اسلام ٹائمز۔ انسانی حقوق کے ممتاز کشمیری کارکن خرم پرویز کی نظر بندی تیسرے برس میں داخل ہو گئی ہے۔ ان کی مسلسل نظربندی کی عالمی سطح پر مذمت اور رہائی کے مطالبے میں دن بہ دن تیزی آ رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق جموں و کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی (جے کے سی سی ایس) کے کوآرڈینیٹرخرم پرویز کو بدنام زمانہ بھارتی تحقیقاتی ادارے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے 22 نومبر 2022ء کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون ”یو اے پی اے“ کے تحت حراست میں لیا تھا۔ مودی حکومت نے خرم پرویز کو مقبوضہ جموں کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی طرف سے جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل دینے کی پاداش میں قید رکھا ہوا ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں، فورم ایشیا اور انٹرنیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائٹس (ایف آئی ڈی ایچ ) نے بھی اپنے حالیہ بیانات میں خرم پرویز کی مسلسل نظربندی کی مذمت کرتے ہوئے اسے مقبوضہ علاقے میں جاری بھارتی جبر کی علامت قرار دیا ہے۔
ایف آئی ڈی ایچ نے اپنے بیان میں کہا کہ خرم پرویز اور انسانی حقوق کے دیگر محافظوں کے خلاف بھارتی حکومت کی کارروائیاں تنقیدی آوازوں کو دبانے کی دانستہ کوششوں کا حصہ ہیں۔ تنظیم نے کہا کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد بھارتی حکام نے انسانی حقوق کے محافظوں کے خلاف بھی اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں اور ان کی بنیادی آزادیوں کو کم کیا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کی طرف سے عالمی برادری پر بھی زور دیا جا رہا ہے کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے خلاف جاری کریک ڈاون کے لیے بھارتی حکومت کو جوابدہ بنائے۔