0
Tuesday 17 Dec 2024 19:16

سولہ دسمبر، سانحے پر سانحے کا دن

سولہ دسمبر، سانحے پر سانحے کا دن
تحریر: سید تنویر حیدر

کل سولہ دسمبر کا دن تھا۔ یہ دن اپنے دامن میں دو قومی سانحات لیے ہوئے ہے۔ سانحہء مشرقی پاکستان اور ”اے پی ایس“ کا سانحہ۔ یہ دونوں سانحات جہاں ہمارے دشمنوں کی دشمنی کا نتیجہ تھے وہاں یہ ہمارے دوستوں کی غلط حکمت عملی کا بھی شاخسانہ تھے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ہماری اس وقت کی سیاسی اور فوجی قیادت ایک دوسرے سے بڑھ کر قصور وار تھے۔ ہماری غلطیاں ”حمودالرحمن کمیشن“ کے صفحات میں بیان کردہ ہماری غلطیوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ ہماری اکثر عوام کے ذہنوں میں بھی یہ راسخ کر دیا گیا تھا کہ بنگالی ہم سے کم درجے کی کوئی مخلوق ہیں اور ہماری معیشت پر بوجھ ہیں۔ یہ ہم ہیں جو مشرقی پاکستان میں آئے روز آنے والے سیلابوں کی تباہ کاریوں کے اثرات برداشت کرتے ہیں۔

ہم نے یہ نہ سوچا کہ ہم نے اپنے جس بازو کو کمزور جان کر اپنے جسم سے علیحدہ کردیا ہے اس سے ہم ”ٹونڈے“ ہوکر رہ گئے ہیں۔ یقیناً ہماری قومی زندگی کا یہ سب سے بڑا سانحہ تھا۔ سولہ دسمبر کو ہی ہمارے وجود پر جو دوسرا بڑا زخم لگا وہ ان دہشت گردوں کے ہاتھوں سے لگا جن کی پرورش ہمارے ہاتھوں میں ہوئی تھی اور جنہیں ہم نے اپنا اثاثہ قرار دیا تھا۔ ایک فوجی حکومت نے سوویت یونین کو توڑنے کے لئے ان کو عسکری تربیت دی اور ایک سیاسی قیادت نے انہیں اپنے ہیرو کا درجہ دیا اور ان کے نظریات کی وکالت کی نیز اپنے قول و فعل سے ان کے متشددانہ طرز عمل کو کسی حد تک جواز فراہم کیا۔

اتفاق سے طالبان نام کے اس عفریت اور اس سیاسی قیادت کی جماعت کی تاسیس ایک ہی مقام پر رکھی گئی اور وہ مقام عالمی شہرت کا حامل ایک مدرسہ تھا جو اوکاڑہ خٹک میں واقع تھا اس کے مہتمم مولانا سمیع الحق تھے۔ طالبان کے امیرالمومنین ملا عمر بھی اسی مدرسے کے فارغ التحصیل تھے۔ یہ وہ مقام تھا جہاں طالبان کی بنیاد رکھی گئ۔ دوسری جماعت جس کی بنیاد اس مدرسے میں رکھی گئی اس کا نام ”تحریک انصاف“ تھا۔ اوکاڑہ خٹک کے ”مدرسہ حقانیہ“ میں ایک اجتماع منعقد ہوا جس میں اس جماعت کا اعلان کیا گیا۔ اجتماع کے اختتام پر مولانا سمیع الحق نے دعا کی اور پھر یہ اجتماع ایک جلوس کی شکل میں مدرسے سے برآمد ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مولانا سمیع الحق اپنے تکفیری نظریات کی وجہ سے مشہور تھے۔

البتہ اپنی زندگی کے آخری دور میں وہ اپنے ان انتہاپسندانہ نظریات سے تائب ہوگئے تھے۔ یہاں تک کہ ایک دفعہ اسلامی جمہوری ایران نے انہیں ایران دعوت دی تھی جہاں انہوں نے اہل سنت کی ایک مسجد کی بنیاد رکھی تھی۔ شاید ان کا قتل بھی ان کی اسی طرح کی پالیسیوں سے ان کا یوٹرن تھا۔ تحریک انصاف کے قائد، طالبان اور  تحریک طالبان سے جو نرم رویہ رکھتے ہیں اس کی وجہ شاید اوکاڑہ خٹک کے مدرسے سے ان کی کم یا زیادہ روحانی وابستگی ہے۔ بہرحال یہ دو سانحات بھی ہمارے حکام اور ہماری عوام دونوں کے لیے ایک درس گاہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اب یہ ہماری اہلیت پر منحصر ہے کہ ہم اس سے کس حد تک درس حاصل کرتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1178650
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش