بھارت کے سابق چیف جسٹس چندر چوڑ نے ہر مسجد کو نشانہ بنانے کا حوصلہ دیا، اسد الدین اویسی
27 Nov 2024 20:31
مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اس قانون کی وضاحت میں غلطیاں کی ہیں، جس سے اب کئی متنازعہ موضوعات پھر سے ابھرنے لگے ہیں۔
اسلام ٹائمز۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے سپریم کورٹ آف انڈیا کے فیصلوں پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ سال 1991ء کے پلیسیز آف ورشپ ایکٹ (Places of Worship Act 1991) کو کمزور کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ قانون بابری مسجد جیسے تنازعہ کو روکنے کے لئے بنا تھا، لیکن حالیہ حادثات نے ہندتوا تنتظیموں کو ہر مسجد کو نشانہ بنانے کا حوصلہ دے دیا ہے۔ یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے، جب سنبھل میں جامع مسجد کے سروے کے دوران ہوئے تشدد میں 5 افراد کی موت ہوگئی ہے۔ اسد الدین اویسی نے ٹوئٹ کر کے لکھا "پلیسیز آف ورشپ ایکٹ کا مقصد بابری مسجد جیسے تنازعہ کو روکنا تھا، تاہم ایودھیا فیصلے اور گیان واپی معاملے میں عدالت کے کردار نے ہندتوا تنظیموں کو ہر مسجد کو نشانہ بنانے کا حوصلہ دیا ہے، یہ بدقسمتی ہے"۔
اسد الدین اویسی نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کے پلیسیز آف ورشپ ایکٹ کی وضاحت سے متعلق بھی ناراضگی ظاہر کی۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون کا مقصد مذہبی مقامات کے کردار میں تبدیلی کو روکنا ہے، لیکن عدالت کے حالیہ تبصروں نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ اسد الدین اویسی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اس قانون کی وضاحت میں غلطیاں کی ہیں، جس سے اب کئی متنازعہ موضوعات پھر سے ابھرنے لگے ہیں۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں نے مسلم طبقے میں تشویش پیدا کی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ عدلیہ کے کردار نے ایسی تنظیموں کی حوصلہ افزائی کی ہے، جو مذہبی مقامات سے متعلق تنازعہ پیدا کرنا چاہتی ہیں۔
اسد الدین اویسی نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کے پلیسیز آف ورشپ ایکٹ کی وضاحت سے متعلق بھی ناراضگی ظاہر کی۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون کا مقصد مذہبی مقامات کے کردار میں تبدیلی نے کہا کہ اس قانون کے تحت ملک میں کسی بھی مذہبی مقام کے کردار کو 15 اگست 1947ء کی حیثیت کے مطابق برقراررکھنے کا انتظام ہے۔ اس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ مذہبی ہم آہنگی برقرار رہے اور نئے تنازعات جنم نہ لیں۔ اسد الدین اویسی کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب ملک میں مذہبی مقامات سے متعلق کئی تنازعات چل رہے ہیں۔ ان کے اس تبصرے سے ایک بار پھر یہ بحث چھڑ سکتی ہے کہ مذہبی مقامات کے معاملے پر عدلیہ اور سیاست کے درمیان کیا توازن قائم کیا جانا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ: 1175190