QR CodeQR Code

اسرائیل اپنی ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر جنگ میں کامیاب نہیں ہو سکتا، صہیونی اخبار

22 Oct 2024 15:20

صہیونی اخبار یدیعوت آحارنوت کا کہنا ہے کہ اگر جدید ٹیکنالوجی اسرائیل کو جنگ میں کامیابی دلوا سکتی تو 7 اکتوبر کا حملہ رونما نہ ہوتا اور ہماری ناکامیوں کی ایک بڑی وجہ ٹیکنالوجی پر حد سے زیادہ انحصار ہے۔


اسلام ٹائمز۔ کیہان نیوز کے مطابق معروف صہیونی تجزیہ کار ایوی شیلون نے اخبار یدیعوت آحارنوت میں شائع ہونے والے اپنے مقالے میں لکھا: "7 اکتوبر کے حملے (طوفان الاقصی آپریشن) کے بعد اسرائیلی معاشرے نے جو سبق سیکھے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسرائیلی فوج کی ناکامی، جدید ٹیکنالوجی پر زیادہ انحصار کی وجہ سے تھی، اور ان واقعات کو دوبارہ رونما ہونے سے روکنے کے لیے اس کی زمینی افواج مضبوط کرنا ضروری ہے۔ اس عمل کے لیے فوجی اور سکیورٹی ٹیموں کی تعداد میں اضافہ، فوجی سروس کی مدت میں توسیع اور اعلیٰ درستگی والی ٹیکنالوجیز پر مکمل انحصار کو روکنے کی ضرورت ہے۔ فوج کو مضبوط کرنے اور 7 اکتوبر کی انٹیلی جنس ناکامی سے سبق سیکھنے کی ضرورت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، لیکن اسرائیلی فوج کے بعض سابق کمانڈر جن مسائل پر بات کرتے ہیں، جیسا کہ زمینی ہتھیاروں کو نظر انداز کرنا اور ٹیکنالوجی پر مکمل انحصار کرنا، ان میں منفی نکات موجود ہیں جن کا ختم ہونا ضروری ہے۔ احتیاط سے جانچ پڑتال کی جائے۔" اس نے مزید لکھا: "اگر لبنان میں پیجر دھماکے کے واقعات اسرائیل کی طرف سے انجام پائے ہیں تو ان سے ٹیکنالوجی کے میدان میں اسرائیل کی عظیم برتری ظاہر ہوتی ہے۔ یہ دھماکے گزشتہ چند ہفتوں میں حزب اللہ لبنان کی کامیاب کاروائیوں کا ردعمل تھے۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج نے جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک اپنی بہترین زمینی فوجیں غزہ کی پٹی میں بھیجیں لیکن وہ دو مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہیں، یعنی نہ تو حماس کا مکمل خاتمہ ہوا اور نہ ہی مغوی افراد اور یحیی السنوار کے مقام کی نشاندہی ہو سکی۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے ہمیں جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔"
 
ایوی شیلون اپنے مقالے میں لکھتا ہے: "واضح رہے کہ اسرائیل ایک چھوٹی سی سرزمین ہے اور اسے مختلف دشمنوں کا سامنا ہے۔ اس صورتحال میں ٹیکنالوجی کی برتری پر بھروسہ کرنے سے بہتر کوئی راستہ نہیں ہے۔ اسرائیل کے موجودہ مسائل میں سے ایک، ڈرون کے خطرات سے نمٹنا ہے جن سے تل ابیب اس وقت روبرو ہے۔ اس لیے ڈرون حملوں کو پسپا کرنے کے لیے مطالعہ، تحقیق اور نئے آلات بنانے کے لیے نئی ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔ نئی فوجی ٹیمیں بنانے سے زیادہ اہم چیز ٹیکنالوجی کی ترقی اور ڈرون کے خطرات کو ختم کرنے پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ ٹیکنالوجی اہم ہے کیونکہ یہی چیز ہمیں اعتدال پسند عرب ممالک کی نظر میں پرکشش بناتی ہے جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے اور اتحاد تشکیل دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ٹیکنالوجی پر انحصار ڈیوڈ بن گورین کے حفاظتی نظریے کے اہم خیالات میں سے ایک تھا۔ اس لیے اسرائیلی فوج کی تشکیل کے فوراً بعد اس نے نئے ہتھیاروں کی تیاری کی درخواست کی اور حفاظتی صنعتوں کو ترقی دینے کے لیے شمعون پیریز کی خدمات حاصل کیں۔"
 
صہیونی تجزیہ کار ایوی شیلون آخر میں لکھتا ہے: "مواصلاتی آلات کا دھماکہ حزب اللہ کے لیے ایک دھچکا ہے لیکن یہ واقعات اسے نہیں روکیں گے۔ لہذا بن گورین کے حفاظتی نظریے میں مختصر جنگیں، عوامی ہم آہنگی اور سیاسی اقدامات شامل تھے جن کا مقصد سیاسی معاہدوں کے ساتھ جنگ ​​کو ختم کرنے کے لیے علاقائی اتحاد بنانا تھا۔ اس کے مطابق اسرائیل کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ موجودہ بند گلی سے باہر نکلنا ہے۔ مقصد غزہ جنگ کا خاتمہ ہونا چاہیے جو اب بے فائدہ ہو چکی ہے۔ تمام قیدیوں کی واپسی کے بدلے غزہ میں لڑائی روکنا حزب اللہ کے ساتھ خود بخود جنگ بندی کا باعث بنے گا۔ اس کے بعد، اگلے چند سال حزب اللہ کے ساتھ حقیقی جنگ کے لیے تیاریوں کے لیے وقف کیے جائیں، ایسی جنگ جو اچانک شروع کی جائے۔ موجودہ حالات میں یہ جنگ بے سود ہے۔ اسرائیل کو سعودی عرب کو تل ابیب کے ساتھ کھڑے ہونے پر راضی کرنے کے لیے سیاسی عمل کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کو ایک ایسے امن معاہدے پر پہنچنا چاہیے جو ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے اعتدال پسند ممالک کی طاقت کو مضبوط کرے۔ یہ تل ابیب کا عظیم مقصد ہے، اور ٹیکنالوجی، اپنی تمام کامیابیوں کے ساتھ، اس مقصد تک پہنچنے کا واحد ذریعہ ہے۔"


خبر کا کوڈ: 1167980

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/news/1167980/اسرائیل-اپنی-ٹیکنالوجی-کے-بل-بوتے-پر-جنگ-میں-کامیاب-نہیں-ہو-سکتا-صہیونی-اخبار

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com