علامہ جہانزیب جعفری کا بنیادی تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو سے ہے، تاہم کافی عرصہ سے وہ ایبٹ آباد میں رہائش پذیر ہیں۔ علامہ صاحب مدرسہ رسول اعظم (ص) ایبٹ آباد کے پرنسپل کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور اسوقت مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی ذمہ داری بھی نبھا رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ ایم ڈبلیو ایم ضلع ایبٹ آباد کے سیکرٹری جنرل تھے۔ علامہ صاحب کا ایک فرزند ہنگو میں ہونیوالے بم دھماکے میں شہید ہوگیا تھا۔ علامہ جہانزیب جعفری قومی درد رکھنے والی شخصیت ہیں۔ اسلام ٹائمز نے علامہ صاحب کیساتھ ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ادارہ
اسلام ٹائمز: علامہ صاحب گذشتہ دنوں خیبر پختونخوا میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پیش آئے اور بم دھماکے بھی ہوئے، کیا امن و امان کی صورتحال پھر خراب ہو رہی ہے۔؟
علامہ جہانزیب جعفری: لکی مروت میں رواں ماہ معروف پشتو شاعر اور علاقہ میں اتحاد بین المسلمین کی ایک مثال سمجھے جانے والے سید افگار بخاری صاحب کو شہید کر دیا گیا، پھر لکی مروت میں ہی ایک خودکش حملہ کو ناکام بنایا گیا، اس کے علاوہ ہنگو میں ایک شیعہ شہری رحمان علی کو فائرنگ کرکے زخمی کیا گیا اور چند روز بعد ان کی شہادت ہوگئی، ان کے قاتل بھی گرفتار ہوچکے ہیں، جو میری اطلاعات کے مطابق اقبال جرم بھی کرچکے ہیں۔ ایسے میں پشاور میں ہائیکورٹ کے قریب بھی دھماکہ ہوا، جس میں غالباً 10 افراد زخمی ہوئے۔ یہ سب واقعات کچھ اچھا تاثر تو یقینی طور پر نہیں چھوڑ رہے۔ اس حوالے سے حکومت کو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں امن و امان کے دعووں کے اطمینان میں دہشتگرد دوبارہ سرگرم نہ ہو جائیں۔ ہم نے خیبر پختونخوا سمیت پورے ملک میں کئی شہادتیں دی ہیں، ہم مزید شہادتیں دینے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
اسلام ٹائمز: گذشتہ دنوں خبر آئی تھی کہ ایم ڈبلیو ایم کی صوبائی قیادت نے شیڈول فورتھ اور لاپتہ افراد کے مسئلہ کے حوالے سے حکومتی اراکین سے ملاقاتیں کی ہیں، اس حوالے سے کوئی پیشرفت ہوسکی ہے۔؟
علامہ جہانزیب جعفری: یہ مسئلہ ہمارا بہت اہم ہے، مجلس وحدت مسلمین کی قیادت خصوصاً علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اس حوالے سے ہر فورم پر آواز اٹھائی ہے۔ کچھ ملاقاتوں میں، میں بھی موجود تھا، اس میں حکومتی وزراء کا موقف قابل اطمینان تھا، تاہم اس حوالے سے جب تک عملی کام نہیں ہوتا، اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ریاست قانون کے مطابق ڈیل کرے، ہمارے کئی بے گناہ اور شریف شہریوں اور علمائے کرام کو صرف بیلنس پالیسی کے تحت ماضی میں شیڈول فورتھ میں ڈالا گیا۔ لاپتہ کیا گیا۔ حکومت سے امید کرتے ہیں کہ وہ جلد ان مطالبات پر عمل کرے گی۔
اسلام ٹائمز: اگر یہ مطالبات منظور نہیں ہوتے تو کیا احتجاج کا راستہ اختیار کیا جائیگا۔؟
علامہ جہانزیب جعفری: دیکھیں، احتجاج تو آخری آپشن ہوتا ہی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ پہلا آپشن بات چیت ہونا چاہیئے، جب مسائل مذاکرات سے حل ہوں تو احتجاج کی ضرورت ہی نہیں پڑتی، تاہم اگر یہ معاملات اور مسائل حل نہ ہوئے اور حکومت نے تاخیری حربے استعمال کئے تو ہم احتجاج کا راستہ بھی اختیار کرسکتے ہیں۔
اسلام ٹائمز: بڑھتی ہوئی مہنگائی نے ملک بھر میں عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے، گذشتہ روز حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ کر دیا، آپ اس اقدام کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ جہانزیب جعفری: یقیناً یہ قابل افسوس ہے، ملک میں پہلے ہی غربت اور بے روزگاری ہے، ایسے میں آئے روز بڑھتی ہوئی مہنگائی ناقابل برداشت ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ معیشت اور اداروں کو منافع بخش بنانے کیلئے متبادل ذرائع تلاش کرے، نہ کہ غریب عوام پر بوجھ ڈالا جائے۔ حکومت ایسے اقدامات سے عوامی مقبولیت کھو رہی ہے۔ مہنگائی بڑھنے کا یہی سلسلہ رہا تو غریب تو خودکشیوں پر مجبور ہو جائیں گے۔ لہذا میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان اس جانب خصوصی توجہ دیں اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کریں۔
اسلام ٹائمز: حکومت کو تو داخلی سطح سمیت مختلف خارجی محاذوں پر بھی مشکلات کا سامنا ہے، کوالالمپور سمٹ کو لیکر حکومت پر کافی تنقید ہو رہی ہے، آپ کیا کہیں گے۔؟
علامہ جہانزیب جعفری: اس حوالے سے ہماری قیادت کا واضح موقف آچکا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان نے کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہ کرکے پاکستان کو تنہائی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ یہ اجلاس بہت اہم تھا، ہم نے آل سعود کی غلامی کو قبول کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ پاکستان نے ان مسلم ممالک کا ساتھ چھوڑا جو کشمیر سمیت کئی ایشوز پر پاکستان کے ساتھ کھڑے تھے، ان ممالک نے اپنا عالمی سطح پر نقصان برداشت کیا، لیکن کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان کا ساتھ دیا، یہ افسوسناک ہے۔ حکومت کو آزاد خارجہ پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے، ہمیں گوں مگوں کیفیت کا شکار نہیں ہونا چاہیئے، اپنا موقف اور پالیسی صرف اور صرف ملکی و امت مسلمہ کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھ کر اپنانی چاہیئے۔
اسلام ٹائمز: اگر عمران خان آل سعود کی حکم عدولی کرتے تو پاکستان کے لاکھوں افراد کو روزگار چھوڑ کر سعودی عرب سے واپس آنا پڑتا، مشکلات میں پھنسا ملک مزید بے روزگاری کا بوجھ کیسے برداشت کر پاتا۔؟
علامہ جہانزیب جعفری: غیرت مند قومیں ایسی دھمکیوں سے نہیں ڈرتیں، اگر پاکستان کے لاکھوں لوگ سعودی عرب میں ملازمتیں کر رہے ہیں تو پاکستان کے بھی سعودی عرب پر کئی احسانات ہیں، سعودی سربراہی میں موجود نام نہاد اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کی سربراہی بھی اس وقت پاکستانی جرنیل کے پاس ہے، اس کے علاوہ بھی کئی لحاظ سے پاکستان سعودی عرب کو سپورٹ کر رہا ہے، لہذا میں سمجھتا ہوں کہ یہ آل سعود کی محض ایک دھمکی تھی، جس پر عمران خان صاحب خوفزدہ ہوگئے۔
اسلام ٹائمز: کشمیر ایشو تو یکسر دب کر رہ گیا ہے، کیا وجہ دیکھتے ہیں۔؟
علامہ جہانزیب جعفری: اس ایشو کو اس طرح دبنا نہیں چاہیئے تھا، اس کا مطلب تو ہندوستان یہ لے گا کہ ہم ہمت ہار گئے ہیں، حالانکہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے، کشمیری عوام کو ہم سے بہت امیدیں ہیں۔ ہمیں کشمیر کے مسئلہ کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیئے۔ مودی کی مسلم دشمنی کا اندازہ آپ اس سے بھی لگا سکتے ہیں کہ اس ظالم نے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کیلئے بھی دائرہ تنگ کر دیا ہے۔ مسلم امہ کو اس پر ایکشن لینا چاہیئے۔ پاکستان کے پاس یہ سنہری موقع ہے کہ وہ مودی سرکار کو عالمی سطح پر دہشتگرد ریاست ثابت کرے۔ بھارتی حکومت نے نہ صرف کشمیر بلکہ اپنے ملک میں ظلم و زیادتی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔
اسلام ٹائمز: آج سابق وزیراعظم بینظر بھٹو صاحبہ کی برسی تھی، انکے قاتل بھی آج تک منظر عام پر نہیں آسکے، کیا یہ کیس بھی قاتلوں تک پہنچے بغیر ختم ہو جائیگا۔؟
علامہ جہانزیب جعفری: یہ پاکستان کا قومی نقصان تھا، لیکن افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جب بینظیر صاحبہ کی اپنی پارٹی کی حکومت رہی اور ان کے خاوند صدر مملکت رہے، اس وقت بھی اس کیس پر توجہ نہیں دی گئی۔ ان کے قاتلوں کو منظر عام پر آنا چاہیئے، وہ ایک پارٹی کی قائد نہیں بلکہ پاکستان کی سابق وزیراعظم تھیں۔ قوم ان کے قاتلوں کے حوالے سے پوچھنے میں حق بجانب ہوگی۔