QR CodeQR Code

نئے نصاب تعلیم کے ممکنہ خدشات

16 Oct 2024 12:35

اسلام ٹائمز: یہ احساس گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے کہ ایک مسلک کی رائے کو ماننے کیلئے دوسرے کو مجبور کیا جا رہا ہے تو یہ ملکی سلامتی اور آئین پاکستان کی روح کیخلاف ہوگا۔ میں حکومت وقت کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ متنازعہ نصاب تعلیم کے نام پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت کی سرپرستی میں نفرت کا پودا لگایا جا رہا ہے، وہ معاشی اور سیاسی اقدامات سے زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ نئے پیدا شدہ حالات کی وجہ سے بے چینی مزید بڑھ سکتی ہے۔


تحریر: سید منیر حسین گیلانی

یکساں نصاب تعلیم پر جن دنوں تحریک انصاف کی حکومت کے دوران بحث ہو رہی تھی، تو ہم نے اسی وقت نشاندہی کی تھی کہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہوگا۔ یکطرفہ اقدامات سے معاشرے میں بے چینی بڑھے گی۔ اب جبکہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور سکولوں میں پڑھائی جا رہی ہیں تو انکشاف ہوا ہے کہ کھلواڑ ہوا کیا تھا؟ کتابوں میں اتنے دل آزار نکات سامنے آئے ہیں کہ ہم یقین نہیں کرسکتے کہ واقعی نصاب تعلیم یکساں اور متفقہ تھا بھی؟ یا صرف یہ مسلط کیا جانا مقصود تھا۔ ہر ذی شعور شخص جانتا ہے کہ فرقوں کے درمیان اختلافات موجود ہیں اور ایک فرقے کا نقطہ نظر دوسرے سے قدرے مختلف ہے تو صرف انہی باتوں کو نصاب تعلیم میں شامل کیا جائے، جن پر اتفاق رائے موجود ہے۔ اپنی رائے کو دوسرے مکتبہ فکر پر مسلط نہ کریں۔ یہ المیہ تو کافی دیر سے چل رہا ہے کہ پاکستان کے منتخب نمائندے جو عوام کے ووٹوں سے اسمبلی میں پہنچتے ہیں، انہیں ملکی مسائل سے زیادہ اپنی قیادت کے حکم پر احتجاج کرنے یا احتجاج روکنے میں دلچسپی ہے۔ اسی تگ و دو میں نمائندہ ایوان کو مچھلی منڈی بنا دیا جاتا ہے اور ایک دوسرے پر غیر مہذبانہ انداز میں تنقید اور اپنی قیادت کی تعریف کی جاتی ہے۔

اگلے ہی لمحے میں یوں بات پھر تنازع کی شکل اختیار کر لیتی ہے، جس کی وجہ سے میرے جیسا عام پاکستانی تکلیف محسوس کرتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہر منتخب نمائندے کو "تاریخ پاکستان" سے آگاہی کیلئے مختلف مصنفین کی کتابوں کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیئے۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک کسی شخص نے بھی اس ایشو پر کبھی بات نہیں کی کہ مملکت خداداد کو معرض وجود میں لانے سے پہلے ہونیوالی جدوجہد آزادی میں مختلف مکاتب فکر کا رویہ کیا رہا؟ اور یہ بھی کہ اب تک ان کا کیا کردار ہے؟ کیا ریاست پاکستان کیلئے خطرہ ہیں یا محب وطن ہیں؟ مجھے حیرت ہے کہ آج 77 سال گزر جانے کے باوجود بھی کسی بڑے مصنف کی کوئی مصدقہ متفقہ تحریر سامنے نہیں آئی کہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کی جدوجہد میں کن کن بڑی شخصیات نے عملی اقدامات میں حصہ لیا؟ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اب تک کی جو ترقی ہوئی ہے، اس میں کن بڑے لوگوں کے آبا و اجداد کا کیا کردار رہا ہے۔

پاکستان کثیر المذاہب کیساتھ کثیرالمسالک ملک بھی ہے۔ ہر شہری کو اپنے عقائد کے مطابق عمل کرنے کی آزادی ہے۔ پھر 31 علماء کے 22 نکات میں تمام مکاتب فکر نے اتفاق کیا تھا کہ قرآن و سنت پاکستان کا سپریم لاء ہوگا، جبکہ قرآن و سنت کی وہی تشریح اور تعبیر قابل قبول ہوگی، جو اس مسلک کے ہاں مسلمہ ہوگی۔ جس کا مطلب ہے کہ کسی ایک مسلک کی فقہی رائے کو دوسرے پر مسلط نہیں کیا جائیگا۔ لیکن یکساں نصاب تعلیم کے عنوان کے تحت شائع ہونیوالی کتابوں کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ مکتب اہلبیتؑ کے عقائد کو نظرانداز کرکے نصابی کتب کو یکطرفہ طور پر شائع کیا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان حالات میں اس نفرت آمیز رویئے کو کتابی شکل میں نصاب تعلیم کا حصہ بنایا جا رہا ہے، جس سے دوسرے مکتبہ فکر کی دل آزاری ہوتی ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کے اندر فرقہ واریت پھیلنے کے امکانات زیادہ تیزی سے رونما ہو رہے ہیں۔

میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ملک کسی ایک مکتبہ فکر کی جدوجہد کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ موجودہ پاکستان کے کچلے ہوئے طبقے کی قربانیوں سے یہ یہاں تک پہنچا ہے۔ اگر ملک کے اندر کسی ایک مکتبہ فکر کے عقائد کو نظرانداز کرکے نصابی کتب میں تحریف کا سلسلہ شروع ہوا ہے، تو وہ پاکستان کی ترقی سالمیت اور بقاء کیلئے یکسوئی کی جو فکر تھی، اس کو متاثر کیا جا رہا ہے۔ جبکہ یہ احساس گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے کہ ایک مسلک کی رائے کو ماننے کیلئے دوسرے کو مجبور کیا جا رہا ہے، تو یہ ملکی سلامتی اور آئین پاکستان کی روح کیخلاف ہوگا۔ میں حکومت وقت کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ متنازعہ نصاب تعلیم کے نام پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت کی سرپرستی میں نفرت کا پودا لگایا جا رہا ہے، وہ معاشی اور سیاسی اقدامات سے زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ نئے پیدا شدہ حالات کی وجہ سے بے چینی مزید بڑھ سکتی ہے۔

لہٰذا حکومت تحقیق کرکے متنازعہ نصاب تعلیم کو جاری کرنیوالے اشخاص کو کلیدی عہدوں سے ہٹا کر متاثرہ مکتبہ فکر کو یقین دلائے کہ ان کا عقیدہ محفوظ ہے، کیونکہ پاکستان کے تمام محب وطن جوانوں کا مقدس خون دفاع وطن کیلئے بہتا ہے اور آپ جانتے ہیں کہ ہمارا ازلی دشمن پاکستان میں نہ صرف فرقہ واریت کے نام سے عوام کو تقسیم کرنے کی سازشیں کر رہا ہے، بلکہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے علاقوں اور کراچی میں ہونیوالی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں کہ ان حالات پر گہری نظر رکھنے والے محب وطن افراد کو ان اہم عہدوں پر تعینات کیا جائے۔ یکساں نصاب تعلیم کے تحت شائع کی گئی چند درسی کتب میرے سامنے پڑی ہیں، جن میں عقائد کے حوالے سے مضر اور شرپسندی کا انداز جھلک رہا ہے۔

ان کتب کے حوالہ جات کے مطابق نشاندہی کی غرض سے افسران اور بیوروکریٹس سے خط و کتابت کے ذریعے سازش کو بے نقاب کرنیوالے برادرم غلام حسین علوی کی محنت کو سلام پیش کرتا ہوں۔ ارباب اقتدار کو یہ باور کروانا ضروری ہے کہ اس سازش کے پیچھے جن عناصر کے بھی ہاتھ ہیں، خواہ وہ کسی بڑے عہدے پر بیٹھا ہوا ہے اور بااختیار ہونے کی وجہ سے اس شرپسندی کو تقویت دے رہا ہے، اس کو روکا جائے۔ خصوصاً آرمی چیف سید عاصم منیر سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ کسی فرد کو ذمہ دیں، جو نصاب تعلیم میں ہونیوالی سازش کی تہہ تک پہنچ کر فسادی عناصر کا آہنی ہاتھوں سے قلع قمع کریں، تاکہ پاکستان کے عوام کے اندر یکسوئی، ملکی ترقی کیلئے ہم فکری ضروری ہے۔ اس طرح ہم فرقہ واریت ختم کرکے پاکستان بنانے والوں کی روح کو سکون دے سکتے ہیں۔


خبر کا کوڈ: 1166769

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/news/1166769/نئے-نصاب-تعلیم-کے-ممکنہ-خدشات

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com