1
Tuesday 30 Jul 2024 20:53

اپنی بقا کیلئے جلاد کی تگ و دو

اپنی بقا کیلئے جلاد کی تگ و دو
تحریر: سعید سبحانی
 
غاصب صیہونی رژیم کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے گذشتہ ہفتے امریکہ کا دورہ کیا اور امریکی کانگریس میں تقریر بھی کی۔ اگرچہ بڑی تعداد میں اراکین کانگریس نے اس تقریر کا بائیکاٹ کیا لیکن غزہ میں جاری فلسطینیوں کی نسل کشی کے حامی جنگ طلب اراکین کی کچھ تعداد نے اس میں شرکت کرنے کے ساتھ ساتھ جنگی مجرم نیتن یاہو کو بھرپور داد بھی دی۔ بنجمن نیتن یاہو نے ان اراکین کانگریس کی طرف سے اپنی حوصلہ افزائی کئے جانے کو اہم کامیابی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسری طرف امریکی ذرائع ابلاغ نے بھی امریکہ میں سرگرم صیہونی لابیوں کا ساتھ دیتے ہوئے نیتن یاہو کے سفر کو کامیاب ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔ جب ہم زمینی حقائق کا جائزہ لیتے ہیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ بنجمن نیتن یاہو اقتدار میں حتی کچھ دن مزید باقی رہنے کیلئے سخت ہاتھ پاوں مارنے میں مصروف ہے۔
 
صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے دورہ امریکہ کے اہم ترین پیغامات میں سے ایک یہ ہے کہ امریکہ میں فلسطین کے حامیوں کی تعداد میں خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے۔ پولیٹیکو نے صیہونی وزیراعظم کے دورہ امریکہ کے وقت واشنگٹن میں فلسطین کے حامیوں کی طرف سے منعقد ہونے والے وسیع احتجاجی مظاہروں کی رپورٹ جاری کرتے ہوئے لکھا ہے: "ریپبلکنز اس احتجاج اور امریکہ میں امریکی پرچم نذر آتش کئے جانے پر شدید غصے کا شکار ہیں۔" اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکیوں نے امریکی پرچم نذر آتش کئے جانے اور واشنگٹن ڈی سی یونین بس اسٹینڈ پر ہنگامہ آرائی کو فوراً وسیع پیمانے پر یہود دشمنی پر دلیل کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا ہے۔ پولیٹیکو نے اپنی رپورٹ میں اس احتجاج کے کچھ واقعات کا ذکر بھی کیا ہے۔ ان واقعات کے بارے میں خود امریکی سیاست دانوں اور سینیٹرز نے بھی اظہار خیال کیا ہے۔
 
مثال کے طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن اور امریکی سینیٹ میں سربراہی کمیٹی کے رکن سینیٹر جان باراسو نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے پیغام میں لکھا: "اسرائیل مخالف مظاہرین نے کانگریس کی عمارت کے چند قسم کے فاصلے پر امریکی پرچم اتار کر اس کی جگہ فلسطینی پرچم لہرا دیا تھا۔ یہ اقدام ناقابل قبول ہے اور مجھے توقع ہے کہ ان افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔" جس دن صیہونی وزیراعظم نے امریکی کانگریس میں تقریر کی اس دن کانگریس کے باہر ہی سینکڑوں مظاہرین نے جمع ہو کر امریکی پرچم نذر آتش کر دیا اور فلسطینی پرچم لہرا دیا۔ دوسری طرف امریکی پولیس نے مظاہرین کے خلاف طاقت استعمال کرتے ہوئے انہیں زدوکوب کا نشانہ بنایا۔ امریکہ میں پولیس کی جانب سے مظاہرین کے خلاف یہ شدت پسندانہ اقدام ایسے ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا واضح مصداق ہے جو خود کو دنیا میں آزادی اظہار اور انسانی حقوق کا گہوارہ قرار دیتا ہے۔
 
امریکی نائب صدر اور آئندہ صدارتی الیکشن میں نامزد امیدوار کمییلا ہیرس نے کانگریس میں نیتن یاہو کی تقریر میں شرکت نہیں کی جبکہ نیتن یاہو سے ملاقات میں بھی اسے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ کیمیلا ہیرس نے غزہ میں جنگ کے تسلسل پر ناراضگی کا اظہار کیا اور یوں امریکی معاشرے میں موجود وسیع تعداد میں جنگ مخالف عناصر کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے غزہ میں غاصب صیہونی رژیم کے ہاتھوں مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی کی حمایت کر کے دنیا بھر کی نفرت خرید لی تھی۔ نہ صرف مسلمان بلکہ دنیا کے مختلف حصوں میں سیاہ فام شہری اور حتی خود امریکہ میں مسلمانوں اور سیاہ فام شہریوں کے علاوہ جنگ مخالف سفید فام شہری بھی جو بائیڈن سے شدید نفرت کا اظہار کرنے لگے تھے۔ اس مسئلے نے آئندہ صدارتی الیکشن کیلئے جو بائیڈن کی محبوبیت پر انتہائی منفی اثر ڈالا تھا۔
 
ایسے حالات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی نئی نامزد امیدوار کیمیلا ہیرس ہر ممکنہ طریقے سے اپنے ووٹ بینک میں اضافہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ موجودہ امریکی حکومت کی جانب سے غزہ جنگ کے دوران 2 ہزار پاوںڈ سے لے کر 500 پاونڈ تک وزنی بم اسرائیل کو مسلسل فراہم کئے جا رہے ہیں جو اسرائیل کی جرائم پیشہ فوج غزہ میں نہتے فلسطینیوں کے سروں پر گرا رہی ہے اور یوں امریکی اسلحے کے ذریعے فلسطینیوں کی نسل کشی اور جنگ جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے۔ یہ امریکہ کا حقیقی چہرہ ہے اور جو بائیڈن یا کیمیلا ہیرس کی صورت میں چہرے تبدیل ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دوسری طرف امریکی حکومت عالمی اداروں میں بھی بھرپور انداز میں غاصب صیہونی حکمرانوں کی قانونی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کرنے میں مصروف ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ہو یا اقوام متحدہ کا ادارہ انروا یا عالمی عدالت انصاف یا انٹرنیشنل کریمینل کورٹ ہو، ہر جگہ امریکی حکمران صیہونی جرائم پیشہ حکمرانوں کی پشت پناہی میں مصروف ہیں۔
 
غزہ جنگ میں صیہونی رژیم کی شکست واضح ہو چکی ہے اور اسی مسئلے نے اصلی ترین حامی کے طور پر امریکہ کو حواس باختہ کر دیا ہے۔ واشنگٹن اور تل ابیب نہ صرف اب تک غزہ جنگ میں اپنا حتی ایک مطلوبہ ہدف بھی حاصل نہیں کر پائے ہیں بلکہ وہ عالمی رائے عامہ میں بھی شدید منفور قرار پا چکے ہیں۔ حال ہی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سربراہ پاول اوبرایان نے ایک بیانیہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے: "امریکہ اس بات سے مطلع ہے کہ اسرائیل غیر قانونی طور پر امریکی ساختہ ہتھیار غزہ میں جنگی جرائم انجام دینے میں استعمال کر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ واشنگٹن اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات میں برابر کا شریک ہے۔ امریکی حکومت کو دنیا بھر سے مختلف ماہرین کی جانب سے اس بات کے کافی اور بہت زیادہ شواہد موصول ہو چکے ہیں کہ اسرائیل غزہ جنگ میں امریکی ساختہ اسلحہ کے ذریعے جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔"
خبر کا کوڈ : 1150920
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش