور دشمن کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ بلاشبہ نصف صدی سے بھی کم عرصے میں اپنے مقاصد تک پہنچنے اور حقیقت کے شیفتہ انسانوں کے دلوں اور مختلف سرزمین کے مضبوط قلعوں کو کھولنے میں اسلام کی چمکیلی کامیابی کا ایک راز اس مکتب میں پایا جانے والا ایثار و شہادت طلبی کا کلچر ہے۔

یاد رہے جو قوم شہادت کا خیر مقدم کرتی ہو، اپنے مقاصد کی راہ میں ایثار و قربانی کے لیے ضروری تیاری رکھتی ہو، وہ ہمیشہ عزیز اور سربلند ہوتی ہے اور تمام انصاف اور آزادی پسند لوگ ایسی قوموں کی تحسین کرتے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ دنیا کی چند روزہ زندگی کی خاطر ذلت و رسوائی کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتے ہیں، ان کی کوئی تعریف و تحسین نہیں کرتا ہے، بلکہ ایسی قوموں کی لوگ مذمت ہی کرتے ہیں۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اسلام ہرگز تلوار کے زور پر دنیا میں آگے نہیں بڑھا بلکہ اس مکتب میں اتنی تعلیمات اور انسانی اقدار ہیں، جو پاکیزہ دل لوگوں کو اپنی طرف جذب اور جلب کرتی ہیں۔ لہذا اسلام تلوار کے زور سے لوگوں پر حکومت کرنے سے بے نیاز ہے۔ اس کے علاوہ اسلام نے دلوں پر حکومت کی، جن پر کبھی بھی تلواروں اور نیزوں کے زور سے حکومت نہیں ہوسکتی۔

ابتدائے اسلام کے مسلمانوں میں ایثار و شہادت کے جذبے کا موجود ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ پورے اطمینان اور محبت و عشق کے ساتھ اس مکتب کے پیروکار تھے۔ کوئی بھی مجبوراً کسی آئین و مکتب کو دل سے قبول نہیں کرتا۔ دشمنوں نے مسلمان مجاہدوں کی کامیابی کے اس راز کو اچھی طرح پہچان لیا اور پوری تاریخ میں یہ کوشش کی گئی کہ لوگوں کو اس آزاد بخش کلچر سے جدا کیا جائے۔ بعید نہیں کہ بعض مستشرقین نے اسلام کے حوالے سے تہمت پر مبنی جو باتیں کہی ہیں، مثلاً کہا گیا کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے، وہ اسی نیت سے کہا گیا ہو۔ تاریخ سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ دنیا کے بہت سے لوگ اپنی مرضی سے اسلام کی طرف مائل ہوئے اور انہوں نے اس مقدس آئین کو قبول کیا ہے۔ مسلمانوں کو نقصانات کے مقابلے میں بیمہ کرنے والے، ان میں مسلسل آمادگی ایجاد کرنے والے اور جہاد اور شہادت کے کلچر سے الگ کرنے کی غرض سے مستشرقین نے اسلام پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے، تاکہ مسلمان اس الزام کو پسپا کرنے کے لیے جہاد اور مقابلے کی بات ہی نہ کریں اور دشمن کی تیغ زبان سے محفوظ رہنے کے لیے وہ جہاد سے کنارہ کشی اختیار کریں۔

چنانچہ کچھ سادہ لوح اور نام نہاد روشن خیال لوگ اس جال میں پھنس گئے۔ انہوں نے اپنے آپ کو امن اور صلح کے حامی کے طور پر پیش کرنے والے عیسائی تبلیغات کرنے والوں کے مقابلے میں بزعم خود اسلام کا دفاع کرنے کے لیے جہاد سے نفرت کی اور دشمنوں سے مقابلہ اور جہاد کرنے کو جنگ کا ڈھول پیٹنے کے مترادف قرار دیا۔ چنانچہ ظالم اموی اور عباسی حکمرانوں نے جو ریاست اور اقتدار کے سوا کسی چیز کے بارے میں نہیں سوچتے تھے، کسی حکومت کے خلاف لڑنا حرام ہونے کی فکر لوگوں کے درمیان رائج کروانے کی سرتوڑ کوشش کی اور اس کے فروغ کے لیے انہوں نے بے شخصیت مولویوں کو استعمال کیا۔ آج بھی بنی امیہ کی فکر کے حامل مولوی حضرات کو غزہ، لبنان اور پاراچنار کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت میں لب ہلانے تک کو حرام سمجھ کر خاموشی کا روزہ رکھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں!! ہر منصف حالات حاضرہ سے باجبر انسان کا یہی کہنا ہے کہ اسرائیل نابودی کے دہانے پر۔پہنچ چکا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1171331
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش