کے ایم سی میں گھوسٹ ملازمین کی نشاندہی کیلئے کمیٹی قائم کرنے کی ہدایت
26 Nov 2024 22:11
پی اے سی نے ہر ماہ کروڑوں روپے گھوسٹ ملازمین پر خرچ ہونے کے خدشے کے پیش نظر کے ایم سی کے تمام 12 ہزار سے زائد ملازمین کا ریکارڈ تمام ڈیٹا سمیت طلب کر لیا۔
اسلام ٹائمز۔ سندھ اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) میں گھوسٹ ملازمین کی نشاندہی کیلئے چیف سیکریٹری سندھ کو تحقیقاتی کمیٹی قائم کرنے کی ہدایت کر دی۔ تفصیلات کے مطابق سندھ اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین نثار احمد کھوڑو کی صدارت میں سندھ اسمبلی کی کمیٹی روم میں ہوا اور اجلاس کے بعد جاری بیان کے مطابق کے ایم سی کے 12 ہزار سے زائد ملازمین کی حاضری کیلئے مینیوئل حاضری رجسٹر کے علاوہ ملازمین کی حاضری کیلئے کوئی جدید مکینزم موجود نہ ہونے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔ پی اے سی نے کے ایم سی کے گھوسٹ ملازمین پر ماہانہ کروڑوں روپے خرچ ہونے کے خدشے کے پیش نظر کے ایم سی کے 12 ہزار سے زائد ملازمین کا ریکارڈ تمام ڈیٹا سمیت طلب کر لیا ہے۔ اجلاس میں کے ایم سی کی 2018ء سے 2021ء تک آڈٹ پیراز کا جائزہ لیا گیا اور کے ایم سی افسران سمیت تمام ملازمین کی ڈیٹا، سروس بوک، پرسنل فائلز کی تفصیلات اور 2018ء کی کے ایم سی کی اے ڈی پی کی تفصیلات فراہم نہیں کر سکے۔
پی اے سی چیئرمین نثار کھوڑو نے کے ایم سی کے میونسپل کمشنر سے استفسار کیا کیا کہ کیا کے ایم سی کے مجموعی ملازمین کتنے ہیں اور کتنے ملازمین ڈیوٹی پر آتے ہیں اور ملازمین کی حاضری چیک کرنے کیلئے کیا مکینزم موجود ہے۔ میونسپل کمشنر افضل زیدی نے بتایا کہ کے ایم سی کے 12 ہزار سے زائد ملازمین ہیں، جن کی حاضری چیک کرنے کیلئے صرف حاضری رجسٹر موجود ہے، جبکہ بائیومیٹرک سسٹم نصب نہیں ہے اور کے ایم سی کے ہیڈ آف ڈپارٹمنٹس اپنے اپنے شعبے کے ملازمین کی حاضری کی تصدیق کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کے ایم سی میں کوئی گھوسٹ ملازم نہیں ہے۔ چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ کراچی سندھ کا دارالحکومت ہے اور کے ایم سی ملازمین کی حاضری صرف رجسٹر کے ذریعے مانیٹر کی جا رہی ہے، جدید دور میں بائیو میٹرک نظام کیوں نہیں ہے۔ کمیٹی کے رکن خرم سومرو نے کہا کہ کے ایم سی کے کئی ملازمین ایسے ہیں، جو دو دو محکموں میں کام کر رہے ہیں اور کئی تو ویزا پر ہیں اور ڈیوٹی نہیں کرتے۔
کمیٹی کے ایک اور رکن قاسم سومرو نے کہا کہ ہر ماہ کے ایم سی کے گھوسٹ ملازمین کی کروڑوں روپے تنخواہیں نکالی جا رہی ہیں اور کے ایم سی پر گھوسٹ ملازمین کا الزام ہے۔ کمیٹی رکن خرم سومرو نے کہا کہ کراچی کے قبرستانوں میں بھی کے ایم سی کے گھوسٹ ملازمین گورکن بن کر فی قبر 40 ہزار روپے میں فروخت کر رہے ہیں، جس کا ثبوت میرے پاس موجود ہے۔ میونسپل کمشنر افضل زیدی نے پی اے سی کو بتایا کہ کے ایم سی میں 300 ملازمین ایسے تھے، جو ڈبل تنخواہیں لے رہے تھے اور وہ کے ایم سی کے ساتھ ساتھ سندھ پولیس میں بھی کام کر رہے تھے، ان کی نشاندہی کرکے ان کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔
چیئرمین پی اے سی نثار کھوڑو نے کہا کہ کے ایم سی میں گھوسٹ ملازمین اور گھر بیٹھے تنخواہیں لینے کا عمل کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا، محکموں میں ویزا سسٹم بند ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کے ایم سی میں گھوسٹ ملازمین کی موجودگی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے، اس لیے کے ایم سی ملازمین کی ڈیٹا سمیت ملازمین کی انٹرنل آڈٹ کرائی جائے۔ پی اے سی نے ہر ماہ کروڑوں روپے گھوسٹ ملازمین پر خرچ ہونے کے خدشے کے پیش نظر کے ایم سی کے تمام 12 ہزار سے زائد ملازمین کا ریکارڈ تمام ڈیٹا سمیت طلب کرلیا۔ سندھ اسمبلی کی پی اے سی نے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن میں گھوسٹ ملازمین کی نشاندہی کیلئے چیف سیکریٹری سندھ کو تحقیقاتی کمیٹی قائم کرکے تحقیقات کروانے کی ہدایت کر دی۔
خبر کا کوڈ: 1175031