اسرائیل کے اہداف اور حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے، صیہونی جرنیل
8 Jan 2025 20:34
غزہ کے شمال میں فلسطینیوں کی نسل کشی اور ان کی جبری نقل مکانی پر مبنی "جرنیلوں کا منصوبہ" تیار کرنے والے صیہونی جنرل گیورا ایلینڈ نیتن یاہو کابینہ پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے اور فوجی دباو کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
اسلام ٹائمز۔ "جرنیلوں کا منصوبہ" ایسا مجرمانہ روڈ میپ ہے جس کے تحت اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم غزہ کے شمالی حصے سے فلسطینی شہریوں کا مکمل صفایا کرنے کے درپے تھی اور اس مقصد کے لیے اس نے بھرپور قتل عام کے ساتھ ساتھ فوجی طاقت کے بل بوتے پر فلسطینیوں کو جبری نقل مکانی پر مجبور کر دینے کی حکمت عملی اپنائی تھی۔ یہ منصوبہ غزہ جنگ کے آغاز سے ہی زیر غور ہے اور اسے جامہ عمل پہنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ البتہ حال ہی میں اس منصوبے کے بانیوں میں سے ایک، صیہونی جنرل گیورا ایلینڈ نے عبری اخبار یدیعوت آحارنوت میں ایک مقالہ شائع کیا ہے جس میں واضح طور پر اس منصوبے کی ناکامی کا اعتراف کیا ہے۔ وہ اپنے مقالے میں لکھتا ہے: "جنگ میں اسرائیل کے اہداف حاصل کرنے کے لیے صرف فوجی دباو کافی نہیں ہے۔" یہ صیہونی جنرل اپنے مقالے "جنگ غزہ کی نتیجہ گیری: فوجی دباو کافی نہیں ہے" میں مزید لکھتا ہے: "اسرائیل کی سب سے بڑی غلطیوں میں سے ایک امریکی موقف کو دہرانا ہے جس میں حماس کو ایک ایسا "دہشت گرد" گروہ قرار دیا گیا ہے جس نے خود کو غزہ کی عوام پر مسلط کر رکھا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حماس، غزہ کی حکومت جانی جاتی ہے جس نے 7 اکتوبر 2023ء کے دن اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کیا تھا۔"
اس مقالے میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومتوں کے درمیان جنگ میں دشمن کے خلاف اقتصادی دباو کا ہتھکنڈہ بروئے کار لایا جا سکتا ہے اور اسرائیل غزہ کے خلاف محاصرہ تنگ سے تنگ تر کر سکتا تھا۔ دوسری غلطی اسرائیل کی جانب سے دشمن کی کمزوریوں سے فائدہ نہ اٹھانا تھا اور وہ حماس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کر سکا۔ ہمارے پاس اپنے اہداف کے حصول کے لیے تین راستے موجود تھے۔ ایسے وقت جب غاصب صیہونی رژیم نے غزہ کی پٹی کو دنیا کے سب سے بڑے زندان میں تبدیل کر رکھا ہے اور فلسطینی مہاجرین تک کسی قسم کی انسانی امداد پہنچنے کی اجازت نہیں دے رہا، جرنیلوں کا منصوبہ تیار کرنے والا صیہونی جرنل لکھتا ہے: "اقتصادی پابندیاں لاگو کرنا جرنیلوں کے منصوبے میں شامل کیا گیا ہے کیونکہ اس سے عوام میں حکومت سے ناراضگی پیدا ہوتی ہے اور اس وقت ان پابندیوں کو غزہ کے شمالی حصے میں لاگو کیا جا رہا ہے، لیکن مرحلہ وار انداز میں لاگو ہو رہی ہیں۔ اسی طرح غزہ میں ایک متبادل حکومت کی حمایت کا آپشن بھی تھا جسے اسرائیل نے مسترد کر دیا۔ فلسطینیوں کو اپنی سرزمین کھو دینے کی دھمکی بھی ایک اور حکمت عملی ہے جسے ابھی اسرائیل نے نہیں آزمایا۔"
جنرل گیورا ایلینڈ مزید لکھتا ہے: "اسرائیل نے غزہ میں ایسی روایتی حکمت عملیاں اختیار کی ہیں جو صرف فوجی دباو پر مرکوز تھیں۔ یہ ایک بڑی غلطی ہے کیونکہ اسرائیل نے اس بارے میں نہیں سوچا کہ حماس نے گذشتہ پندرہ سال سے خود کو ایسے دباو کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کر رکھا ہے۔ اسرائیل کی تیسری غلطی، جنگ کے بعد غزہ کی سیاسی صورتحال کے بارے میں ایک واضح منصوبہ پیش کرنے میں ناکامی ہے۔ جو بائیڈن، جو عنقریب امریکہ کے صدر کے عہدے سے ہٹ جائے گا، نے 7 اکتوبر کے حملے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے مطالبہ کیا کہ وہ جنگ کے بعد والے مرحلے کے بارے میں اپنا منصوبہ پیش کرے لیکن نیتن یاہو نے واضح جواب نہیں دیا اور کہا کہ جب ہم جنگ کے بعد والے مرحلے میں پہنچیں گے تب اس بارے میں بات کریں گے۔" صیہونی جنرل لکھتا ہے: "نیتن یاہو کا یہ موقف گستاخانہ تھا اور اس کا مطلب یہ تھا کہ جنگ کے بعد خطے کے انتظامی امور کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔ بہتر یہ تھا کہ اسرائیلی کابینہ اس بارے میں اپنا موقف واضح کرتی۔"
خبر کا کوڈ: 1183171