غزہ جنگ کے دوران بشار الاسد کی خاموشی ایک بڑا سوالیہ نشان تھی، ناصر عباس شیرازی
18 Dec 2024 17:09
ایم ڈبلیو ایم کے رہنما نے کہا کہ امریکہ جانتا ہے کہ اگر اسرائیل کو مکمل طور پر شکست دی گئی تو یہ ایک تباہ کن امریکی شکست ہوگی اور امریکہ مشرق وسطیٰ سے غائب ہو جائے گا، شام کے مسلح گروہ جشن منانے میں مصروف ہیں۔
اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے زیراہتمام مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال پر آن لائن سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ اس سیمینار میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری جنرل اور سینٹر فار پاکستان اینڈ گلف اسٹڈیز کے چیئرمین سید ناصر عباس شیرازی نے مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شام ایک قدیم عالمی تہذیب و ثقافت کا حامل ملک ہے، جس کا دارالحکومت دمشق ہمیشہ سماجی، سیاسی، مذہبی اور معاشی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے، شام کی اسرائیل کے ساتھ دشمنی کی وجہ سے ملک پر مسلح گروہوں کی طرف سے بار بار حملے کیے جاتے رہے ہیں تاکہ اسرائیل کی سرحدوں کے قریب کوئی بھی ہمسایہ دفاعی طور پر مضبوط نہ ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ بشار الاسد داعش کے دہشت گردانہ حملوں کو کامیابی سے شکست دینے میں کامیاب رہے، ان حملوں کو امریکہ اور مغرب کی حمایت حاصل تھی، اس جدوجہد میں شامی حکومت کی درخواست پر روس، ایران اور حزب اللہ کا تعاون بہت اہم اور کلیدی تھا اور اس کے ذریعے وسطی ایشیا، ترکی، اردن، عراق اور دیگر ممالک سے شام میں داخل ہونے والے دہشت گردوں کا خاتمہ کیا گیا، لیکن 14 ماہ تک جاری رہنے والی اسرائیل غزہ جنگ کے دوران بشار الاسد کی خاموشی ایک بڑا سوالیہ نشان تھی، اس عرصے کے دوران صیہونی حکومت نے شام پر کئی حملے کیے لیکن شامی حکومت نے نہ صرف ان حملوں کا جواب نہیں دیا بلکہ ایران اور حزب اللہ کے لیے جگہ بھی محدود کر دی۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما نے مزید کہا کہ جو قوم اپنے مقاصد سے آگاہ نہ ہو وہ اپنے فرائض سرانجام نہیں دے سکتی، ایک طرف بشار الاسد کو مغرب اور عرب ممالک کے قریب آنے کا غلط راستہ دکھایا گیا اور دوسری طرف امریکہ اور اسرائیل کے اشارے پر ترکی نے ادلب میں مسلح گروہوں کو مکمل تربیت دی اور ان سے لیس کیا، اس کے علاوہ شامی فوج کے سینئر کمانڈروں کو اندر سے خرید لیا گیا اور اس کے نتیجے میں غیر ملکی مسلح گروہ بغیر کسی مزاحمت کے حلب سے حما اور حمص سے دمشق پہنچ گئے،شامی فوج نے انہیں کسی محاذ پر روکنے کی کوشش نہیں کی، مغرب اور عرب ممالک کے خوف اور دھوکے کے باعث شامی صدر بالآخر شام میں 53 سالہ علوی حکمرانی ختم کرنے پر مجبور ہوئے اور خفیہ طور پر روس چلے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس صورت حال میں شام کے اتحادیوں نے کچھ نہیں کیا کیونکہ بشار الاسد نے خود شکست تسلیم کر لی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جب ایران، روس اور دیگر مزاحمتی تحریکوں نے اس غیر ملکی صیہونی حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے شامی صدر کے ساتھ تعاون پیش کیا تو انہوں نے نہ صرف مدد لینے سے انکار کر دیا بلکہ خوف زدہ بھی نظر آئے، اس پر یہ دہشت اسرائیل اور امریکہ کی بربریت اور بربریت کی وجہ سے مسلط کی گئی تھی، امریکہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی کھل کر حمایت کرتا ہے کیونکہ اسرائیل خطے میں امریکی طاقت کا ستون ہے، امریکہ جانتا ہے کہ اگر اسرائیل کو مکمل طور پر شکست دی گئی تو یہ ایک تباہ کن امریکی شکست ہوگی اور امریکہ مشرق وسطیٰ سے غائب ہو جائے گا، شام کے مسلح گروہ جشن منانے میں مصروف ہیں اور شام کو استحکام حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی جو اس پورے صیہونی منصوبے کا بنیادی مقصد ہے۔
خبر کا کوڈ: 1179043