QR CodeQR Code

رہبر معظم کی امت مسلمہ کو کی گئی نصیحتوں نے مسئلہ فلسطین میں نئی جان ڈال دی، علامہ ارشاد علی

30 May 2020 21:26

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل کا اسلام ٹائمز کیساتھ خصوصی انٹرویو کے دوران کہنا تھا کہ یہ رہبریت کا امتیاز ہے کہ یہاں سے جب بھی بات ہوئی تو تمام امت مسلمہ کی بات ہوئی، رہبر اس ایک ملک کے رہبر نہیں، بلکہ وہ رہبر ولی امر مسلمین ہیں، وہ دنیا میں بسنے والے ہر مسلمان کے لیڈر ہیں۔ وہ صرف ایران یا شیعوں کے رہنما نہیں۔ آغا نے امام خمینی (رح) کے بعد جس طریقہ سے آج تک مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھا ہے، میں کہوں گا کہ پوری امت مسلمہ کو رہبر کا شکرگزار ہونا چاہئے۔ جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تو آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے ایک مرتبہ پھر مسئلہ فلسطین میں جان ڈال دی ہے۔ اور پوری امت کو اس اہم مسئلہ کی جانب ایک مرتبہ پھر متوجہ کرکے امت کے سربراہ کا رول ادا کیا ہے۔ اگر امت مسلمہ ان نصیحتوں پر عمل کرے تو وہ دن دور نہیں کہ اسرائیل کی ناجائز ریاست کا خاتمہ ہوجائے اور مسلمان مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کریں۔


علامہ ارشاد علی کا بنیادی تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو سے ہے، انکا شمار مجلس وحدت مسلمین کے دیرینہ مسئولین میں ہوتا ہے، علامہ صاحب اس وقت ایم ڈبلیو ایم خیبر پختونخوا کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے ملی و قومی ذمہ داری نبھا رہے ہیں، جبکہ اس سے قبل ایم ڈبلیو ایم ضلع ہنگو کے سیکرٹری جنرل اور صوبائی سیکرٹری تربیت کی مسئولیت پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے یوم انہدام جنت البقیع، موجودہ عالمی حالات اور رہبر انقلاب اسلامی کی مسئلہ فلسطین پر امت مسلمہ کو کی جانے والی نصیحتوں کے حوالے سے علامہ ارشاد علی صاحب کیساتھ ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ ادارہ 

اسلام ٹائمز: آل سعود نے لگ بھگ ایک صدی قبل انہی ایام میں اہلبیت (ع) اور صحابہ کرام (رض) کے مزارت کو مسمار کیا اور آج حضرت عمر بن عبدالعزیز کے مزار کے انہدام کے حوالے سے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کیا جارہا ہے، کیا یہ وہی شدت پسندانہ نظریہ اور اسکا تسلسل نہیں۔؟
علامہ ارشاد علی:
بسم اللہ الرحمان الرحیم۔ سب سے پہلے تو اسلام ٹائمز کا شکریہ۔ آپ نے درست فرمایا، یہ اسی آل سعود کا طرز فکر اور نظریہ ہے، جس نے آج سے کئی دہائیاں پہلے سعودی عرب میں مزارات مقدسہ کو مسمار کیا، پھر آپ نے دیکھا کہ اسی سوچ نے القاعدہ اور اب داعش کی شکل اختیار کی، جس نے شام و عراق میں مسلمانوں کی مقدس ہستیوں کے مزارت کی بے حرمتی کی۔ یہ سب اسی سوچ کا تسلسل ہے۔ یہ اسلام کا چہرہ نہیں بلکہ اسلام کے قطعاً منافی ہے۔ اسی فکر نے اسلام کو بدنام کیا ہے، میں تو حیران ہوں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے مزار کے حوالے سے کیسے مخصوص ذہن پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ درحقیقت ان کا مقصد یوم انہدام جنت البقیع کے موقع پر آل سعود کیخلاف اٹھنے والی آواز کو دبانا ہے۔ 

اسلام ٹائمز: عالمی قوانین کے مطابق تو تاریخی اور مذہبی ورثوں کا تحفظ ضروری ہے، کیا وجہ ہے کہ اس مسئلہ پر عالمی ادارے اور مسلم ممالک توجہ نہیں دیتے، اور صرف ایک، آدھ ملک اور ایک طبقہ ہی کی جانب سے اس پر آواز اٹھائی جاتی ہے۔؟
علامہ ارشاد علی:
آل سعود امریکہ کے زیر اثر ہیں، ان کا یہ اقدام جہاں بغض اہلبیت (ع) کو ظاہر کرتا ہے، وہیں یہ امریکہ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کرتے۔ آپ جانتے ہیں کہ کئی مسلم ممالک تو امریکہ کے غلام ہیں، وہ تو امریکہ کی مرضی کے بغیر سانس بھی نہیں لے سکتے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ جنت البقیع کو مسمار کرنے کیخلاف تمام مسلم ممالک ایک ہوتے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سوائے ایران کے، کوئی ملک اس حوالے سے سرکاری سطح پر آواز بلند نہیں کرتا، اور صرف ملت تشیع ہی دنیا بھر میں آل سعود کے اس گھناونے جرم کیخلاف احتجاج کرتی ہے۔ میرا یہ سوال ہے کہ کیا اہلبیت (ع) صرف شیعوں کے ہیں۔؟ کیا صحابہ کرام (رض) صرف شیعوں کے ہیں۔؟ وہ کہاں ہیں جو صحابہ کے نام پر جانیں نچھاور کرنے کے دعوے کرتے ہیں۔ یہ مسلمانیت نہیں۔ آپ کو اپنے اندر سے بغض نکالنا ہوگا، اگر آپ خود کو مسلمان کہتے ہیں تو مکمل مسلمان بنیں، شیعہ، سنی بعد کا مسئلہ ہے۔

اسلام ٹائمز: ایک طرف امریکہ عراق و افغانستان سے فرار کے راستے ڈھونڈ رہا ہے تو دوسری طرف ایران نے امریکی دھمکیوں کے باوجود تیل سے بھرے بحری جہاز وینزویلا بھیج دیئے، حالات کس طرف جاتے دیکھ رہے ہیں۔؟
علامہ ارشاد علی:
 میں سمجھتا ہوں کہ یہ امریکہ کی بہت بڑی شکست ہے، امریکہ ہر گزرتے دن کیساتھ انشاء اللہ بے بس اور کمزور ہوتا جارہا ہے۔ شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ہمارے رہبر نے فرمایا تھا کہ امریکہ اب سخت انتقام کا انتظار کرے۔ امریکہ عراق سے بے دخل ہورہا ہے، افغانستان سے جان چھڑانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور آپ نے ٹھیک فرمایا، کہ امریکہ دھمکیوں کے باوجود بحری جہازوں کو وینزویلا جانے سے نہیں روک سکا۔ لہذا ان جہازوں کا وہاں پہنچنا امریکہ کی شکست اور بے بسی کی علامت ہے۔ سپر پاور کے دعویدار امریکہ کے غبارے سے اب ہوا نکل رہی ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ سپر پاور صرف اور صرف خدا کی ذات ہے، اور زمین پر اس ذات کے الٰہی بندے اس کے مقصد کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اس مرتبہ عالمی یوم القدس کورونا ایمرجنسی کے باوجود بھرپور انداز میں منانا گیا، اس موقع پر رہبر انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ای کی جانب سے امت مسلمہ کو مسئلہ فلسطین پر سات اہم نصیحتیں کی گئیں، ان حالات میں یہ نصیحیتیں کس قدر اہمیت رکھتی ہیں۔؟
علامہ ارشاد علی:
یہ رہبریت کا امتیاز ہے کہ یہاں سے جب بھی بات ہوئی تو تمام امت مسلمہ کی بات ہوئی، رہبر اس ایک ملک کے رہبر نہیں، بلکہ وہ رہبر ولی امر مسلمین ہیں، وہ دنیا میں بسنے والے ہر مسلمان کے لیڈر ہیں۔ وہ صرف ایران یا شیعوں کے رہنما نہیں۔ آغا نے امام خمینی (رح) کے بعد جس طریقہ سے آج تک مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھا ہے، میں کہوں گا کہ پوری امت مسلمہ کو رہبر کا شکرگزار ہونا چاہئے۔ جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تو آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے ایک مرتبہ پھر مسئلہ فلسطین میں جان ڈال دی ہے۔ اور پوری امت کو اس اہم مسئلہ کی جانب ایک مرتبہ پھر متوجہ کرکے امت کے سربراہ کا رول ادا کیا ہے۔ اگر امت مسلمہ ان نصیحتوں پر عمل کرے تو وہ دن دور نہیں کہ اسرائیل کی ناجائز ریاست کا خاتمہ ہوجائے اور مسلمان مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کریں۔

اسلام ٹائمز: آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کی ان نصیحتوں میں صیہونیت کو وائرس قرار دیتے ہوئے اس کے جلد خاتمے کی نوید سنانا کس جانب اشارہ کرتا ہے۔؟
علامہ ارشاد علی:
دیکھیں۔ آغا رہبر نے تو کچھ سال قبل یہ فرمایا تھا کہ اسرائیل آئندہ پچیس سال نہیں دیکھ پائے گا۔ ہم اور آپ نہیں بلکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ رہبر نے جب بھی کوئی پیشنگوئی کی یا کسی طرف اشارہ کیا تو اس کو حقیقت کا روپ دھارتے دیکھا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کی یہ صیہونی ریاست ایک خطرناک وائرس ہے، اور جو وائرس کے قریب رہتا ہے اس کی بھی ہلاکت ہوتی ہے۔ انشاء اللہ اگر امت متحد ہوجائے تو یہ مہلک وائرس جلد ختم ہوگا اور دنیا اس کے منحوس سائے سے آمان پائے گی۔

اسلام ٹائمز: رہبر انقلاب اسلامی کی نصیحتوں کے تناظر میں فلسطین کی آزادی کس اقدام سے ممکن ہوسکتی ہے، اور آپ کے خیال میں اس معاملہ میں اس وقت رکاوٹیں کیا ہیں۔؟
علامہ ارشاد علی:
آغا (آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای) نے تو جہاد اس کا حل قرار دے دیا ہے، جہاد کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے، رکاوٹیں آپ امت مسلمہ کا متحد ہونا ہی سمجھ سکتے ہیں۔ کبھی فلسطین کے مسئلہ کو علاقائی مسئلہ بنایا جاتا ہے، کبھی کسی بنیاد پر اس معاملہ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی کوئی نیا شوشہ چھوڑا جاتا ہے۔ جب تک امت مسلمہ اس مسئلہ کو امت کا مسئلہ نہیں سمجھتی، اس وقت تک اسرائیل قابض رہے گا۔ یہ مذہبی مسئلہ کیساتھ ساتھ انسانی المیہ بھی ہے۔ اسرائیل ببانگ دہل انسانی حقوق وہاں پامال کر رہا ہے۔ لیکن اسے کوئی روکنے والا نہیں۔ امریکہ اس کا سب سے بڑا پشت پناہ ہے اور بعض عرب ممالک بھی اس گھاونے جرم میں شریک ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ سے آخری سوال کہ اب جبکہ امت مسلمہ تقسیم ہے، اسے ان مسائل پر کیسے متحدہ کیا جاسکتا ہے۔؟
علامہ ارشاد علی:
ہمیں فرقوں سے نکل کر ایک امت بننا ہوگا، امت مسلمہ میں نیک، صالح، نڈر اور حالات پر نظر رکھنے والی قیادت کا انتخاب کرنا ہوگا، کئی مسلم ممالک جانتے ہیں کہ سید علی خامنہ ای جیسا مسلم لیڈر دنیا میں موجود نہیں ہے، لیکن محض تعصب کیوجہ سے قبول نہیں کرتے۔ ان تعصبات کو پس پشت ڈالنا ہوگا۔ امریکہ اور اسرائیل کی غلامی سے نکلنا ہوگا۔ جب تک امت مسلمہ متحد نہیں ہوتی، اس وقت نہ کشمیر آزاد ہوسکتا ہے اور نہ ہی فلسطین۔ متحد ہونے کا مقصد یہ نہیں کہ تمام مسلم ممالک ایک پالیسی بنائیں، اپنے اپنے نظریات سے ہٹ جائیں، بلکہ یہ کہ امت کے ایشو پر کم از کم ایک نظر آئیں، اب ایران یا رہبر کی طرف سے فلسطین کی حمایت کوئی ان کا ذاتی مسئلہ نہیں ہے۔ ایران کو فلسطین سے کیا لینا دینا، لیکن مظلومیت کیوجہ سے فلسطین کی بات کی جاتی ہے، قبلہ اول پر ناجائز قبضہ کی وجہ سے فلسطین کی آزادی کی بات کی جاتی ہے۔


خبر کا کوڈ: 865638

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/interview/865638/رہبر-معظم-کی-امت-مسلمہ-کو-گئی-نصیحتوں-نے-مسئلہ-فلسطین-میں-نئی-جان-ڈال-دی-علامہ-ارشاد-علی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com