2
3
Tuesday 30 Jul 2024 20:32

تعلیمی درسگاہیں اور نادانی کا طوق

تعلیمی درسگاہیں اور نادانی کا طوق
تحریر: نذر حافی

آپ خود یہ فیصلہ کریں کہ زیادہ خطرناک واقعہ کون سا ہے؟ پوسٹ گریجویٹ کالج بنوں کے بیالوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر شیر علی کا یا ڈیره اسماعیل خان میں مدرسه جامعه اسلامیه فلاح البنات کی تین طالبات کا۔؟ شیر علی گزشتہ سترہ سال سے درس و تدریس کے شعبے سے وابسته ہیں۔ اس دِن کو تاریخ پاکستان میں کیا نام دیا جانا چاہیئے، جس روز انہوں نے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی موجودگی میں اسٹامپ پیپر پر اپنے تعلیمی نظریات بیان کرنے پر معافی مانگی۔؟ ہوا کچھ یوں کہ بیالوجی کی کلاس میں نظریہ ارتقاء اور پھر ساتھ ہی طبّی طور پر مذکر اور مونث یعنی مرد اور عورت کے ایک جیسا ہونے پر اُن کے لیکچرز پر علمائے کرام کی طرف سے انہیں اور اُن کے خاندان کو شدید سوشل بائیکاٹ اور خوف و ہراس کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد 60 سے زائد علماء، علاقہ عمائدین اور ضلعی انتظامیہ کی موجودگی میں انهوں نے ایک بیان حلفی پر دستخط کرکے علماء سے اپنے نظریات سے دستبرداری کا اعلان کیا۔ ان کی طرف سے اپنے علمی نظریات سے اس طرح کی دستبرداری کا یہ اعلان کوئی فرعون کے زمانے کی بات نہیں بلکہ اسی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے عہد کی داستان ہے۔

دوسری طرف ڈیره اسماعیل خان میں  مدرسہ جامعہ اسلامیہ فلاح البنات کی تین طالبات رضیہ حنیفہ، عائشہ نعمان اور عمره امان نے ٹیویشن پڑھانے والی خاتون ٹیچر صفوره بی بی کو گلے پر چھریاں پھیر کر ذبح کر دیا۔ عمیمہ نے ملزمان خواتین کو بتایا تھا کہ اس نے خواب دیکھا کہ صفوره بی بی نے توہین مذہب کی ہے۔ بلوچستان میں تُربت کا یہ واقعہ بھی کچھ کم خطرناک نہیں ہے کہ جب "توہینِ مذہب" کے الزام میں استاد کو قتل کر دیا گیا، وقوعہ سے کچھ روز قبل سینٹر کے کچھ طالب علموں نے علماء سے شکایت کی تھی کہ عبدالرؤف نے کلاس روم میں پڑھاتے ہوئے توہین مذہب کی ہے۔ عبدالرؤف کا اصرار تھا کہ انهوں نے گستاخی نہیں کی، لیکن اس کے باوجود وه معافی مانگنے کے لیے تیار تھے۔

انہیں ایک مقامی مدرسے میں علمائے کرام نے معافی مانگنے کیلئے بلایا گیا، جس پر وه مدرسے کی طرف معافی مانگنے چل پڑے۔ راستے میں مدرسے سے کوئی 50 یا 100 گز کے فاصلے پر ایک قبرستان کے قریب پہلے سے تاک میں بیٹھے نامعلوم نقاب پوش افراد نے ان پر گولیاں چلائیں۔ اسی طرح ملتان میں یونیورسٹی کے انگلش کے پروفیسر جنید حفیظ پر بلاسفیمی کا الزام لگنے کے بعد حکومت نے انهیں کسی قاتلانہ حملے سے بچانے کیلئے  قید تنہائی میں رکھا، کوئی وکیل ان کا مقدمہ لڑنے کو تیار نہیں ہوا، چونکہ ان کے پپلے وکیل راشد رحمٰن کو قتل کر دیا گیا تھا۔ ان پر توہین مذہب کا مقدمہ 13 مارچ 2013ء کو  درج کیا گیا تھا۔ سکیورٹی خدشات کے باعث مقدمے کی سماعت سنٹرل جیل میں ہی ہوتی رہی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

توہین مذہب کا الزام تو پاکستان میں بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، جیسا کہ بہاولپور میں ایس ای کالج میں سربراه شعبہ انگریزی کو طالب علم نے ایک پروگرام میں طالبات کو مدعو کرنے کی وجہ سے بے رحمی سے چھریاں مار کر قتل کر دیا، طالب علم کے مطابق یہ ایک غیر اسلامی فعل تھا۔ صورتحال اتنی سنگین ہے کہ طالب علموں کی اگر کسی شِدّت پسند تنظیم کے جلسے جلوس میں شرکت پر غیر حاضری لگائی جائے تو طالب علم اسے بھی توہین مذہب کہتے ہیں اور موقع ملے تو اُستاد کو قتل کر دیتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ چارسده میں ہوا کہ جب شبقدر میں سیکنڈ ائیر کے طالب علم نے توہین رسالت کا الزام لگا کر پرنسپل کو قتل کر دیا، طالب علم کا تعلق تحریک لبیک یارسول الله سے ہے، وه  اسلام آباد دھرنے میں شرکت کیلئے کلاس سے غیر حاضر رہا تھا، جس پر پرنسپل نے اس سے باز پرس کی تھی۔

تعلیمی اداروں کا یہ ماحول استادوں کے ساتھ ساتھ طلباء کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ عبد الولی خان یونیورسٹی کا وہ منظر کون بھول سکتا ہے کہ جس میں طلبہ خود ہی مدعی، جج اور جلاد بن گئے۔ توہین مذہب کا الزام لگا کر سینکڑوں مشتعل طلباء نے ہاسٹل میں گھس کر طالبعلم مشال خان کو قتل کیا۔ درجنوں طلباء نے اس کا پیچھا کرکے اسے ہاسٹل میں قابو کرلیا اور کمرے کے دروزاے توڑ کر لاٹھیوں، مکوں اور فائرنگ سے اسے جان سے مار ڈالا۔ مشتعل  طلباء اس کی لاش کو جلانا چاپتے تھے، پولیس نے پرائیویٹ گاڑی میں لاش کو منتقل کیا اور لاش کو جلانے سے بچایا۔ یونیورسٹیوں کے ہاسٹلز میں کالعدم تنظیموں کے کارندوں کی رہائش اور نیٹ ورکس کی موجودگی بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نهیں۔ یہ ماحول صرف کلاس رومز تک محدود نہیں بلکہ تعلیمی اداروں کے ہاسٹلز کا بھی یہی ماحول ہے۔ شدّت پسندی اب دینی  مدارس سے بعض جامعات میں بھی منتقل ہوچکی ہے۔ ہم نے اختصار کے پیشِ نظر بطورِ نمونہ فقط چند ایک واقعات کی یاد دہانی کرائی ہے۔

اب یہ کون سوچے کہ ہمیں کون کس طرف زبردستی کھینچ کر لے جا رہا ہے۔؟ ملک کے چاروں صوبوں میں ایسے تعلیمی ادارے کثرت سے موجود ہیں کہ جہاں کلاس کے اندر استادوں کو اس طرح سے سبق پڑھانا پڑتا ہے کہ گویا وه کوئی سکول ٹیچر یا پروفیسر ہونے کے بجائے کسی مذہبی مسلک کے خطیب یا مسجد کے امام جماعت ہوں۔ جس اُستاد پر توہین مذہب کا الزام لگ جائے، اُس کا مقدمہ بھی کوئی وکیل نہیں لڑتا اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ اُستادوں کو معافی مانگنے سے پہلے ہی قتل کر دیا جاتا ہے۔ اگر ایسا استاد قتل نہ ہوسکے تو اس کا وکیل بھی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ ہمارے ملک میں تعلیم کی دیوی ایسی زنجیروں سے جکڑی ہوئی ہے کہ جنہیں ثواب کہا جاتا ہے۔ لاعلمی اور نادانی کا یہ طوق اس لئے ہمیں گراں نہیں گزرتا، چونکہ ہم نے اس طوق کو عبادت سمجھ کر پہن رکھا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1150963
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

محمد اکرام سیفی
Singapore
تحریر بہت اچھی اور فکر انگیز ہے۔ پاکستان میں یہ بڑھتی ہوئی جاہلانہ تشدد پسندی بہت نقصان دے گی۔ نتیجہ کس بات کا ہے یہ؟ کنوے کے مینڈک والی نولج کا نتیجہ اور پیٹو سیاست کا۔ عقل و دانش پہ قدغن اور اسلام کے نام پہ!!!
Seychelles
Nice
ہماری پیشکش