QR CodeQR Code

پنجاب میں ہر 15 منٹ میں ایک ریپ ہو رہا ہے، لاہور ہائی کورٹ

20 Jan 2025 18:35

چیف جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ آئی جی پنجاب کو بلا لیں تاکہ انہیں بھی ان معاملات کا پتہ ہو۔ وقفے کے بعد دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا تو عدالت کے حکم پر آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور چیف جسٹس کی عدالت میں پیش ہوئے۔


اسلام ٹائمز۔ ریپ کے الزام میں گرفتار ملزم واجد علی کی درخواست ضمانت اور اینٹی ریپ ایکٹ پر عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی رپورٹ پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا پنجاب میں ہر منٹ میں ایک ریپ ہو رہا ہے؟۔ نجی ٹی وی کے مطابق کیس کی سماعت چیف جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں ہوئی، 3 رکنی بینچ میں جسٹس فاروق حیدر اور جسٹس علی ضیا باجوہ بھی شامل تھے۔ دوران سماعت عدالت نے آئی جی پنجاب عثمان انور کو فوری طلب کیا۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ اینٹی ریپ ایکٹ بننے کے بعد سے ڈیڑھ لاکھ کیسز رجسٹر ہوچکے ہیں۔

جسٹس علی ضیا باجوہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں ہر 15 منٹ میں ایک ریپ ہو رہا ہے، ہم تو اس حساب سے بھارت سے بھی آگے نکل گئے ہیں جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے مؤقف اپنایا کہ یہ سب کیسز ریپ کے نہیں ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ پنجاب کے ہر سینٹر میں ایسے کیسز کے لیے خواتین تعینات ہیں، میڈیکل آفیسر اور دیگر افراد ٹریننگ کروائی جا رہی ہے۔ جسٹس علی ضیا باجوہ نے استفسار کیا کہ کیا ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے 32 ہزار کیسز کے متبادل کٹس خریدیں گئیں؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ عدالتی احکامات پر بہت سی خامیاں دور کی گئی ہیں۔ چیف جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ آئی جی پنجاب کو بلا لیں تاکہ انہیں بھی ان معاملات کا پتہ ہو۔ وقفے کے بعد دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا تو عدالت کے حکم پر آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور چیف جسٹس کی عدالت میں پیش ہوئے۔

ایڈوکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحٰق کا کہنا تھا کہ میڈیا میں ایسے بات آ رہی ہے کہ پاکستان میں ریپ کیسز بہت ہی زیادہ ہیں، رپورٹ میں کارروائی کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ رپورٹ کے مطابق منشیات اور قتل کے مقدمات کے بعد ریپ کے کیسز سب سے زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں، اینٹی ریپ ایکٹ مکمل طور پر نافذالعمل نہیں ہے، اینٹی ریپ ایکٹ کے 3 مراحل ہیں۔ جسٹس عالیہ نیلم کا کہنا تھا کہ کیس کو رپورٹ کرنے سے پہلے اینٹی ریپ ایکٹ کو پڑھ لینا چاہیے جس پر ایڈوکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحٰق نے مؤقف اختیار کیا کہ 30 فیصد ریپ کے جھوٹے کیسز درج کرائے گئے۔ جسٹس علی ضیا باجوہ نے استفسارکیا کہ کیا جن لوگوں نے جھوٹے ریپ کے مقدمات درج کرائے ان کے خلاف کارروائی ہوئی؟ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ جھوٹے مقدمات درج کرانے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جاتی ہے۔

چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ صنفی تشدد کے کیس کی تحقیقات کے لیے پرفارما میں ٹراما کا کالم شامل کریں۔ جسٹس عالیہ نیلم نے عدالت میں موجود میاں داؤد ایڈووکیٹ سے استفسار کیا کہ آپ کے آفس سے ایک روزہ استثنیٰ کی درخواست آئی ہے، آپ یہاں موجود ہیں، یہ دستخط دیکھیں آپ کے ہیں جس پر میاں داؤد نے کہا کہ یہ میرے دستخط نہیں ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے جس پر علی ضیا باجوہ نے میاں داؤد سے مکالمہ کیا کہ اس پر وی لاگ بنتا ہے۔ جواب میں میاں داؤد ایڈووکیٹ نے کہا کہ وی لاگ چھوڑ دئیے ہیں، ٹوئٹر پر گزار کر رہا ہوں۔ دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کروئی جس میں کہا گیا کہ تمام ڈسٹرکٹ میں یونٹ فعال کی گئی ہیں، 150 یونٹ پنجاب بھر میں کام کر رہے ہیں، خصوصی عدالتیں ایسے قوانین کے تحت کیسز کی سماعت کرتی ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئی جی پنجاب نے ریپ کیسز کے حوالے سے اچھا کام کیا ہے، جرائم کو ہم سب نے مل کر ختم کرنا ہے۔ جسٹس عالیہ نیلم نے ایڈوکیٹ جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی رپورٹ کے مطابق ریپ کے بڑھتے واقعات ہمارے لیے الارمنگ ہیں جس پر ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے مؤقف اختیار کیا کہ ہم کوشش کر رہے مکمل طور پر قانون کے مطابق ریپ کیسز کو ڈیل کریں۔ جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ ان کیسز کی تفتیش کے لیے آفیسر کی بہترین ٹریننگ کی ضرورت ہے۔ دوران سماعت پراسیکیوٹر جنرل پنجاب فرہاد علی شاہ نے مختلف سیکشنز کا حوالہ دیا اور دلائل دیئے کہ 17 سکیل سے کم سکیل کا کوئی پولیس افسر ان کیسز کی تحقیقات نہیں کر سکتا۔ 

آئی جی پنجاب عثمان انور نے عدالت کو بتایا کہ سیف سٹی اتھارٹی کی مدد سے ورچوئل پولیس اسٹیشن قائم کر دیا گیا ہے، ریپ سے متاثرہ خاتون ای میل، کال یا واٹس ایپ کے زریعے شکایت درج کرا سکتی ہیں، 2 ہزار 100 خواتین کو بھرتی کیا گیا ہے جن کی سپیشل ٹریننگ کرائی گئی ہے جبکہ 880 تفتیشی افسران بھی بھرتی کئے گئے ہیں جن کی کم از کم تعلیم گریجویشن ہے، ایک تفتیشی افسر ایوریج 53 کیسز کو ڈیل کرتا ہے۔ دوران سماعت رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ نے میاں داود ایڈووکیٹ کی التوا کی درخواست پر رپورٹ پیش کی۔ چیف جسٹس نے میاں داؤد سے سوال کیا کہ اس کیس میں آپ نے التوا کی استدعا کی تھی اور آپ عدالت کے سامنے موجود ہیں جس پر انہوں نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لی۔

میاں داؤد ایڈوکیٹ نے مؤقف اختیار کیا کہ میرے آفس کی غلطی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے نہ کریں اپ تو خود اس سسٹم کو خراب کر رہے ہیں۔ ملزم بچہ تھا، اسے پتا نہیں تھا۔ ایڈوکیٹ میاں داؤد نے مؤقف اختیار کیا کہ ملزم بچہ ہے، اسے پتہ نہیں تھا جس پر جسٹس عالیہ نیلم نے انہیں تنبیہ کی کہ بچے کا لفظ استعمال نہ کریں ،بچہ کیا ہوتا ہے؟ وہ لا گریجویٹ ہے آپ اسے بچہ کہ رہے ہیں، جس پر میاں داؤد نے ایک بار پھر عدالت سے غیر مشروط معافی مانگی۔ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالت موقع دے میں اس معاملے کو دیکھ لیتا ہوں جس پر عدالت نے کہا کہ آپ اس پر ہمیں اگلی سماعت پر رپورٹ جواب جمع کروائیں۔

چیف جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیئے کہ آئندہ سماعت پر رپورٹ کو دیکھ کر ہم حکم نامہ جاری کریں گے۔ دوران سماعت جسٹس فاروق حیدر نے ریمارکس دیئے کہ ہم سب نے مل کر سسٹم کو ٹھیک کرنا ہے، رولز میں کچھ ترمیم کی بھی ضرورت ہے، ایڈوکیٹ جنرل حکومت کے علم میں لائیں، آئی جی پنجاب، ایڈوکیٹ جنرل پنجاب، وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) سب مل کر بیٹھ جائیں اور رولز میں کمی کوتاہی کو دور کریں۔ دریں اثنا چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل کو بلایا تھا وہ کیوں نہیں آئے؟ یہ پورے ملک کا معاملہ ہے اٹارنی جنرل کو پیش ہونا چاہیے تھا جس کے بعد عدالت نے اٹارنی جنرل پاکستان کو آئندہ سماعت پر ہو صورت پیش ہونے کا حکم دے دیا۔


خبر کا کوڈ: 1185473

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/news/1185473/پنجاب-میں-ہر-15-منٹ-ایک-ریپ-ہو-رہا-ہے-لاہور-ہائی-کورٹ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com