0
Monday 9 Dec 2019 01:00

نواز شریف الطاف حسین کیطرح برطانیہ کے ایماء پر پاکستان کو بلیک میل کرنیکی کوشش کر رہے ہیں، سینیٹر ولید اقبال

نواز شریف الطاف حسین کیطرح برطانیہ کے ایماء پر پاکستان کو بلیک میل کرنیکی کوشش کر رہے ہیں، سینیٹر ولید اقبال
مصور پاکستان علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال نے ابتدائی تعلیم ایچی سن کالج لاہور سے حاصل کی، 1988ء میں امریکہ سے معاشیات میں گریجوایشن کیا، 1994ء میں یونیورسٹی آف پنجاب لاہور سے ایل ایل بی مکمل کیا اور 1997ء میں ھاورڈ اسکول سے قانون میں ماسٹر مکمل کیا۔ انہوں نے کیمرج سے فلسفے میں بھی ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے۔ 1997ء سے 2005ء تک انٹرنیشنل لاء فرم Sullivan & Cromwell and Freshfields Bruckhaus Deringer میں کام کرتے رہے۔ وہ نجکاری، انضمام کار، کارپوریٹ اینڈ پروجیکٹ فنانس، مالیاتی ادارے، سرمایہ کاری کی مینجمنٹ، اشتراک کار، توانائی، پیٹرولیم، اثاثہ جاتی مالیات، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹیلی کیمونیکیشن، سافٹ ویئر ڈیولیپمنٹ اور کارپوریٹ ری اسٹرکچرنگ میں متخصص ہیں۔ 2005ء سے لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے سلیمان داؤد بزنس اسکول میں بزنس لاء کے استاد ہیں۔ وہ سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن، لاہور اسٹاک ایکسچینج اور پیٹرولیم کے عالمی مذاکرات کاروں کی ایسوسی ایشن کے ممبر ہیں۔ انہوں نے 2013ء میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن میں حصہ لیا، دسمبر 2018ء میں پنجاب سے سینیٹ آف پاکستان کے رکن منتخب ہوئے۔ پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنماء کیساتھ اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: جس عدالت نے نواز شریف کو ہمدردی کی بنیاد پہ باہر جانے کی اجازت دی، کیا مریم نواز بھی باہر چلی جائینگی۔؟
سینیٹر ولید اقبال:
ہمارا نعرہ یہ ہے قانون سب کے لیے ایک جیسا ہونا چاہیے، اور قانون کی نظر میں سب کو ایک ہونا چاہیے، اس طرح اس سے قبل ایسی کوئی مثال نہیں کہ مریض کے پاس سارا خاندان ہونے کے باوجود ای سی ایل سے نام نکالنے اور باہر جانے کی درخواست سنی جائے۔ حکومت مریم نواز کا نام ای سی ایل سے نہیں نکالے گی لیکن اگر عدالت نے حکم دیا تو فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا۔ رجسٹرار درخواست پر کئی اعتراضات لگاتے ہیں لیکن سیاستدانوں کے مقدمات پر کوئی اعتراض نہیں لگایا جاتا اور انہیں فوراً ہی سننے کے لیے لگا دی جاتی ہے۔ ایگزٹ کنٹرول لسٹ کا قانون سے کوئی تعلق نہیں ہے اس کا الگ قانون ہے۔ حکومت جب کسی کا نام ای سی ایل میں ڈالتی ہے تو وہ کہتی ہے کہ نیب کے کہنے پر ڈالا گیا ہے۔ یہ ایک سیاسی طریقہ ہے۔ پاکستانی عدالتوں میں دو طرح کے مقدمات ہوتے ہیں، ایک بڑے لوگوں سیاستدانوں کے اور دوسرے عام لوگوں کے لیے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں عدالتوں کا بڑا کردار رہا ہے۔ پاکستانی عدالتوں کو سیاسی پیرائے میں پرکھا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر عدالتیں مختلف راستے پر ہوتی ہیں اور 70 سالوں سے یہ ملک اسی طرح چل رہا ہے۔ 

یہ درست ہے کہ اگر سائل کیس کی ایمرجنسی کی سماعت فائل کرے تو اسے سنا جا سکتا ہے تاہم یہ فیصلہ عدالت کرے گی کہ کیس فوراً سنا جائے یا نہ۔ ای سی ایل میں کسی کا نام ڈالنا عدالت کا اختیار نہیں بلکہ حکومت کا اختیار ہے۔ ہمارے ملک میں غریب تک انصاف پہنچتے پہنچتے بہت تاخیر ہو جاتی ہے، لیکن سیاستدانوں کے لیے فوراً ہی عدالتیں لگا دی جاتی ہیں۔ سیاسی رہنما تھوڑا سا بیمار ہوتے ہیں تو انہیں اسپتالوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے لیکن ایک عام آدمی جیلوں میں تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے لیکن اسے فوراً میڈیکل کی سہولت فراہم نہیں کی جاتی۔ عدالتیں کہتی ہیں ہم چہرہ نہیں مقدمہ دیکھتے ہیں لیکن شریف خاندان کے حوالے سے ہم کیا دیکھ رہے ہیں ؟ عام آدمی کے بارے میں کیوں نہیں سوچا جاتا ؟ عوام کو کون بے وقوف بنا رہا ہے؟ ملک لوٹنے والوں کو کیوں باہر جانے دیا جائے جبکہ ان کے خاندان کے کئی افراد جو مجرم ہیں وہ بیرون ملک مفرور ہیں اور وہ عدالتوں سے عوام سے کئی بار جھوٹ بول چکے ہیں۔ ہماری قوم سے مذاق نہیں کیا جائے۔ ہم نئے پاکستان کی بنیاد رکھ رہے ہیں جو کمزور اور طاقتور کیلئے ایک جیسا پاکستان ہوگا۔

 اسلام ٹائمز: عمران خان پاکستان میں انصاف اور عام آدمی کی زندگی میں خوشحالی اور قائدؒ و اقبالؒ کے ویژن کے مطابق فلاحی ریاست کا نعرہ لیکر اقتدار میں آئے، اس میں کوئی کامیابی نہیں ہوسکی، یہ نعرے کھوکھلے کیوں ثابت ہوئے ہیں۔؟
سینیٹر ولید اقبال:
وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں پاکستانی معیشت درست سمت میں جاری ہے، موڈیز نے پاکستان کی معیشت کو مستحکم قرار دیا ہے، موڈیز نے پاکستان کی ایک سال اور تین ماہ کی کارکردگی کو منفی سے مستحکم کردیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے ملکی معیشت کو تباہ حال شکل میں چھوڑ کر گئی۔ مسلم لیگ (ن) سے جب حساب مانگا جاتا ہے تو وہ راہ فرار اختیار کرلیتے ہیں لیکن ہم انہیں بھاگنے نہیں دیں گے۔ مسلم لیگ (ن) اربوں روپے کا گردشی قرضہ چھوڑ کر گئی تھی، موجودہ حکومت نے مقروض ملک کو وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں سنبھالا تو حکومت کی کوششوں کی وجہ سے ملک نہ صرف ترقی کے راستے پر گامزن ہوگیا ہے بلکہ ملکی معیشت میں بھی بہتری آئی ہے۔ اگست کے بعد سٹاک مارکیٹ میں 11000 کا اضافہ ہوا ہے جبکہ رواں ماہ سٹاک مارکیٹ میں 5000 ہزار اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ایکسپورٹ اور ٹیکس وصولی میں اضافہ ہوا ہے جو ملکی معیشت کی بہتری کا ضامن ہے۔

اگر یہ ملکی معیشت جو دیمک زدہ تھی، ہم اسے بہتر بنانے میں ہو جاتے ہیں تو عام آدمی کی زندگی میں آسانی اور بہتری آنا شروع ہو جائیگی، کرپٹ لوگوں نے ملک کا جو حال کر دیا تھا، اس کے بعد یہ ممکن نہیں کہ ایک دم ہی معیشت میں آنیوالی بہتری کے اثرات آنا شروع ہو جائیں گے، جب حکومت اپنی ذمہ داری درست طریقے سے پوری کریگی تو پورا ملک خوشحال ہوگا، لیکن اس میں دیر ہماری وجہ سے نہیں بلکہ پہلے سے پیدا ہونیوالے بگاڑ کی وجہ سے ہو رہی ہے، ہمارا وژن اور نیت دونوں ٹھیک ہیں، کامیابی زیادہ دور نہیں۔ نوجوانوں کا بڑا فلیگ شپ منصوبہ شروع کررہے ہیں، وزیراعظم نوجوانوں میں 1 ارب کی تقسیم کا مرحلہ شروع کریں گے، نہ کوئی سفارش نہ میرٹ پر سمجھوتہ اور بلاتفریق قرض تقسیم ہورہا ہے، نوجوان اپنا کاروبار کریں اور ملکی معیشت کو مضبوط بنائیں۔ کامیاب جوان پروگرام کے پہلے مرحلے میں100 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، پروگرام کے تحت1 سے50 لاکھ تک کے چیک نوجوانوں کو دئیے جائیں گے۔

اسلام ٹائمز: یہی اعداد و شمار پیش کرکے شہباز شریف نے پنجاب اور اسحاق ڈار نے پاکستان کو جنت بنانیکا خواب دکھایا تھا، عام آدمی جب موازنہ کرتا ہے تو اسے کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا، موجودہ پنجاب حکومت کے متعلق کرپشن پر وفاق یا وزیراعظم نے کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا۔؟
سینیٹر ولید اقبال:
احتساب اور نگرانی کیلئے ملک میں نیب اور دیگر ادارے موجود ہیں، جو فعال بھی ہیں، یہ پروپیگنڈہ کا کلچر ہمارے ہاں موجود ہے، جس کی بنیاد پہ سیاست کی جاتی ہے، لیکن شہباز شریف کا موازنہ صرف کسی کرپشن یونیورسٹی کے آئن سٹائن سے ہی کیا جا سکتا ہے، عثمان بزدار تو انکا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ صرف شہباز شریف کے وفود کے ہمراہ بیرون ملک دوروں پر ہونیوالے اخراجات سے متعلق دستاویزات پنجاب اسمبلی میں پیش کی گئی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب بیرون ملک دوروں کے اخراجات ذاتی جیب سے نہیں کرتے رہے، بلکہ خزانے سے ان کی ادائیگی کی جاتی رہی ہے۔ وفاق انکے ساتھ تھا، 27 اپریل 2002ء کے وفاقی حکومت کے مراسلے کے مطابق سرکاری افسروں کا عوامی جمہوریہ چین میں بطور سٹیٹ گیسٹ استقبال کیا جاتا ہے اور وہاں انکی رہائش، ٹرانسپورٹ اور کھانے کی ذمہ داری چین کی حکومت کی ہے۔

لیکن پنجاب بورڈ آف انویسٹمنٹ اینڈ ٹریڈ کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات کے مطابق شہباز شریف بطور وزیراعلیٰ سرکاری دوروں کے دوران اضافی اخراجات بھی وصول کرتے رہے ہیں۔ 2015ء اور2017 ء میں شہباز شریف کے چین کے دوروں کے 20 لاکھ سے زائد اخراجات سرکاری خزانے سے ادا کئے گئے، اس کے باوجود آج تک شہباز شریف کے بیرون ملک سرکاری دوروں کے ثمرات سے متعلق رپورٹ، سروے یا معاہدے بھی منظر عام پر نہ آ سکے۔ کیا جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والا ایک سیاستدان اس طرح کی مکاری اور چالاکی کا حامل وہ سکتا ہے؟۔ ہرگز نہیں۔ اس کے باوجود عمران خان کی جانب سے تمام حکومتی ارکان کی سخت نگرانی جاری رہتی ہے، کوئی بھی یہ نہیں سوچ سکتا کہ وہ اپنی سیاسی یا سرکاری حیثیت استعمال کر کے خردبرد کرے یا لوگوں کا پیسہ ہضم کر جائے۔

اسلام ٹائمز: اپوزیشن کیجانب سے غیر ملکی فنڈنگ کیس پر لگائے جانے والے الزامات آپکے دعویٰ کی تصدیق نہیں کرتے، پی ٹی آئی نے اس کیس کو التواء میں کیوں ڈال رکھا ہے۔؟
سینیٹر ولید اقبال:
ہماری طرف سے کبھی کوشش نہیں ہوئی کہ کوئی بھی کیس ملتوی رہے، یا اسکا فیصلہ دیر سے آئے، یا شفافیت برقرار نہ رہے، اس کیس میں مسلم لیگ (ن) پھنسے گی اور برے طریقے سے پھنسے گی، میرا مطالبہ ہے کہ ملک کی تینوں بڑی جماعتوں کی غیر ملکی فنڈنگ چیک کی جائے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان تمام سیاسی جماعتوں کی جانچ پڑتال ایک ساتھ کرے۔ بلاول بھٹو زرداری جعلی بھٹو ہے، بلاول بھٹو زرداری کو نئے وزیراعظم کے خوابوں پر کوئی پابندی نہیں ہے انہیں اپنے والد کی منی لانڈرنگ کا حساب دینا ہوگا۔ پاکستان کے اچھے دن شروع ہو گئے ہیں جو حکومت کے خلاف سازشیں کررہے ہیں ان کی سازشیں ناکام ہوں گی۔ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی بینک اکائونٹس منی لانڈرنگ کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ شہباز شریف جھوٹے حقائق پر مبنی بیانات دے کر عوام کو گمراہ کر رہے ہیں، ڈیلی میل کا ڈیوڈ روس روز آپ سے پوچھ رہا ہے کہ آپ کب لندن کی عدالتوں میں ہتک عزت کا مقدمہ کریں گے۔ 10 برس میں ن لیگ نے پنجاب میں جی بھر کر کرپشن کی اور پنجاب کو 12 سو ارب کا مقروض کردیا گیا۔ شہباز شریف کے خلاف 6 سے7 وعدہ معاف گواہ موجود ہیں، شہباز شریف بے گناہی کے بڑے دعوے کر رہے ہیں جبکہ فرنٹ مین اربوں کی کرپشن کا اعتراف کر چکے، 56 کمپنیوں کے ذریعے لوٹ مار کر کے صوبہ خسارے میں دیا۔

اسلام ٹائمز: نواز شریف کو طبی بنیاد پہ بیرون ملک بھیجا گیا، اب آصف زرداری نے بھی درخواست دی ہے، کیا انکے معاملے میں بھی حکومت ویسی ہی لچک کا مظاہرہ کریگی۔؟
سینیٹر ولید اقبال:
قانون کی نظر میں سب برابر ہیں اور کوئی بھی قانون سے بالا تر نہیں ہے، حکومت ہر شہری کے ساتھ مساوی سلوک کرے گی۔ پی ٹی آئی کی حکومت کا مشن ہے کہ کامیابی اس وقت تک نہیں مل سکتی جب تک ہر شہری کے لئے مساوی قانون کو یقینی نہ بنایا جائے۔ وہ سیاست تو پاکستان میں کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنا علاج بیرون ملک سے کرانے کے خواہش مند ہیں۔ اگر عدالت آصف علی زرداری کو اجازت دیتی ہے تو حکومت اس میں مداخلت نہیں کرے گی۔ ہر شہری کے ساتھ قانون کے مطابق مساوی سلوک کیا جائے گا۔ حکومت آصف علی زرداری کی صحت پر میڈیکل بورڈ کی سفارشات کے مطابق عمل کرے گی۔ ہمیں پر امن اور خوشحال پاکستان کے لئے مل کر کام کرنا چاہیے اور قوم کے مفاد پر کسی بھی قیمت پر سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔

حکومت اپوزیشن کے غیر آئینی اور غیر جمہوری مطالبات کو تسلیم نہیں کرے گی لیکن ان کے آئینی مطالبات کو قبول کیا جائے گا۔ میں بھی اس ست اتفاق کرتا ہوں کہ آصف زرداری ابھی ملزم ہے مجرم نہیں، نواز شریف تو مجرم ہیں جبکہ شہباز شریف کے اگلے 10 سے 15 روز میں اس سے بھی بڑے کیس سامنے آنے والے ہیں۔ ممکن ہے کہ رواں سال کے آخر تک آصف زرداری، فریال تالپور شرجیل میمن، مراد علی شاہ، آغا سراج درانی اور اعجاز کھترانی کے ساتھ پلی بارگین کی پیکج ڈیل بھی ہوجائے، لیکن خورشید شاہ کا مسئلہ مختلف ہے۔ حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کا کیس سنجیدہ ہے جبکہ شہباز شریف کا کیس بھی 10 سے 15 روز میں سنجیدہ نوعیت کا ہوجائے گا، کیونکہ پانچ ایسے گواہ سامنے آگئے ہیں جن کے مطابق سیکڑوں ارب روپے کی منی لانڈرنگ ہوئی۔ نواز شریف اگر مجرم ہونے کے باوجود بیرون ملک جاسکتے ہیں تو آصف زرداری کے خلاف کیس کا ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔

اسلام ٹائمز: مائنس عمران خان کی چہ مہ گوئیاں ہو رہی ہیں؟ کیا یہ حقائق پہ مبنی ہیں۔؟
سینیٹر ولید اقبال:
جو مائنس ون کی بات کر رہے ہیں ان کو بتاؤں کہ اس وقت تحریک انصاف میں یا پورے ملک میں ان کے برابر کا کوئی لیڈر نہیں ہے اس لیے اپوزیشن کو عمران خان کے بطور وزیر اعظم ہی گزارا کرنا پڑے گا۔ اپوزیشن کو اپنے لیڈر کی تلاش ہے، ان کو سیاست پاکستان میں اور ملاقاتیں لندن میں کرنی ہے، عمران خان کو مائنس کرتے کرتے نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز خود بھی مائنس ہو گئے ہیں۔ پی ٹی آئی ایک شخص کا نام ہے جو عمران خان ہے، وہاں کوئی بغاوت نہیں کرسکتا، شریف خاندان کی سیاست ختم ہوگئی۔ مولانا فضل الرحمن نے حکومت جانے کی بات 3 سال کے بعد آنے والے دسمبر کی کہی ہوگی، مولانا فضل الرحمن کا دھرنا بری طرح ناکام ہوا ہے، مولانا کے ساتھ اُن کی ہم خیال پارٹیاں نہیں چلیں تو قوم اُس کے ساتھ کیسے چلے گی۔؟

اسلام ٹائمز: نواز شریف کیلئے ایک طرف ہمدردی کی بنیاد پہ ضمانت بھی دی گئی، دوسری طرف انکے ذکر پر لب و لہجے میں معمول سے زیادہ سختی کیوں ظاہر کی جا رہی ہے؟ کیا حکومت خفت مٹانا چاہتی ہے۔؟
سینیٹر ولید اقبال:
یہ سیاست ہے، کسی کو کسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے، جو کچھ ہونا چاہیے ملکی مفاد میں ہونا چاہیے، پھر جو شخص اتنے سال تک اقتدار میں رہا ہو، اسکی ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے، لیکن نواز شریف نے اقتدار میں رہتے ہوئے ملک کو لوٹا اور جب کرپشن کیس کیوجہ سے اقتدار سے الگ اور نااہل کر دیئے گئے تو ریاست اور حکومت کو بلیک میل کرنیکی کوشش کر رہے ہیں۔ ملکی سیاست میں ایک دھرنا ہوا جو ناکام ہوا، اس دھرنے کے لیے بڑی تیاریاں کی گئی تھیں اور اس پر اربوں روپے خرج ہوئے۔ نواز شریف ضدی آدمی ہیں، وہ موجودہ حکومت کو گرانے کے لیے مالی معاونت کر رہے تھے، دوسری طرف شہباز شریف اپنے اور بیٹوں کے کیسز میں اس قدر پھنس چکے ہیں کہ وہ پلی بارگین کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ یہ پورا ماسٹر پلان شہباز شریف نے ہی بنایا اور نواز شریف کو باہر لے جانے میں کافی حد تک انہی کا کردار ہے۔ اب وہ لندن میں بیٹھ کر برطانوی اداروں کیساتھ اپنے مبینہ تعلقات کیوجہ سے پاکستان کو بلیک میل کرنیکی کوشش کر رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے غدار الطاف حسین اور نواز شریف میں کوئی فرق نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: اقتدار کیلئے رسہ کشی تو ہمیشہ ہی جاری رہتی ہے، لیکن ملکی سلامتی اور آئین کی عملداری کیلئے جہاں مشترکہ لائحہ عمل کی ضرورت پڑتی ہے، وہاں اس تناؤ کے منفی اثرات کا تدارک کیسے کیا جائیگا۔؟
سینیٹر ولید اقبال:
پاکستان سب کا ہے، جہاں تک احستاب کی بات ہے یہ تو جاری رہیگا، لیکن ملک کیلئے تمام ادارے ایک پیج پر ہیں، موجودہ آرمی چیف نے ہمیشہ سول اداروں کو مضبوط کرنے کی بات کی ہے، جب کہ وزیراعظم بھی اداروں کا استحکام چاہتے ہیں۔ حکومت تمام سیاسی معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرے گی۔ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ملکی سلامتی کے معاملات پر کسی قسم کا ڈیڈ لاک نہیں ہے، کیونکہ حکومت ملک کے بہترین مفاد میں تمام سیاسی معاملات کو اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات سے حل کرنا چاہتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لئے کام کررہی ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان مذاکرات کا عمل جاری ہے گا، جو جمہوریت کا حسن ہے۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرلیا جائے گا۔

پی ٹی آئی کی حکومت ملک میں سیاسی ماحول کو بہتر بنانے کے لئے بھرپور کوششیں کررہی ہے اور اپوزیشن نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ارکان اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری سمیت دیگر تمام ریاستی امور کے لئے مذاکرات کا عمل شروع کیا ہے، توقع ہے کہ آنے والے دنوں میں تمام امور کو مذاکرات کے ذریعے حل کرلیا جائے گا۔ چیف الیکشن کمشنر کے معاملے پر دونوں اطراف سے مثبت ردعمل رہا اور بڑی حد تک اتفاق رائے ہو چکا ہے اور شہباز شریف کے حالیہ کرپشن ثبوتوں سے کوئی تکلیف نہ پہنچی ہو تو پھر معاملہ جلد حل ہو جائے گا۔ فوج، عدلیہ اور حکومت کو حقیقت کا تدارک کرتے ہوئے ہی آگے چلنا ہے۔ پارلیمنٹ عدلیہ کے ماتحت نہیں ہے بلکہ پارلیمنٹ ایک سپریم ادارہ ہے اس لیے عدلیہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کے لیے نہیں‌ کہہ سکتی۔ سپریم کورٹ کے تمام بڑے ججوں نے فیصلہ دیا ہے، تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد دیکھیں گے کہ کیسے آگے بڑھنا ہے۔
خبر کا کوڈ : 831569
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش