مسائل مذاکرات کی بجائے گولی سے حل کرنیکی کوشش کی جا رہی ہے، علامہ مقصود ڈومکی
16 Nov 2024 21:58
کوئٹہ میں آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم رہنماء علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ پاکستان پچیس کروڑ انسانوں کا ملک ہے، یہ کوئی جنگل نہیں۔ یہ ملک آئین اور قانون کے تحت چلنا چاہئے۔
اسلام ٹائمز۔ ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ ملت جعفریہ نے بلوچستان میں سینکڑوں جنازے اٹھائے۔ بیس سال تک ہماری نسل کشی ہوتی رہی مگر کسی قاتل کو سزا تو دور کی بات ہمارے چوکیدار یہ تک نہ بتا سکے کہ ہمارا قاتل کون ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مسئلے کو افہام و تفہیم اور مذاکرات سے حل کرنے کی بجائے گولی سے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار علامہ مقصود ڈومکی نے کوئٹہ میں جماعت اسلامی کی جانب سے منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ جماعت اسلامی بلوچستان کے زیر اہتمام بلوچستان کے دیرینہ مسائل اور موجودہ صورتحال کے موضوع پر آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی گئی۔
جس سے نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ، صوبائی امیر و رکن صوبائی اسمبلی مولانا ہدایت الرحمن، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی، نیشنل پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری محمد کبیر، بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء ملک نصیر شاہوانی، عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر اچکزئی، پشتونخوا نیپ کے صوبائی صدر نصراللہ زیرے، جمعیت علماء پاکستان کے صوبائی صدر مولانا سید مومن شاہ جیلانی و دیگر نے خطاب کیا۔ آل پارٹیز کانفرنس میں مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے صوبائی صدر علامہ سید ظفر عباس شمسی اور صوبائی صدر مولانا عبدالحق ہاشمی خصوصی طور پر شریک ہوئے۔
اے پی سی سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری تنظیم سازی علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ پاکستان اسلام کے نام پر کلمہ لا إله إلا الله کی بنیاد پر بنا۔ پاکستان پچیس کروڑ انسانوں کا ملک ہے، یہ کوئی جنگل نہیں۔ یہ ملک آئین اور قانون کے تحت چلنا چاہئے۔ پاکستان میں مختلف قومیتیں آباد ہیں۔ بلوچ، پنجابی، سندھی، پشتون اور سرائیکی، اس ملک میں مختلف مسالک آباد ہیں۔ اسلام اور آئین پاکستان اس قوم کو متحد رکھ سکتے ہیں۔ یہ مسلم پاکستان ہے، جو اسے مسلکی پاکستان بنانا چاہتے ہیں وہ اس ملک سے مخلص نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان اس ملک کی بقاء، سالمیت اور ترقی کی ضمانت ہے۔ مقتدر اداروں کی جانب سے آئین کی مسلسل پامالی افسوسناک عمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مسئلے کو افہام و تفہیم اور مذاکرات سے حل کرنے کی بجائے گولی سے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسلام آباد آنے والی بلوچ خواتین کو اسلام آباد میں احترام دیا جاتا تو اس سے اچھا تاثر جاتا، مگر ارباب اختیار و اقتدار بلوچستان کا مسئلہ جبر و تشدد سے حل کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں آئے روز بم دھماکے ہو رہے ہیں۔ لوگوں کو راستہ روک کر قتل عام کیا جاتا ہے۔ مزدوروں کو گولیاں مار کر قتل کیا جاتا ہے۔ کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر بم دھماکہ کیا جاتا ہے، جبکہ ہمارے چوکیدار کو 85 ارب روپے بجٹ ملتا ہے، لہٰذا چوکیدار سے سوال تو بنتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملت جعفریہ نے بلوچستان میں سینکڑوں جنازے اٹھائے۔ بیس سال تک ہماری نسل کشی ہوتی رہی مگر کسی قاتل کو سزا تو دور کی بات ہمارے چوکیدار یہ تک نہ بتا سکے کہ ہمارا قاتل کون ہے؟ اور ان کو فنڈنگ کون کرتا ہے؟
خبر کا کوڈ: 1172975