QR CodeQR Code

پاراچنار، کوئٹہ میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ کیخلاف احتجاجی مظاہرہ

1 May 2018 18:36

اسلام ٹائمز: صدر تحریک حسینی نے کہا کہ وزیرستان اور فاٹا کے دیگر علاقے جہاں حکومت کی بجائے دہشتگردوں کی اجارہ داری قائم تھی، فوج نے ایکشن لیکر دہشتگردوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا، جبکہ کوئٹہ، جو صوبائی دارالحکومت ہونے کیوجہ سے فاٹا سے کچھ زیادہ اہمیت کا حامل ہے، میں دہشتگردوں کا کھلے عام جارحیت کا ارتکاب کرنا حکومت اور ذمہ دار اداروں پر سوالیہ نشان ہے۔


رپورٹ: ایس این حسینی

آج پاراچنار میں تحریک حسینی، مرکزی انجمن حسینیہ اور دیگر مقامی تنظیموں نے متفقہ طور پر کوئٹہ میں اہل تشیع کی نسل کشی کے خلاف ایک پرہجوم پریس کانفرنس کی۔ جس میں انجمن حسینیہ، تحریک حسینی، آئی ایس او، مجلس علمائے اہلبیت اور آئی او کے کارکنوں نے بھرپور شرکت کی۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تحریک حسینی کے صدر مولانا یوسف حسین جعفری نے کہا کہ کوئٹہ میں کافی عرصہ، بالخصوص گذشتہ ایک دہائی سے شیعیان علی علیہ السلام کی نسل کشی جاری ہے۔ کم ہی کوئی ایسا دن گزرتا ہے کہ کوئٹہ کی سڑک، گلی یا کوچہ اہل تشیع کے خون سے رنگین نہ ہو۔ ہزاروں کی تعداد میں مرد، خواتین اور بچے ان واقعات میں لقمہ اجل بن گئے۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں رونما ہونے والے واقعات اور سانحات پر افسوس نہیں کرتے، کیونکہ دشمن سے شکوہ شکایت کرنا بے معنی بات ہے۔ افسوس تو اس بات پر ہوتا ہے کہ بڑے پیمانے پر اہل تشیع کی اس نسل کشی پر حکومت اور اداروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ دہشتگردوں کو حکومت کی جانب سے کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ جس کا مطلب صرف یہی لیا جاسکتا ہے کہ انہیں موجودہ حکومت اور ذمہ دار اداروں ہی کی شہہ حاصل ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیرستان اور فاٹا کے دیگر علاقے جہاں حکومت کی بجائے دہشتگردوں کی اجارہ داری قائم تھی، فوج نے ایکشن لیکر دہشتگردوں پر مکمل کنٹرول حاصل کیا، جبکہ کوئٹہ، جو صوبائی دارالحکومت ہونے کی وجہ سے فاٹا سے کچھ زیادہ اہمیت کا حامل ہے، میں دہشتگردوں کا کھلے عام جارحیت کا ارتکاب کرنا حکومت اور ذمہ دار اداروں پر سوالیہ نشان ہے۔ انہوں نے مرکزی حکومت، بلوچستان کی صوبائی حکومت نیز دیگر ذمہ دار اداروں سے استفسار کیا کہ کیا چھ کروڑ سے زائد اہل تشیع کی اس ملک میں ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی؟ کیا چھ کروڑ سے زیادہ شیعہ عوام اس ملک کے باشندے نہیں؟ اگر ذمہ دار اداروں کو انکے تحفظ کی کوئی تدبیر نہیں سوجھتی، تو خود آرام سے بیٹھ کر انہیں اجازت دی جائے کہ وہ اپنی حفاظت کو یقینی بنانے کی خاطر خود ہی اقدام کریں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اہلیان کوئٹہ کی شکایات کا فوری ازالہ کیا جائے۔ اگر انکے مطالبات پر غور نہ کیا گیا تو آنے والے ایام میں ملکی سطح پر موجود مرکزی شیعہ تنظیموں اور بزرگ علماء نے جو فیصلہ کیا، ہم انکے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونگے۔

انجمن حسینیہ کے سیکرٹری حاجی نور محمد نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ کوئٹہ میں صرف شیعہ اور ہزارہ ہی قتل ہو رہے ہیں۔ دوسری قومیتوں کے لوگ کیوں محفوظ ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہاں کی سول انتظامیہ بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ انہوں نے پاک فوج خصوصاً چیف آف آرمی اسٹاف سے مطالبہ کیا کہ فاٹا کی طرح کوئٹہ میں چارج سنبھال کر دہشتگردوں کا قلع قمع کریں۔ ڈاکٹر سید حسین جان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فوج کہتی ہے کہ دہشتگردوں کی نظر میں فوج مرتد جبکہ شیعہ کافر ہیں۔ یعنی انکی نظر میں دونوں برابر ہیں۔ انہوں نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا ہے تو آج تو فوج محفوظ ہوچکی ہے، جبکہ اہل تشیع کا قتل عام آج بھی اسی طرح جاری و ساری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر فوج شیعوں کو تحفظ نہیں دے سکتی اور اگر پاکستان میں شیعوں کے لئے امن نہیں تو شیعہ کسی اور آپشن پر غور کرسکتے ہیں، کیونکہ اول جاں پھر جہاں۔ پریس کانفرنس کے بعد شرکاء نے پریس کلب کے سامنے سڑک پر احتجاج کیا۔ اس موقع پر بھی مقررین نے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں اہل تشیع کے قتل عام کی مزید اجازت نہیں دی جاسکتی۔ انہوں نے کہا کہ فوجی حکام اپنی پالیسی کا واضح اعلان کریں کہ کیا انہیں اہل تشیع کی ضرورت نہیں؟ اگر ایسا ہے تو شیعوں کا بھی وہی فیصلہ ہوگا، جو مشترکہ ہندوستان کے مسلمانوں نے کیا تھا کہ جب مسلمانوں کو مشترکہ ہندوستان میں اپنی زندگی مشکل نظر آئی تو انہوں نے اپنی علیحدہ ریاست کا مطالبہ کیا۔


خبر کا کوڈ: 721734

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/karikator/721734/پاراچنار-کوئٹہ-میں-شیعہ-ٹارگٹ-کلنگ-کیخلاف-احتجاجی-مظاہرہ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com