پی ٹی آئی پنجاب کے رہنماء، خوشاب سے قومی اسمبلی کے رکن اور قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے ممبر ملک محمد احسان اللہ ٹوانہ کیساتھ موجودہ حکومت کی مسئلہ کشمیر پر سفارتی، سیاسی کوششیں اور خطے میں جنگ کے منڈلاتے بادلوں کیوجہ سے پیدا ہونیوالے سنگین صورتحال پر موقف، سیاسی بیانیے میں تبدیلیوں اور پاک بھارت کشیدگی سمیت اہم ایشوز پر انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)
اسلام ٹائمز: حکومت میں آنے کے بعد وزیراعظم نے ہر جگہ جنہیں مسلسل کرپٹ کہا، انہیں ہی ڈھیل دی، لیکن اپوزیشن رہنماوں کو چھوڑ دیا گیا ہے، نہ ہی کوئی رکوری ہوئی ہے، کیا یہ اقتدار بچانے کیلئے ڈیل نہیں۔؟
ملک احسان ٹوانہ: ہم اپنے بیانیے اور قوم کیساتھ کیے گئے ہر وعدے پر قائم ہیں، ڈیل کا تاثر غلط ہے ملک کو نقصان پہنچانے والوں کے مقدمات ختم نہیں ہو رہے۔ لیکن
قومی مفاد کی قانون سازی میں سب جماعتوں نے حمایت کی، ہر اچھا کام عمران خان کی حکومت نے کرنا ہے اور یہ کام بھی کر دیا۔ حزب اختلاف کا کام ہے کہ اگر حکومت درست نہیں جا رہی تو مشورہ دیں اور حکومت درست راستے پر ہے تو ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ سال 2020ء یہ ثابت کر رہا ہے کہ یہ عوام کا سال ہے۔ حزب اختلاف حکومت کو چلنے نہیں دے رہی تھی اور ایوان میں ہنگامہ آرائی کرتے رہے حزب اختلاف کو اپنے رویے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں کئی ایسے افراد ہیں جو قانون سازی میں اپنا حصہ لے رہے ہیں۔ لیکن پاکستان کو نقصان پہنچانے اور بدعنوانی کرنے والوں کے ساتھ وزیر اعظم عمران خان کہہ چکے ہیں کہ ایسے لوگوں کو کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔ حکومت کی حزب اختلاف سے کوئی ڈیل نہیں ہوئی ہے کیونکہ کوئی بھی مقدمہ ختم نہیں ہوا ہے، ان کی عدالتوں میں سماعت جاری ہیں۔
ڈیل کا تاثر درست نہیں ہے ملک کو نقصان پہنچانے والوں کے کوئی مقدمات ختم نہیں ہو رہے۔ اس قانون سازی کے عمل سے پہلے بھی جو عدالتوں نے میڈیکل گراؤنڈ کو دیکھتے ہوئے ضمانتیں دی ہیں۔ آگے جانے کا واحد راستہ احتساب ہے اور چوروں، لٹیروں کا احتساب جاری رہے گا۔ ملک کو نقصان پہنچانے والوں کے ساتھ کوئی مفاہمت نہیں ہو گی۔ اس کے باوجود حزب اختلاف عوامی مسائل پر آکر بات کریں ہم کو رکاوٹ نہیں ڈالیں گے لیکن جہاں وہ پارلیمنٹ کا وقت ضائع کریں گے اور اپنے رہنماؤں کی بدعنوانی کو چھپانے کی بات کریں گے تو ہم ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کو بیرونی محاذ پہ بالخصوص کشمیر کی صورتحال اور سرحدوں پر کشیدگی کو بھی مدنظر رکھا جانا چاہیے، تاکہ دنیا میں یہ تاثر برقرار رہے کہ پاکستان کے ادارے، پاکستانی قوم اکٹھے ہیں۔ قومی سلامتی اور ملکی دفاع پہ کسی قسم کی سیاست نہیں ہونی چاہیے۔
اسلام ٹائمز: بھارتی گیدڑ بھبکیاں اور درپیش خطرات کے تناظر میں حکومت کا کوئی ردعمل کیوں سامنے نہیں آیا، نہ ہی یہ معاملہ پارلیمنٹ میں زیربحث آیا ہے، قومی اتفاق رائے کیسے برقرار رہیگا۔؟
ملک احسان ٹوانہ: بھارتی آرمی چیف نے جو ہرزہ سرائی کی ہے، اگرچہ وہ ایک گیدڑ بھبکی ہی ہے، مگر بھارتی قیادت کے ذہنوں کی گہرائیوں میں پائے جانے والی اس بد نیتی کی عکاس ہے، جسکا پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت واضح انکشاف کرتی آ رہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ چھ ماہ سے بھارت کی داخلی صورتحال انارکی سے دوچار ہے، مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کے حوالے سے غیر آئینی اقدامات سے لے کر مذہبی بنیادوں پر آبادی کی تقسیم کے حالیہ امتیازی قانون تک بھارت مسلسل انسانی حقوق کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزیوں کا مرتکب ہے اور اس کے لازمی نتائج بھگت رہا ہے۔ بھارت واضح تقسیم سے دوچار دکھائی دیتا ہے۔ نوجوان نسل، خاص طور پر پڑھا لکھا طبقہ نریندر مودی کی فسطائی ذہنیت کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ بھارتی معاشرہ اپنے آپ میں ہی گتھم گتھا ہے۔ اب یہ واضح ہے کہ فسطائی نظریے کی پیروکار آر ایس ایس اور دیگر انتہا پسند ہندو گروہ معاشرے کے اس حصے کی آواز دبانے میں ناکام ہو چکے ہیں، جو مذہبی انتہا پسندی اور امتیاز کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ بھارت کی صف اول کی تمام یونیورسٹیوں میں آزادی کے نعرے بلند ہو رہے ہیں۔ یہ آزادی وہ نریندر مودی کی ہندوتوا سے مانگ رہے ہیں اور یہ حالات ہندو انتہا پسند نظریے والی مودی حکومت کیلئے سدِ راہ بن چکے ہیں۔ بھارت اب اندرونی خلفشار کا شکار ہے، جسکے اثرات پاکستان پر منفی انداز میں مرتب ہو سکتے ہیں۔
اسلام ٹائمز: پاکستان اگر قومی اتحاد برقرار رکھے، تو بھارت کیسے پاکستان کیخلاف محاذ آرائی کرسکتا ہے۔؟
ملک احسان ٹوانہ: اسوقت بھارتی حکومت کی اپنی شدت پسندی کی وجہ سے جو ماحول وہاں بن چکا ہے، اس وجہ سے یہ خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ حکومت کے نا پسندیدہ اقدامات کے خلاف اٹھتی آوازوں کو دبانے اور انتہا پسند نظریے والوں کو سپورٹ دینے کیلئے بھارتی سرکار اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر سکتی ہے، ان میں لائن آف کنٹرول پر چھیڑ چھاڑ یا کوئی ایڈوینچر ازم سر فہرست ہے۔ خدشات کچھ اور بھی ہیں، مثلاً حکومتی فیصلوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہونے والے بھارتی عوام کی آواز دبانے کیلئے بھارت کے اندر ایسے واقعات کا ارتکاب جن کا الزام مسلمانوں یا دیگر چھوٹی آبادیوں پر لگایا جا سکے اور اس کے نتیجے میں شدت پسند ہندوؤں کی جانب سے حکومتی سرپرستی میں گجرات طرز کے منظم فسادات، ٹارگٹ کلنگ اور نسلی کشی کے اقدامات۔ بھارت میں حکومت مخالف مظاہروں کا منظم سلسلہ پچھلے مہینہ بھر سے جاری ہے، اس دوران اس میں کمی کی بجائے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ عوام کی جانب سے بھارتی حکومت کے ناپسندیدہ فیصلوں کے خلاف جوں جوں زور بڑھتا جائے گا، مودی سرکار کی جانب سے فسادات کے خطرات بھی بڑھتے جائیں گے۔ مختلف تعلیمی اداروں میں آر ایس ایس کے غنڈوں کی جانب سے تشدد کی حالیہ کارروائیوں کو اس فلم کا ٹریلر سمجھنا چاہیے۔ پاکستان کی حکومت اس چال کو سمجھ رہی ہے اور پچھلے کچھ ہفتوں میں وزیر اعظم، وزیر خارجہ اور دیگر اعلیٰ حکومتی عہدیدار اس خدشے کا اظہار کر چکے ہیں۔
اسلام ٹائمز: اسوقت دنیا میں اور پاکستانی میڈیا میں کشمیر بالکل پس منظر میں چلا گیا ہے، کیا موجودہ حکومت غیر ذمہ داری کا ثبوت نہیں دے رہی۔؟
ملک احسان ٹوانہ: ہم سمجھتے ہیں کہ کشمیر میں الارمنگ صورتحال ہے، ضروری ہے کہ عالمی سطح پر بھی ان خدشات کا ادراک کیا جائے۔ خاص طور پر آزاد کشمیر کے حوالے سے بھارتی آرمی چیف نے جو کچھ کہا ہے وہ پاکستان کیلئے امن کے خطرے کی علامت ہے۔ بھارتی آرمی چیف کا یہ بیان موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کی نظریں اس وقت مشرق وسطیٰ کی خراب صورتحال پر مرتکز ہیں اور اس مسئلے کو سمیٹنے میں جو ممالک سفارتی طور پر متحرک ہیں، پاکستان ان میں ایک ہے۔ جب مغربی ایشیا شدید کشیدہ صورتحال کے باعث جنگ کے دھانے پر کھڑا ہے بھارتی آرمی چیف کی غیر ذمہ دارانہ بیان بازی جنوبی ایشیا کیلئے بھی خطرے کا موجب ہو سکتی ہے۔ ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت پاکستان عالمی سطح پر آواز اٹھانے میں تاخیر نہ کریگا۔ گزشتہ برس بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی نیم فوجی دستے پر حملے کا واقعہ خود ایک فالس فلیگ آپریشن تھا، مگر اس کے بعد بھارت کے جارحانہ اقدامات کے نتیجے میں حالات خطر ناک حد تک خراب ہوئے اور جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی۔ بھارت کو گزشتہ برس کے سازشی واقعات اس برس دُہرانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، اس کیلئے عالمی برادری کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ سفارتی محاذ پہ حکومت یہ پیغام پوری دنیا کو پہنچا رہی ہے، بھارتی مظالم پر پوری دنیا کا ضمیر جگانا ایک چیلننج بن چکا ہے، لیکن ہم کشمیری بھائیوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے، پاکستان اپنی حمایت اور کوشش جاری رکھے گا۔
اسلام ٹائمز: لیکن جن اسلامی ممالک نے کشمیر پر حمایت اور ہمدردی کا اظہار کیا وزیراعظم انکی دعوت اور وعدے کے باوجود ملائیشیاء میں انکے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے، کیا عرب ممالک اتنے زیادہ موثر ہوچکے ہیں۔؟
ملک احسان ٹوانہ: عرب ممالک سے پاکستان کا مذہبی رشتہ بھی ہے، دوستانہ تعلقات بھی ہیں، لیکن دیگر اقوام کیساتھ تعلقات بھی پاکستان کے قومی مفاد کیلئے ہیں، نہ ہم کسی ایک ملک کو خوش کرنیکے کیلئے دوسرے ممالک کو ناراض کرینگے نہ کسی سے تعلقات خراب کرینگے۔ سعودی عرب کیساتھ کشیدہ تعلقات کے باوجود ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے، کشمیر پر انکی حمایت بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے، اسی طرح ترکی اور ملایشیا بھی کشمیر پر جو واضح موقف رکھتے ہیں اور اسکا اظہار بھی کرتے ہیں، پاکستان اسے بہت اہمیت دیتا ہے۔ جہاں تک ملایشیا میں ہونیوالی سمٹ کا تعلق ہے، کوالالمپور سمٹ کے انعقاد سے قبل دورہ سعودی عرب کے بعد جب وزیراعظم عمران خان نے اپنا طے شدہ دورہ کوالالمپور کو ملتوی کیا لیکن پاکستان کے تعلقات ایسے نہیں جہاں دھمکیوں کی زبان استعمال ہوتی ہو اس لیے کہ یہ خالصتاً تزویراتی تعلقات ہیں، جو اعتماد افہام و تفہیم اور باہمی احترام پر قائم ہیں۔ پاکستان اور تمام مسلم ممالک کے درمیان بیشتر علاقائی، عالمی اور بطور خاص امت مسلمہ کے معاملات میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔
اسی طرح سعودی عرب ہمیشہ دوستانہ تعلقات کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے، ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے، تا کہ پاکستان ایک کامیاب اور مستحکم ملک کے طور پر اپنا کردار ادا کر سکے۔ اسی لیے سمٹ کے بعد وزیراعظم ملائیشیا کی طرف سے بھی ایک بیان سامنے آیا تھا کہ سعودی عرب کا دورہ کر کے سعودی عرب کو مطمئن کروں گا، لیکن یہ تناو اور الجھاو پیدا ہی نہ ہوتا اگر وہ سمٹ سے پہلے سعودی عرب کے تحفظات کو دور کر دیتے۔ میرے خیال میں سعودی عرب کو اعتماد میں نہ لینے اور مشورہ نہ کرنے کا واضح نقصان سامنے آیا ہے۔ اسی طرح او آئی سی کا پلیٹ فارم مسلم امہ کے اتحاد اور یکجتہی کی علامت ہے۔ کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ پاکستان کا اپنا فیصلہ تھا، اس فیصلے میں سعودی عرب کے دباؤ یا دھمکیوں کا جواز تلاش نہیں کرنا چاہیے۔ گذشتہ دور حکومت میں سعودی عرب کے پاکستان پر اعتماد اور دوستی کو شدید دھچکے لگے، وزیراعظم عمران خان نے ازسرنو پاکستان پر سعودی عرب کے اعتماد کو بحال کیا ہے اور مضبوط بنایا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر مہاتیر محمد بھی ہرگز ہرگز سعودی عرب کو کمزور یا تنہا کرنا نہیں چاہیں گے۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ قوموں اور ملکوں کے اقدامات اور فیصلے اپنے ہوتے ہیں، حکومتیں بھی اپنے من پسند فیصلے کرنے میں آزاد ہوتی ہیں۔
لیکن مسلم امہ کے ہمدرد، بہی خواہ اور اتحاد کے داعی کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اتحاد اور اجتماعیت کو مضبوط بنانے کے لیے دشمنوں کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں پر بھی نظر رکھے۔ اور تمام حالات پر نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھے۔ اس تناظر میں ڈاکٹر مہاتر محمد میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ تمام اُمور پر نظر رکھتے ہوئے مسلم امہ کے اتحاد او۔ آئی۔ سی کو مزید مضبوط اور فعال بنانے کے لیے سعودی عرب اور پاکستان کے شانہ بشانہ چلیں گئے۔ لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ ترکی اور ایران جیسے دوستوں کو ہم پہلے سے کم حیثیت و اہمیت دیتے ہیں، موجودہ صورتحال میں بھی وزیراعظم نے پہلے کی طرح وزیر خارجہ کو خصوصی طور پر ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاملات میں بہتری پیدا کرنے کیلئے وہاں بھیجا ہے، انشا اللہ پاکستان امت مسلمہ کے درمیان اتفاق اور اتحاد کیلئے کوشش جاری رکھے گا اور امن کے قیام کے لیے کوششیں جاری رکھے گا، یہ ہمارا قومی فریضہ ہے۔
اسلام ٹائمز: وزیر خارجہ دورہ ایران پر گئے ہیں، اس سے قبل وزرائے اعظم بھی ثالثی مشن کیلئے کوشش کرچکے ہیں، لیکن مثبت نتائج سامنے نہیں آئے، اسکے باوجود ہماری کوششیں کامیاب ہوسکتی ہیں۔؟
ملک احسان ٹوانہ: عراق میں امریکی ڈرون حملے کے بعد ایران کے جوابی حملے کے تناظر میں جو کشیدہ صورتحال بنی تھی، اب امریکا ایران جنگ کا خطرہ ٹل گیا، اب بھی ہمارا موقف یہی ہے کہ پاکستان کی فتح غیر جانبداری قائم رکھنے میں ہوگی، پاکستان کیلئے اہم موقع ہے، خطے کا اہم ملک ہونے کے ناطے یہ ضروری کہ پاکستان مشرق وسطیٰ کو جنگ سے بچانے میں کردار ادا کرے۔ اسی تناظر میں وزیراعظم عمران خان نے دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کو ہونے والے نقصان کا ذکر کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان اب امن والا ملک بنے گا، جو دیگر ممالک میں امن کرانے کا کردار ادا کرے گا۔ ہماری کوشش ہوگی ایران اور سعودی عرب میں دوستی کیلئے بھی اپنا کردار ادا کریں۔ اب ہم کسی کی جنگ میں شریک نہیں ہوں گے وزیراعظم عمران خان کا یہ بیان خارجہ محاذ پر اپنی حکمت عملی کے حوالے سے ایک اہم پیغام ظاہر ہو رہا ہے۔ ہم کوشش کرینگے۔
میرے خیال میں وزیراعظم عمران خان کی امن کے حوالے سے خواہشات اور سعودی عرب، ایران کے تنازع میں صلح کیلئے کردار پاکستان کے مائنڈ سیٹ کو سمجھنے کیلئے کافی ہے۔ کیونکہ نیوکلیئر طاقت کی حیثیت سے پاکستان کا عالم اسلام میں اپنی اہمیت اور کردار ہے، عالم اسلام یا ان ممالک کے درمیان اگر محاذ آرائی اور تناؤ پیدا ہوگا تو یقیناً اس سے پاکستان پر اثرات ہوں گے، یہی وجہ ہے کہ جب بھی دو مسلم ممالک کے درمیان محاذ آرائی یا تناؤ شروع ہوتا ہے تو پاکستان کا امتحان بھی شروع ہو جاتا ہے، لہٰذا وزیراعظم عمران خان نے مشرق وسطیٰ میں پیدا شدہ نئی صورتحال کے حوالے سے واضح کیا ہے کہ ہم پر امن ملک ہیں اور ملکوں کے درمیان امن چاہتے ہیں۔ لیکن اگر سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو بعض کام ہمیں نہ چاہنے کے باوجود بھی کرنے پڑتے ہیں جس میں ایک اہم فیکٹر دہشت گردی کے خلاف پاکستان کا کردار تھا اور نائن الیون کے واقعات کے بعد امریکا نے پاکستان پر دباؤ ڈالتے ہوئے ڈکٹیشن دی اور ہمیں فرنٹ لائن کنٹری قرار دیتے ہوئے افغانستان کے مقابلہ میں لا کھڑا کیا۔
امریکا سمیت 42 ممالک اور ان کی افواج یہاں اپنا تسلط تو قائم نہ کر سکیں، لیکن اس جنگ کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑا، ہماری معیشت اور انفراسٹرکچر کا ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ ہماری ساٹھ ہزار قیمتی جانوں کا نقصان ہوا اور وہ امریکا جس نے ہمیں نہ چاہتے ہوئے اس جنگ میں جھونکا، اس نے اپنا وزن علاقائی صورتحال میں بھارت کے ساتھ ڈالا۔ موجودہ صورتحال میں امریکا ایران جنگ کا خطرہ ٹل گیا، پاکستان کی کامیابی غیر جانبداری قائم رکھنے میں ہوگی۔ پاکستان کیلئے اہم موقع ہے، مشرق وسطیٰ کو جنگ سے بچانے میں کردار ادا کرے۔