استقامتی مکتب کسی ایک فرد پر منحصر نہیں
مقاومت کا بنیادی ہتھیار شہداء کا خون ہے، سید عباس عراقچی
ڈپلومیسی، استقامتی مکتب کا ایک جزو ہے، ان دونوں کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں
5 Jan 2025 15:26
شہید قاسم سلیمانی کی برسی کی تقریب سے اپنی ایک خطاب میں ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ استقامتی مکتب ایک مثالی سوچ کا انداز اور مقدس ہدف ہے۔ اسے کسی بم یا ہتھیار سے تباہ نہیں کیا جا سکتا۔
اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کی عمارت میں شہید قاسم سلیمانی کی 5ویں برسی کی تقریب منعقد ہوئی۔ جس سے وزیر خارجہ "سید عباس عراقچی نے" خطاب کیا۔ اس موقع پر انہوں نے شہید قاسم سلیمانی کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ رہبر معظم انقلاب نے جہاں بھی شہید قاسم سلیمانی کا ذکر کیا انہیں استقامتی مکتب کے سمبل سے یاد کیا۔ سید عباس عراقچی نے کہا کہ استقامتی مکتب کے بانی امام خمینی رہ اور رہبر معظم انقلاب "سید علی خامنہ ای" ہیں۔ امام خمینی رہ نے جن دینی و دنیاوی نظریات کو متعارف کروایا اور رہبر معظم انقلاب نے جن افکار کی ترویج کی وہ مل کر اس بات کا باعث بنے کہ ہم ان افکار و نظریات کا نام استقامتی مکتب رکھیں۔ جنرل قاسم سلیمانی رہ نے اسی استقامتی مکتب کو استقامتی بلاک یا محاذ میں تبدیل کیا اور خطے میں ایک ایسی تبدیلی ایجاد کی جسے ہرگز نہیں روکا جا سکتا۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ استقامتی مکتب ایک مثالی سوچ کا انداز اور مقدس ہدف ہے۔ اسے کسی بم یا ہتھیار سے تباہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ مکتب کسی ایک فرد پر بھی منحصر نہیں کہ کسی ایک رہنماء کی شہادت سے یہ مکتب ختم ہو جائے۔ یہ ایک مقدس ہدف ہے کہ جو گولیوں سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
سید عباس عراقچی نے کہا کہ اتفاقاََ یہ مکتب مذکورہ بالا امور کے برعکس ہے۔ استقامتی مکتب کے پاس اسلحہ ہے لیکن وہ بنیادی ہتھیار شہداء کا خون ہے۔ یہ تعبیر، امام خمینی رہ کے اسی نظریہ کی بنیاد پر ہے جسے انہوں نے انقلاب اسلامی کی جدوجہد کے دوران ارشاد فرمایا تھا کہ خون، شمشیر پر فاتح ہے۔ یہ لازوال تعبیر خود ایک درسگاہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی کے ضمن میں ہم کہتے ہیں کہ مقاومت اسلحہ سے لیس ہے لیکن وہ ان ہتھیاروں پر انحصار نہیں کرتی۔ کیونکہ اس مکتب کا اصلی و اساسی ہتھیار شہداء کا خون ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے بانی انقلاب اسلامی کا ایک قول نقل کیا جس میں انہوں نے کہا کہ جب کسی جرنیل کے ہاتھ سے پرچم گرے گا تو دوسرا قابل جرنیل فوراََ اس پرچم کو تھام لے گا۔ اسی بیان کا حوالہ دیتے ہوئے سید عباس عراقچی نے کہا کہ انہی جرنیلوں کو اپنے خون سے مقاومت کی آبیاری کرنی ہے۔ یہ مقاومت انہی بزرگان کے خون سے آگے بڑھے گی۔ استقامت کا انحصار ان لوگوں پر ہے جو اس مکتب کو قبول کرتے ہوئے اس دھارے میں شامل ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دشمن یہ نہ سوچے کہ وہ اس مکتب پر کاری ضرب لگا کر کامیاب ہو جائے گا، بلکہ ہماری نظر میں یہی امر دشمن کی ناکامی کا نقطہ آغاز ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے لبنان کی مقاومتی تحریک "حزب الله" کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ پہلی بار نہیں کہ حزب الله نے اپنے سربراہ کو کھویا ہو۔ ہمارے پاس شهید "سید عباس موسوی" تھے کہ جنہیں صیہونیوں نے شہید کر دیا۔ اب اگر آپ موازنہ کریں تو پتہ چلے گا کہ سید عباس موسوی کی شہادت کے بعد حزب الله پہلے سے زیادہ مضبوط و طاقتور بن کر ابھری۔ اس دوران حزب الله نے کتنی حیرت انگیز کارروائیاں اور اقدامات کئے۔ بالکل ویسے ہی یقیناََ "سید حسن نصر الله" کی شہادت کے بعد حزب الله مزید قدرت مند ہو کر ابھرے گی۔ کیونکہ کامیابی کی کلید صبر و استقامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقاومت کوئی کلاسیکل فوج نہیں کہ آگے بڑھے اور کبھی جیتے یا کبھی ہارے۔ مقاومت کی حرکات، سوچنے کا انداز اور طریقہ کار مختلف ہے۔ گزشتہ سالوں میں مقاومت نے کئی نشیب و فراز دیکھے مگر ہمیشہ یہ آگے ہی بڑھی اور بلاشبہ یہ مزید آگے بڑھتی چلی جائے گی۔ سید عباس عراقچی نے کہا کہ ڈپلومیسی، استقامتی مکتب کا ایک جزو ہے۔ ڈپلومیسی، میدان جنگ کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتی ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں۔ کیونکہ بنیادی طور پر میدان جنگ اور ڈپلومیسی ایک ہدف کے حصول کے لئے باہمی طور پر آگے بڑھتے ہیں۔
سید عباس عراقچی نے کہا کہ میدان نبرد ڈپلومیسی کے لئے راہ کھولتی ہے اور ڈپلومیسی جنگ کے نتائج کو اپنی قومی سلامتی، مفاد و حمیت میں تبدیل کرتی ہے۔ان دونوں شعبوں کو مل کر چلنا چاہئے۔ میدان نبرد، ڈپلومیسی اور میڈیا مل کر کسی بھی کامیابی کو یقینی بناتے ہیں۔ اگر ان میں سے ایک بھی رکن پیچھے رہ جائے تو بہتر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے۔ انہوں نے گزشتہ چند مہینوں میں خطے، ایران اور مقاومت کے سنگین دور کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ جو کچھ گزرا وہ میدان نبرد اور ڈپلومیسی کے درمیان ہم آہنگی کی دوبارہ تشکیل تھا۔ اس دوران ہر کسے نے اپنی ذمےداری پر عمل کیا۔ اپنے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اگر میری جگہ وزارت خارجہ میں کوئی اور بھی ہوتا تو یہی کرتا۔ میں نے بھی اپنے وظیفے پر عمل کیا کسی پر کوئی احسان نہیں کیا۔ وزارت خارجہ کی یہی خاصیت ہے کہ وہ میدان میں حاضر رہے چاہے وزیر ہو یا مشیران۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ وزارت خارجہ ہمیشہ میدان میں موجود رہی اور اس سلسلے میں ہم نے یمن، بوسنیا، عراق اور مختلف جگہوں پر قربانی سے بھی دریغ نہیں کیا۔ ہم نے اس قربانی کو اپنی ڈیوٹی کا حصہ سمجھا اور انشاءالله ہم اس راستے کو جاری رکھیں گے۔
خبر کا کوڈ: 1182502