دیوانی مسائل کا حل ریونیو ریکارڈ سے ہٹ کر جرگوں سے ممکن نہیں، مولانا منیر جعفری
28 Jun 2020 18:41
اسلام ٹائمز کیساتھ خصوصی انٹرویو کے دوران سابق صدر تحریک حسینی کا کہنا تھا کہ پختون قبائل کے مابین جرگہ سسٹم رائج ہے، تاہم اس میں مقامی سطح پر ایک پیچیدگی پائی جاتی ہے، وہ یوں کہ متحارب قبائل مسلکی اعتبار سے مختلف ہیں۔ جرگے میں یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ ایسے مسائل پر جب حکومت جرگہ تشکیل دیتی ہے تو اس میں آدھے اراکین شیعہ جبکہ آدھے اراکین اہل سنت سے لیتی ہے اور جب جرگہ فیصلہ کرتا ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جرگہ کا ہر رکن اپنے ہم مسلک قبیلے کے حق میں ہی رائے دیتا ہے۔ خواہ اسکا مؤکل فریق غلطی پر ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ مسائل حل ہونے کے بجائے مزید الجھ جاتے ہیں۔
مولانا منیر حسین جعفری کرم میں کسی تعارف کے محتاج نہیں، انہوں نے شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی اور علامہ سید عابد حسین الحسینی سے کسب فیض کرتے ہوئے ابتدائی دینی تعلیم مدرسہ جعفریہ پاراچنار میں حاصل کی جبکہ اعلٰی دینی تعلیم کے لئے قم چلے گئے، قم میں کئی سال گزارنے کے بعد وطن لوٹ کر اپنا زیادہ تر وقت قوم کی خدمت کیلئے وقف کر دیا۔ ابتداء ہی سے تحریک حسینی میں فعال رہنماء کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ 2012ء میں اس تنظیم کے صدر منتخب ہوئے اور پھر 2014ء میں دوبارہ صدر منتخب کر لئے گئے، جبکہ اسوقت تحریک حسینی کے نائب صدر نیز تحریک کے سپریم کونسل کے ممبر کی حیثیت کام کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے پاراچنار کی موجودہ صورتحال پر انکے ساتھ ایک نشست رکھی، جسے اپنے محترم قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ ادارہ
اسلام ٹائمز: آغا صاحب! کرم کے تازہ حالات کے حوالے سے ذرا بریف فرمائیں۔؟
مولانا منیر حسین جعفری: بسم اللہ الرحمن الرحیم، بہت بہت شکریے کے ساتھ عرض یہ ہے کہ کرم (پاراچنار) کشمیر کی طرح ایک بدقسمت علاقہ ہے، جو سال بھر مسائل کے گرداب میں پھنسا رہتا ہے۔ کرم میں آباد قبائل پاکستان بھر کے دیگر تمام علاقوں کی نسبت نہایت مہذب، تعلیم یافتہ، امن پسند اور مہمان نواز لوگ ہیں۔ مگر بدقسمتی سے مقامی حکومت کی کچھ غفلت اور کچھ جانبداری کے سبب یہ لوگ ہر وقت مسائل و مشکلات میں پھنسے رہتے ہیں۔ اس وقت بھی کرم کے کونے کونے میں زمین، جنگلات اور پہاڑوں کے حوالے سے مختلف قبائل کے مابین اختلافات نہایت نازک صورتحال اختیار کرچکے ہیں۔ بالش خیل کا مسئلہ تو گذشتہ تین دہائیوں سے سلگ رہا ہے۔ سال 2020ء کے ماہ جنوری سے کنج علی زئی اور مقبل کے مابین مسئلہ سنگین صورت اختیار کر گیا ہے۔ جس پر اس وقت حکومت نے ایک جرگہ تشکیل دیا ہے۔ تاہم جرگوں سے ایسے مسائل کا کوئی حل نہیں نکالا جاسکتا۔ باقی کل سے بالش خیل کا مسئلہ دوبارہ سر اٹھا چکا ہے اور حکومت کی غفلت کے باعث آج اتوار کو شام پونے چار بجے پاڑہ چمکنی کی جانب سے باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ زمین اور اراضی کے ایسے ہی مسائل پر رمضان المبارک سے تین چار دن پہلے ڈنڈر اور بوشہرہ، 18 رمضان المبارک کو مقبل اور کنج علیزئی جبکہ عید الفطر کے تیسرے روز بوشہرہ اور تائیدہ کے مابین مسلح تصادم ہوچکا ہے، مگر پھر بھی حکومت مسائل کو حل کرنے کا نام نہیں لے رہی۔
اسلام ٹائمز: مولانا صاحب! پختون قبائل کے درمیان جرگہ سسٹم ہوتا ہے، کیا ان مسائل پر جرگے نہیں ہوسکتے۔ جرگوں کے ذریعے ان مسائل کا حل نہیں نکالا جاسکتا۔؟
مولانا منیر حسین جعفری: بالکل! پختون قبائل کے مابین بیشک جرگہ سسٹم رائج ہے، تاہم اس میں ایک پیچیدگی ہے، وہ یوں کہ متحارب قبائل مسلکی اعتبار سے مختلف ہیں۔ یہاں جرگے میں یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ جب حکومت جرگہ تشکیل دیتی ہے تو اس میں آدھے اراکین شیعہ جبکہ آدھے اہل سنت سے لیتی ہے اور جب جرگہ فیصلہ کرتا ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جرگہ کا ہر رکن اپنے ہم مسلک قبیلے کے حق میں ہی رائے دیتا ہے۔ خواہ اس کا مؤکل فریق غلطی پر ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ مسائل حل ہونے کے بجائے مزید الجھ جاتے ہیں۔
اسلام ٹائمز: جب جرگہ نہیں چلتا تو پھر اسکا حل کیا ہوسکتا ہے۔؟
مولانا منیر حسین جعفری: دیکھیں ہمارے مسائل کا سب سے آسان حل حکومت ہی کے پاس ہے اور وہ ہے ریونیو ریکارڈ (کاغذات مال)۔ کرم میں انگریز کے زمانے کا ریونیو ریکارڈ موجود ہے۔ ریونیو ریکارڈ میں ہر قوم اور قبیلہ کا عمل نامہ موجود ہے۔ آپس کے دیوانی تنازعات میں بھی جرگہ ریونیو ریکارڈ کو مدنظر رکھ فیصلہ کرتا ہے۔ فیصلہ کرنے سے پہلے جرگہ فریقین سے ان کے حق میں موجود تمام ریکارڈ طلب کیا جاتا ہے۔ ہر فریق آفس خانے سے رجوع کرکے اپنا شجرہ نسب، انتقال، واجب العرض اور وجہ تسمیہ وغیرہ حاصل کرکے اپنے اپنے جرگہ ممبران کے حوالے کرتا ہے۔ جسے مدنظر رکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے۔ چنانچہ حکومت کو چاہیئے کہ کاغذات مال کی روشنی میں کرم کے تمام دیوانی تنازعات کا فوری حل نکالے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے مابین ایسے بے شمار مسائل موجود ہیں، جو چند سال کے نہیں بلکہ سو سال سے زیادہ عرصہ سے پینڈنگ چلے آرہے ہیں اور حل نہیں ہو رہے۔
اسلام ٹائمز: سنا ہے کہ آپکے مخالف فریق کو انگریز کے تیار کردہ ریونیو ریکارڈ کے حوالے سے شدید تحفظات ہیں۔ وہ کہتے ہیں، کہ یہ ریکارڈ غیر مسلم کا تیار کردہ ہے اور یہ کہ انہوں نے سب کچھ طوری بنگش قبائل کے حق میں کر دیا ہے، اس حوالے سے آپکی رائے کیا ہے۔؟
مولانا منیر حسین جعفری: بیشک ریونیو ریکارڈ انگریز کا تیار کردہ ہے، مگر مقابل فریق کو شاید اس بات کا علم نہیں کہ ریونیو ریکارڈ صرف کرم ہی میں نہیں، بلکہ قبائل علاقہ جات کے علاوہ پورے پاکستان میں موجود ہے اور تمام کا تمام انگریز کا تیار کردہ ہے۔ اگر انگریز کا تیار کردہ ریکارڈ قابل قبول نہیں تو اس حوالے سے خصوصی قانون سازی کرنی پڑے گی۔ جس کے تحت اس تمام ریکارڈ کو ختم کرکے نیا ریکارڈ تیار کیا جائے۔ اس کے علاوہ فوج اور پولیس کے قوانین حتی عدالتی قوانین اور ضوابط بھی انگریز کے تیار کردہ ہیں۔ ان سب کو ختم کرنا ہوگا، جو کہ میرے خیال میں کافی مشکل ہوگا۔
اسلام ٹائمز: آپ نے حکومت کی غفلت اور جانبداری کی بات کی ہے، حکومت کس طرح جانبداری یا غفلت برتتی ہے۔؟
مولانا منیر حسین جعفری: پہلے بھی عرض کیا کہ حکومت کے پاس مکمل ریکارڈ موجود ہے، جس کے تحت وہ مسحق اور غاصب فریق کی نشاندھی کرسکتی ہے، بلکہ انہیں سب کچھ پتہ ہے، پھر بھی وہ جارح فریق سے کہتی نہیں کہ اپنی اوقات میں رہو، تمہارا کوئی حق نہیں۔ ان کی ذمہ داری ہوتی ہے بلکہ ہر حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے عوام، خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں، ان کے جائز حقوق کا مکمل تحفظ کرے۔ گذشتہ دنوں ایک رپورٹ نظر سے گزری، اس میں دیکھا، جبکہ تاریخ میں خود نہیں دیکھا ہے، اس رپورٹ میں لکھا تھا کہ امام علی علیہ السلام کے زمانہ خلافت میں ایک سفر کے دوران کسی غیر مسلم خاتون کے پاؤں کا زیور کسی ڈاکو نے چھین لیا، جب امام علیؑ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے اس پر نہایت افسوس کیا اور کہا کہ ابھی تک علی زندہ ہے اور اس کے ملک کی حدود میں ایک خاتون کے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ یعنی علی علیہ السلام نے واضح کیا کہ اسلامی مملکت کی حدود ہر شہری کے حقوق کا تحفظ اسلامی حکومت کا فریضہ ہوتا ہے، مگر بدقسمتی سے وطن عزیز میں حکمرانوں کو اس بات کا کوئی احساس نہیں۔
اسلام ٹائمز: اگر حکومت اپنا فرض نہیں نبھاتی، تو آپکا اور آپکے قبائل کا اگلا اقدام کیا ہوگا۔؟
مولانا منیر حسین جعفری: دیکھیں، ان تمام مسائل کے حوالے سے حکومت نے جرگے تشکیل دیئے ہیں، تاہم میری نظر میں تو جرگوں سے خیر کی کوئی امید نہیں۔ دوسری جانب تحریک حسینی کی متعلقہ کونسل اس حوالے سے حکومت سے مذاکرات میں مصروف ہے۔ وہ حکومت کو آمادہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ تمام تنازعات پر دوٹوک فیصلہ کرے۔
خبر کا کوڈ: 871378